اُمید کی کرن
انگرےزوں کی عےاری اور ہندوﺅں کی مکاری نے برصغےر پاک و ہند مےں مسلمانوں کا جےنا دوبھر کر رکھا تھا ۔ مسلمانوں کی اِس دِگرگوں صورت حال مےں حضرت علامہ اقبال ؒ نے جاگتی آنکھوں سے مسلمانوں کے لئے الگ وطن کا خواب دےکھا تھا ۔ خواب کو حقےقت بنانے کے لئے حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے نا قا بل فراموش جدوجہد کی ۔ جان و مال اور عزت و آبرو سے بڑھ کر قےمتی اور کےا شے ہے ؟ سب کچھ تو قربان کر دےا گےا ، تب جا کر آزادی کی جنگ جےتی گئی ، خواب نے حقےقت کا رنگ دھارا اور مملکت پاکستان وجود مےں آ گئی ۔ 65 سال سے زائد بےت چکے، ہم نے احسان فراموشی کا روےہ ترک نہیں کےا ، چار موسم ، دُنےا کا ہر طرح کا پھل ، اجناس ، قدرتی وسائل ، خوبصورت ترےن علاقے اور ذہےن ترےن قوم ، کون سی نعمت ہے جو اس سرزمےن کو پروردگار عالم نے نہ بخشی ہو، مگر جرنےلوں ، سےاست دانوں اور بےورو کرےٹوں نے اِسے چراگاہ سمجھ کر لوٹا ۔ قدرت نے ہمےں بار بار سنبھلنے کے مواقع فراہم کئے ، زلزلے اور سےلاب جےسے ہلکے جھٹکوں سے ہمےں سنبھل جانے کا پےغام دےا، مگر ہم ہےں کہ اپنی روش بدلنے کو تےار نہےں ۔ قےام پاکستان کے بعد قرارداد مقاصد اور 1973ءکا متفقہ اسلامی دستور ملک چلانے کے لئے بہترےن اساس تھی، مگر مقدس کلام کی طرح ہم نے اس آئےن سے بھی کبھی استفادے کی کوشش نہیں کی ۔ مملکت کی 65 سالہ زندگی کا تقرےباً نصف فوجی جرنےلوں اور بقےہ نصف کا بڑا حصہ سول آمروں کی آمرےت کی نذر ہو گےا ۔
2008ءسے 2013ءکی اسمبلی اپنی مدت پوری کر گئی ۔ کہا جاتا ہے کہ” بہترےن آمرےت سے بدترےن جمہورےت بھلی “.... گوےا بدترےن جمہورےت کا اےک دور مکمل ہوا ۔ پرویز مشرف نے ملک کی تباہی اور اِسے غےروں کی غلامی مےں دےنے کے لئے ” کوئی دقےقہ “ فروگزاشت نہیںکےا تھا ، مگر پیپلز پارٹی کے ”مرد حُر “نے جمہوری دور مےں غلامی کی سےاہ رات کے خاتمے کی بجائے اِس کے اندھےروں مےں مزےد اضافہ کےا ۔ پارلےمنٹ سے ملکی سلامتی کی قرار دادےں تو منظور ہو گئےں، مگر رات ہی نہےں دن کے اُجالوں مےں بھی مےری ” آزاد “ مملکت کی سرحدی خلاف ورزےاں کی گئےں ۔ بے گناہ اور نونہال ڈرونز اور دےگر حملوں کا شکار ہوتے رہے ۔ عالمی استعمار کے کانوں پر جُوں تک نہ رےنگی ۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظےموں کے دفاتر مےں قبرستانوں کی سی خاموشی طاری رہی ۔ ان دفاتر کو تو قبرستان بننا ہی تھا، اس لئے کہ پاکستان مےں چور چوکےدار بن گئے تھے ۔ ”چوکےداروں“ نے عالمی غنڈے کو کہا تھا کہ جو تمہاری مرضی ہے تم کرتے رہو ، بس ہمےں اتنا اختےار دے دو کہ ہم اپنی قوم کو ”مزید بے وقوف“ بنانے کے لئے بظاہر تمہارے سامنے احتجاج رےکارڈ کراتے رہےں ۔
بہترےن فرد جسٹس طارق پروےز کو متفقہ نگران وزےراعلیٰ نامزد کر کے خےبر پختونخوا کی سےاسی قےادت نے بالغ نظری کا مظاہرہ کےا ۔ اِےسی مثال وفاق اور دےگر صوبوں مےں وقوع پذےر ہوتی نظر نہےں آرہی ۔ ےہ سطور شائع ہونے تک شاےد ” نگران “ مقرر ہو چکے ہوں ۔ چےلنج نگرانوں سے زےادہ صاف، شفاف اور منصفانہ انتخابات کا ہے ۔ جس مملکت کی آدھی سے زائد اکثرےت اپنا نام لکھ اور پڑھ نہ سکتی ہو، اُس سے ووٹوں کے ذرےعے ” بڑی تبدےلی “ کی اُمےد دےوانے کے خواب سے بڑھ کر نہےں ۔ اےسی تبدےلی جو مُلک کی کاےا پلٹ دے ، وہ سےاسی قےادت کےونکر لائے گی، جس کی ” شبانہ روز “ کی ” جدوجہد “ کے نتےجے میں بدےانتی کا ننھا مُنا سا پودہ آج تناور درخت بن چکا ہے ۔ نظام کو جمہوری پٹڑی پر رکھنے کے لئے سب سے زےادہ کردار چےف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ادا کےا ۔ اےک بےدار مغز اور چابک دست منصف کے طور پر جو کردار افتخار چودھری نے ادا کِےا، اُسے مستقبل کا مورخ کبھی فراموش نہےں کرے گا ۔
چےف الےکشن کمشنر فخر الدےن جی ابراہےم گئے گزرے معاشرے مےں اُمےد کی اےک کرن ہےں ۔ کراچی کی حلقہ بندےوں، جن پر انصاف فراہم کرنے والے سب سے بڑے ادارے سمےت ملک کی اکثر سےاسی جماعتوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کےا ہے۔ ” فخرو بھائی “ ہر معاملے پر ڈٹے ہوئے ہےں ۔ آئےن کی دفعہ 63,62 سمےت ابھی اُن کے ” عشق کے امتحان “ اور بھی ہےں ۔ الےکشن کمےشن کو ےقےناً بہت بڑے چےلنجوں کا سامنا بھی ہے اور اُسے اپنا کردار ادا بھی کرنا ہے ۔ اِس ملک کے ذرائع ابلاغ بالخصوص ” الےکٹرانک مےڈےا “ جس کی خرابےاں اپنی جگہ، مگر جس کا 2007 ءکے غےر آئےنی اقدامات کے خلاف اور عوام کو باشعور بنانے میں اہم کردار رہا ہے، کا اِن انتخابات مےں سب سے اہم کردار ہے ۔
غےر جانبدار حلقے تو مےڈےا کی کارکردگی سے ماےوس ہےں ۔ ان حلقوں کا کہنا ےہ ہے کہ میڈیا میں دولت مندوں نے اپنا کردار ادا کرنا شروع کردیا ہے۔ان وارداتےوں کے ” سچ کے نتےجے مےں پےپلز پارٹی ، مسلم لےگ ، اےم کےو اےم کے گناہ ، نےکی بنا کر اور تحرےک انصاف و جماعت اسلامی کی نےکےاں بھی گناہ بنا کر سادہ لوح عوام تک پہنچائی جا رہی ہےں ۔ آئےن کی دفعہ 62,63 مجلس شوریٰ ( پارلےمنٹ ) کے اراکےن کی اہلےت و نا اہلےت سے متعلق ہےں جن مےں دےگر شرائط کے ساتھ ساتھ کہا گےا کہ وہ گناہ کبےرہ سے اجتناب اور پاکستان کی ملازمت مےں کِسی منفعت بخش عہدے پر فائز نہ ہو۔ آئےن کی ےہ دفعات ماضی مےں تو محض مذاق بن کر رہ گئی تھےں۔ عوامی حکومت نے اپنے خاتمے کے آخری دن چھٹی ختم کر کے اپنے بانی ذالفقار علی بھٹو کی رواےات کو زندہ کر کے رات 12 بجے تک ” عوامی خدمت “ کے فرائض سرانجام دئےے ۔ ٭