صحرائے تھر میں قحط اور ہماری بے حسی
مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے ۔ا فسوس مملکت خداداد پاکستان میں ہم نے اپنی رہایا کے ساتھ کیا کیا ہے۔ صحرائے تھر کا شمار پاکستان کے ریگستانی علاقوں میں ہوتا ہے، یہ علاقہ چولستان سے لے کر سندھ کے دور افتادہ علاقوں مٹھی، خیر پور اور میر پور خاص کے سرحدی علاقے اچھڑو تھرتک پھیلا ہوا ہے ،جبکہ قریبی ملک ہندوستان میں تھر کے ریگستان کو راجستھان کہا جاتا ہے ۔ تھر ہزاروں میل پر مشتمل ہے، جہاں ہزاروں دیہات اور گوٹھ آباد ہیں اور یہاں تقریباً 15لاکھ کے لگ بھگ آبادی ہے۔ تھر میں بارش ہو جائے تو لوگوں کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے ،کیونکہ یہاں کی زراعت کا دارومدار بارش کے پانی پر ہے ۔ تھر کے علاقے میں کوئی دریا یا نہر نہیں، جبکہ گزشتہ 66سالوں میں یہاں سے منتخب ہونے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور یہاں کے باسی جو سندھ کی وزارت اعلیٰ پر بھی براجمان رہے ،انہوں نے اس علاقے کی ترقی اور یہاں پانی کی فراہمی کے لئے کچھ نہیں کیا۔ خشک سالی تھر میں موت کا پیغام لاتی ہے اور خشک سالی کی وجہ سے نہ صرف فصلیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں، بلکہ انسانوں کی خوراک نا پید ہونے سے قحط پڑ جاتا ہے ،جبکہ جانوروں کا چارہ اور گھاس وغیرہ بھی ختم ہو جاتی ہے اور انسانوں کے ساتھ ساتھ جانور بھی بھوک اور پیاس کا شکار ہو کر مرنے لگتے ہیں۔
جس سال یہاں بارش نہیں ہوتی ،تھر کے باشندے بھوک، پیاس اور قحط سالی کا شکار ہو کر انتہائی اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ،لیکن افسوس کہ یہاں سے منتخب ہونے والے نمائندوں نے کبھی بھی ذمہ داری کا احساس نہیں کیا کہ لوگوں کو اس خوفناک قحط اور اذیت ناک زندگی سے نجات دلانے کے لئے انہیں کیا کرنا چاہیے۔ اس سال بھی تھر کا علاقہ خشک سالی کی وجہ سے قحط جیسی آفت سے دو چار ہے۔ پہلے یہاں کا قدرتی حسن مور پُر اسرار بیماری سے ہلاک ہوئے، اس کے بعد ہرن، بھیڑیں اور اونٹ ہلاک ہوئے ، اب یہاں کے بسنے والے ہزاروں انسان بھوک کی وجہ سے موت کی آغوش اور بیماری کے ہاتھوں موت کے مُنہ میں جا چکے ہیں ،جبکہ تھر کے سرکاری ہسپتال قسم کی سہولتوں سے محروم ہیں افسوس کہ اس شدید قحط اور بیماری کی لپیٹ میں تھر کے انہائی غریب اور مفلوک الحال لو گ بُری طرح سسک رہے ہیں ،لیکن حکومت سند ھ اور دھرتی کے وارث ہونے کے دعویدار سندھ فیسٹیول منانے میں مصروف تھے اور انہیں سندھ کی دھرتی پر رونما ہونے والے انسانی تاریخ کے اس بدترین قحط کا ذرا بھی ادراک نہ ہوسکا۔
حکومت سندھ اور یہاں کے سیاستدان اسلام آباد کی ٹھنڈی فضاؤں اور کراچی کی روشنیوں میں گُم ان آفت زدہ سسکتے بلکتے لوگوں کے غم سے نا آشنا اپنی ہی دنیا میں مست ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے سندھ کے تمام غریبوں کو روٹی، کپڑا اور مکان دے دیا ہے ،جبکہ 60ہزار گندم کی بوریاں قحط زدہ علاقوں میں تقسیم کرنے کا دعویٰ کیا گیا، کرپشن اور بدعنوانی کی وجہ سے اس کے ٹینڈر ہی نہیں ہو سکے اور صر ف چند سو بوریاں انتہائی محدود علاقے میں بھیجی گئیں، جبکہ دور افتادہ علاقوں میں گندم نہ پہنچ سکی اور لوگ بھوک اور پیاس سے مرتے رہے ۔
افسوس کہ جھوٹ اور لفاظی سے یہ نا اہل اپنی غفلت پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ڈیڑھ سو بچوں کی المناک موت کی ذمہ داری ان حکمرانوں اور ان کے بے حس کارندوں پر عائد ہوتی ہے ۔ ایک اسلامی فلاحی اور جمہوری ریاست میں بسنے والے ہر فرد کی جان و مال اور عزت آبرو کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ تاریخ اسلام ،خصوصاً خلفائے راشدین کے طرز حکومت کا مطالعہ کرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ حضور سیدنا عالم رحمت اللعالمین ؐ نے اسلامی ریاست کے حکمرانوں کے لئے رعایا کے متعلق کیا ارشادات فرمائے۔
مَیں یہاں حضرت عمر فاروقؓ کے دور کے ایک واقعہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ 36لاکھ مربع میل پر حکومت کرنے والے یہ عظیم خلیفہ والوں کو بھیس بدل کر لوگوں کے حالات معلوم کرتے تھے ۔ آپؓ نے ارشاد فرمایا کہ اگر نہر فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اقدس میں میری جواب طلبی ہوگی۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ جب خلیفہ بنے تو کوفہ کی جامعہ مسجد میں سوکھی روٹی پانی میں ڈبو کر کھا رہے تھے توآپ کے ساتھیوں نے عرض کیا کہ یا امیر المومنین آپ بیت المال سے اپنے لئے بہتر کھانا تیار کروا لیں کیونکہ سوکھی روٹی چبانے میں دِقت پیش آرہی ہے تو اس عظیم خلیفہ نے،جنہیں فاتح خیبر اور شیرِ خدا کے لقب سے نوازا گیا ،ارشاد فرمایا کہ مجھ پر ویسا ہی کھانا حلال ہے جو میری رعایا کے غریب ترین فرد کو میسر ہے ۔
افسوس کہ آج اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والے اور مملکت خداداد پاکستان پر حکمرانی کرنے والے یہ سبق بھلا بیٹھے ہیں اور انہیں سندھ کے تپتے صحرا میں بھوک سے بلکتے معصوم بچے اور ان کی غم زدہ مائیں دکھائی نہیں دیتیں ۔ سندھ کے اس تپتے صحرا میں بھوک سے نڈھال ننگے پاؤں پناہ کی تلاش میں گھروں کو چھوڑنے والے غریب باشندے نظر نہیں آتے اور نہ ہی تھر کے صحرا کے وہ ہزاروں بھوکے جانور جو بھوک سے نڈھال خوراک کی تلاش میں مارے مارے پھررہے ہیں ۔ حکمرانوں کی بے حسی کی وجہ سے سندھ کے اس صحرا کے 15لاکھ باشندوں اور لاکھوں جانوروں کی زندگی داؤ پر لگی ہے ۔ مگر سندھ کی حکومت نے 10کروڑ کی قلیل امداد کا اعلان کیا ہے ۔ کیا یہ رقم 15لاکھ انسانوں اور بھوک سے بلکتے ہزاروں بچوں کی زندگیوں کے چراغ بجھنے سے روک سکے گی ۔ سندھ کی حکومت نے سندھ فیسٹول پر محض نمائشی پروگراموں پر 45کروڑ روپے کی رقم خرچ کی ،جبکہ 15لاکھ انسانوں کی زندگیا بچانے کے لئے 10کروڑ کی قلیل امداد؟ کیا یہی انسانیت ہے اور کیا یہ حکمران مسلمان کہلانے کے حق دار ہیں؟
وفاقی حکومت نے بھی اس عظیم المیہ پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور تھر کا یہ ریگستان غریبوں، مزدوروں ،کسانوں اور ان کے معصوم بچوں کے لئے موت کا صحرا بن چکا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وفاقی اور سندھ کی صوبائی حکومت اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرے۔ صرف نعرے لگانے اور تقریریں کرنے سے خوشحالی نہیں آتی ۔ خوشحالی لانے کے لئے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔