بدنام”منّی“ اور الیکشن تجربہ گاہ
پاکستان کی پون صدی کی سیاسی تاریخ کا خلاصہ یہ ہے کہ سیاست اور جمہوریت وہ ”منّی“ ہے، جو ”ڈارلنگ“(پہلے دس سال بیوروکریٹس اور اگلے پینسٹھ سال جرنیلوں) کے لئے بار بار بدنام ہوتی ہے۔ اس سال قومی اسمبلی میں بجٹ سیشن شروع ہوتے ہی ایک نئی طرح کی ہنگامہ آرائی دیکھنے کو ملی۔ پارلیمانی روایات کے مطابق ہاؤس کو چلانے کی ذمہ داری (خصوصاً بجٹ سیشن) حکومتی بنچوں کی ہوتی ہے۔ بجٹ سیشن کی کاروائی کا آغاز اپوزیشن لیڈر کی تقریر سے ہوتا ہے۔ اس دفعہ عجیب بات یہ ہوئی کہ جیسے ہی روایات اور اصول کے مطابق اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بجٹ پر تقریر شروع کی، فوراً ہی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت کئی اہم حکومتی وزرا اور اراکین نے ان کے گرد گھیرا ڈال کا شور مچانا شروع کر دیا کہ وہ انہیں تقریر نہیں کرنے دیں گے۔اس کے بعد جوابی نعرہ بازی شروع ہوئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایوان مچھلی منڈی بن گیا، جس میں گالم گلوچ اور ایک دوسرے کو چیزیں بھی ماری گئیں۔ پہلے دن شہباز شریف تقریر نہ کر سکے، اس کے بعد دوسرے اور تیسرے دن بھی انہیں بجٹ کی اوپننگ تقریر نہیں کرنے دی گئی اور پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار اپوزیشن لیڈر کی تقریر چوتھے دن مکمل ہو سکی۔ بظاہر یہ واقعہ سیاسی (یا پارلیمانی) ہنگامہ آرائی کا ہے، لیکن میرے نزدیک یہ جمہوریت، پارلیمان، پارلیمانی نظام اور سیاست دانوں کو مکمل طور پر ڈس کریڈٹ کرنے کی سازش ہے۔ یہ بات نہیں کہ اسمبلی میں ہلڑ بازی پہلی دفعہ ہوئی ہے،پہلے بھی جمہوریت اور سیاست دانوں کو منظم طریقہ سے ڈس کریڈٹ کرنے کے واقعات ہوتے رہے ہیں اور ان کے بعد فوج اقتدار پر قبضہ بھی کرتی رہی ہے۔
پاکستان بنے صرف گیارہ سال ہی ہوئے تھے کہ 4 اکتوبر 1958ء کو مشرقی پاکستان اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر شاہد علی پر اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ اسمبلی اجلاس کے دوران قائم مقام سپیکر کے طور پر اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ وہ دو ن بعد زخموں کی تاب نہ لاکر 6 اکتوبر کو چل بسے۔ اس وقت کی مشرقی پاکستان اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن اراکین کی تعداد تقریباً برابر تھی۔ سپیکر عبدالحکیم نے ضوابط کی سنگین خلاف ورزی پر چھ حکومتی اراکین کو نا اہل قرار دے کر ان کی رکنیت ختم کردی کیونکہ وہ سرکاری ملازمت بھی کر رہے تھے۔ اس طرح حکومت کی اسمبلی میں اکثریت، اقلیت میں بدل گئی۔ حکومتی اراکین پیپر ویٹ، میزیں اور بنچیں توڑ کر ان کی لکڑیاں اور پردوں کے راڈ لے کر انہیں مارنے لپکے تو سپیکر صاحب وہاں سے بھاگ گئے۔ اس کے بعد ڈپٹی سپیکر کی صدارت میں جب اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو انہوں نے نااہل ہونے والے حکومتی اراکین کی رکنیت بحال کردی، جس پر اپوزیشن اراکین نے ان پر نہ صرف انہی چیزوں سے حملہ کر دیا،بلکہ مائکوں کے لئے سٹیل کے بنے ہوئے سٹینڈز اور کرسیاں اکھاڑ کر مارنا بھی شروع کردیا۔ کسی رکن نے اپنی میز کا پینل اکھاڑ کر ڈپٹی سپیکر کے سر پر وار کیا تو وہ وہیں خون میں لت پت ہو کر ڈھیر ہو گئے اور دو دن بعد زخموں کی تاب نہ لا کر جاں بحق ہو گئے۔ ڈپٹی سپیکر کے قتل کے اگلے ہی روز صدر اسکندر مرزا نے ملک میں مارشل لاء لگا دیا اور پھر تین ہفتے بعد آرمی چیف ایوب خان نے انہیں بھی ہٹا کر اقتدار پر قبضہ کر لیا اور پھر ساڑھے دس سال مطلق العنان ڈکٹیٹر کے طور پر حکومت کی۔ 1977ء اور 1999ء میں بھی پہلے ”منّی“ کو خوب بدنام کیا گیا اور پھر فوجی آمروں جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے بالترتیب گیارہ اور ساڑھے آٹھ سال حکومت کی۔ قومی اسمبلی کے موجودہ سیشن کو دیکھتے ہوئے مجھے ”منّی“ بار بار یاد آتی رہی۔
پاکستان،سیاست دانوں نے ایک عظیم سیاست دان محمد علی جناح کی قیادت میں بنایا تھا، لیکن پہلے سال سے ہی نہ صرف سیاسی رہنماؤں کو ڈس کریڈٹ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا گیا،بلکہ تقریباً ہر الیکشن میں جمہوریت اور سیاست کو کمزور کرنے کے نت نئے طریقے بھی ایجاد کئے گئے۔ پہلے آئین کے بعد ہونے والے انتخابات بھی بالغ رائے دہی کے تحت نہیں تھے اور دوسرے آئین کے بعد بھی صرف بی ڈی ممبرز کو ہی ووٹ دینے کا حق حاصل تھا۔ جنرل یحییٰ خان نے بالغ رائے دہی کے تحت ملکی تاریخ میں پہلی بار الیکشن کرائے، لیکن انتقال اقتدار نہ کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے غیر جماعتی الیکشن کا تجربہ کیا، لیکن اسمبلی بننے کے بعد انہیں جماعتی میں تبدیل کر دیا گیا۔ پاکستان میں آج تک ہونے والے تمام انتخابات تجربہ گاہ میں ہونے والے تجربات جیسے ہیں، جس میں ڈکٹیٹروں اور حکومتوں نے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لئے عجیب و غریب تجربات کئے۔ 2018ء کے الیکشن میں ٹیکنالوجی کا سہارا لیا گیا اور RTS نامی سسٹم اپنایا گیا، لیکن جب مطلوبہ نتائج آتے نظر نہ آئے تو آدھی رات کو اسے یکایک خراب کرکے من پسند نتائج حاصل کر لئے گئے۔یہ سلسلہ اب تباہ کن حد تک بڑھتا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے اسمبلی کی کاروائی بلڈوز کرکے ایسے الیکشن قوانین کا بل پاس کروایا ہے، جس سے ملک میں بہت تباہی آئے گی۔
یہ الیکشن ایکٹ 2017ء اور آئین کی کئی شقوں سے متصادم ہے اور الیکشن کمیشن نے بھی اس کے 72 میں سے 45 نکات پر اعتراضات اٹھائے ہیں، جو قانون اور آئین کے خلاف ہیں۔ اگلے الیکشن میں RTS بٹھانے والا ڈرامہ دہرایا نہیں جا سکتا، جس وجہ سے حکومت نے الیکٹرانک ووٹنگ کا بل پاس کرایا ہے۔ انتہائی ناقص ہونے کی وجہ سے 120 ممالک میں الیکٹرانک ووٹنگ پر پابندی لگ چکی ہے اور بہت سے اہم ممالک میں اس کے ناکام تجربہ کے بعد اسے ترک کر دیا گیا ہے۔ اور آرڈر نہ ملنے کی وجہ سے الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں بنانے والے زیادہ تر ادارے بھاری مالی نقصان اٹھاکر بند ہو گئے ہیں۔ گذشتہ امریکی الیکشن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے الزام لگایا تھا کہ ان کے 27لاکھ ووٹ مشینوں کے سوفٹ وئر نے ڈیلیٹ کر دئیے ہیں۔الیکٹرانک ووٹنگ کو دشمن مما لک ہیک کر سکتے ہیں اِس لئے قومی سلامتی کے لحاظ سے بھی یہ تباہ کن ہے۔ اپنی مرضی کے نتائج مرتب کرنے کے لئے پی ٹی آئی حکومت نے جمہوریت اور پورا نظام داؤ پر لگا دیا ہے اور یوں لگتا ہے کہ ”منّی“ ایک دفعہ پھر ”ڈارلنگ“ کے لئے بدنام ہوگی۔