عقلمند کے لئے اشارہ کافی ہے!! 

 عقلمند کے لئے اشارہ کافی ہے!! 
 عقلمند کے لئے اشارہ کافی ہے!! 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 اس بار تو اتنی خبریں ہیں کہ سمجھ نہیں آ رہا کہاں سے شروع کریں۔ پنجاب کے 20 صوبائی حلقوں میں ضمنی انتخاب 17 جولائی کو ہونا ہے۔ یوں ابھی تقریباً ایک ماہ رہتا ہے خیال تھا کہ الیکشن کے قریب صورتحال کچھ واضح ہو جائے گی تو اس پر کچھ لکھا جائے مگر اس میں ابھی سے جو تیزی اور گرما گرمی شروع ہو گئی ہے وہ تشویش ناک ہے۔ لاہور کے حلقہ پی پی 167 میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے کارکنوں میں براہ راست تصادم ہو گیا جوہر ٹاؤن کے اس تصادم میں مکے گھونسے، گالیاں، کرسیاں، اینٹیں تو چلیں سو چلیں گولیاں بھی چل گئیں جس کے نتیجے میں لیگی امیدوار، سابقہ منحرف ایم پی اے نذیر چوہان کا بیٹا اور انصافی امیدوار خالد گجر کا بھتیجا زخمی ہو گئے۔ یاد رہے کہ کراچی کے قومی حلقے میں دو روز قبل ہونے والے ضمنی الیکشن میں بھی تصادم ہو گیا تھا اور گولیاں چل گئی تھیں جس میں ایک شخص جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے پھر ٹرن آؤٹ محض 8 فیصد کے قریب رہا یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے یہ الیکشن منسوخ کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے کہ قبل ازیں سیالکوٹ کے ضمنی الیکشن میں کم ٹرن آؤٹ پر ایسا فیصلہ ہوا تھا۔ اس میں دو باتیں غالباً عمران خان کے ذہن سے نکل گئیں۔ ایک تو یہ کہ کراچی کے ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کا امیدوار ہی نہیں تھا اس لئے عمران خان متاثرہ فریق نہیں ہیں۔

دوسرے سیالکوٹ کے ضمنی انتخاب میں انتخابی عملہ ہی اغوا ہو گیا تھا جو کئی گھنٹے بعد ملا۔ یوں نتائج مشکوک ہو گئے تھے۔ ایک اور نکتہ دلچسپ ہے کہ کراچی جیسے شہر میں جہاں 2018ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی سولہ نشستیں جیت کر سب سے بڑی پارٹی ہونے کا دعویٰ کیا تھا اب پی ٹی آئی نے میدان سے غائب رہنے میں کیوں عافیت جانی؟ ناقدین کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے موقف میں جان ہے جس کے مطابق عام انتخابات میں ”فرشتوں“ نے ان کی نشستیں چھین کر تحریک انصاف کی جھولی میں ڈالی تھیں تاکہ وفاق میں اس کی حکومت بنوائی جا سکے۔ تب کراچی سے تحریک انصاف کی جیت حقیقی تھی نہ ایم کیو ایم کی شکست اصلی تھی۔ اگر کراچی میں پی ٹی آئی کی مقبولیت حقیقی ہوتی تو وہ اس حلقے سے امیدوار تو میدان میں اتارتی۔ اس کے باوجود کراچی جیسے، سیاسی طور پر بیدار شہر میں محض 8.38 فیصد ووٹروں کا حق رائے دہی استعمال کرنا سوالیہ نشان ہے۔ 


اب آ جائیں پنجاب کی طرف یہاں صورتحال حکمران مسلم لیگ ن کے لئے پریشان کن ہے جن 20 صوبائی نشستوں پر انتخاب ہونے جا رہا ہے وہ تمام کی تمام تحریک انصاف کی تھیں مگر ان پر منتخب ارکان پنجاب اسمبلی نے پارٹی پوزیشن سے انحراف کرتے ہوئے ن لیگ کے امیدوار حمزہ شہباز کو ووٹ دے کر وزیر اعلیٰ بنوا دیا یوں الیکشن کمیشن نے ان کو نشستوں سے محروم کر دیا۔ اب یہ سب ن لیگ میں شامل ہو گئے اور لیگی قیادت نے ان کی وفاداری کا صلہ ٹکٹ عطا کرکے  دیا۔ اب جیتنا ہارنا ان کی قسمت۔ لاہور کے حلقہ 167 سے امیدوار نذیر چوہان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تمام امیدواروں میں امیر ترین ہیں جبکہ ملتان سے امیدوار سلمان نعیم بھی ٹاپ کے امرا میں شمار ہوتے ہیں، انہوں نے آزاد حیثیت میں اپنی مالی و فلاحی خدمات کی وجہ سے سابق وزیر خارجہ اور تحریک انصاف کے مرکزی وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی کو شکست دے کر بڑا سیاسی اپ سیٹ کر دیا تھا، اب سلمان کا مقابلہ مخدوم صاحب کے بیٹے زین قریشی ایم این اے سے ہے۔ اب ان کے پاس مسلم لیگ کا ٹکٹ ہے جبکہ ساری پی ڈی ایم ان کے ساتھ کھڑی ہے پیپلزپارٹی کے ارشد اقبال بھٹہ نے کاغذات داخل کرائے تھے اور ان کو تیر کا نشان بھی مل گیا تھا مگر سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی کوششوں سے وہ سلمان نعیم کے حق میں دستبردار ہو گئے اب وہ اور پیپلزپارٹی یوسف رضا گیلانی کی قیادت میں سلمان نعیم کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں، اگر وہ ہار گئے تو ان کی سیاست قریب الاختتام سمجھی جائے گی۔ اگر زین قریشی ہار گئے تو انہیں کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا وہ رکن قومی اسمبلی بھی رہیں گے اور خانوادہ قریشیہ ہاشمیہ کے چشم و چراغ بھی مانے جائیں گے۔

پنجاب بھر کے ضمنی الیکشن کی صورتحال بھی اس سے ملتی جلتی ہے۔ اگر ان بیس کی بیس نشستوں پر پی ٹی آئی ہار جائے تب بھی اس کی موجودہ حیثیت (اپوزیشن) برقرار رہے گی وہ کچھ نہیں کھوئے گی اگر مسلم لیگ ن ہار گئی یا 13 سے کم نشستوں پر جیتی تو صوبائی حکومت خطرے میں آ جائے گی۔ ایوان میں اس کی اکثریت نہیں رہے گی اور جس دن اسے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا گیا وہ دھڑام سے گر جائے گی۔ پھر ن لیگ کے پاس محض وفاقی حکومت ہو گی۔ کسی صوبے میں اس کی براہ راست حکومت نہیں ہو گی ایسی ”لنڈوری“ حکومت کی انتظامی پوزیشن کیا ہو گی؟ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں، اس ساری صورتحال سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اگر ضمنی انتخابی مہم ے دوران مسلح تصادم کا سلسلہ آگے بڑھا اور خدانخواستہ کوئی جانی نقصان ہو گیا اور امن و امان کی صورتحال بگڑ گئی تو بساط لپیٹی بھی جا سکتی ہے۔ پھر اگر سیاست کا بانس ہی نہ رہا تو انتخابات کی بانسری کیسے بجے گی؟ یہ بات ذہن میں رہے کہ ماضی میں جب بھی سیاست کی بساط لپیٹی گئی تو اسے بحال ہونے میں دس دس سال لگے ایک عشرے تک سیاست سے دیس نکالا پانے سے بہتر ہے کہ اپنے جذبات پر قابو رکھ کر اپنے کارکنوں کو سمجھا بجھا کر جمہوری کھیل کو تشدد سے آلودہ کرنے سے پرہیز کیا جائے۔ اس سے جانی نقصان سے بھی محفوظ رہیں گے اور سیاست بھی بچ جائے گی جو اہل سیاست کی چودھراہٹ کی اساس ہے، اپنی اساس اپنی بنیاد پر کلہاڑا چلانا تو کوئی عقلمندی نہیں۔ عقلمند کے لئے اشارہ کافی ہونا چاہئے۔

مزید :

رائے -کالم -