جشن بہاراں کا بہارافروز مشاعرہ
باغوں، بہاروں، پھولوں کے شہر لاہور کی خوبصورتی کے ضامن ادارے پارکس اینڈہارٹی کلچر اتھارٹی نے پہلی بار ایک واقعی معیاری مشاعرہ بسلسلہ ’’جشن بہاراں‘‘ بارہ دری باغ جناح میں منعقد کیا۔ اس بہار افروز، خرد فروغ مشاعر ے میں لاہور کے چیدہ و چنیدہ شاعر اور شاعرات نے تازہ کلام سنا کر سامعین وحاضرین وناظرین کو محظوظ کیا۔ اَن گنت ٹی وی چینل مشاعرے کی ریکارڈنگ کررہے تھے سٹی 42جیسے چینل براہ راست بھی ٹیلی کاسٹ کرتے رہے۔ نظامت کے فرائض جواں عزم جواں ہمت، جواں سال ڈاکٹر صغریٰ صدف اور ’’شاعر پاکستان‘‘ یعنی روزنامہ پاکستان میں روزانہ نظم وغزل لکھنے والے شاعر ناصر بشیر نے بحسن و خوبی انجام دیئے۔ دونوں نے مل کر اور باری باری بھی اچھی نظامت کی۔ ترتیب میں البتہ تقدیم وتاخیر کا مسئلہ آخرتک درپیش رہا کہ بعض شعراء وشاعرات تاخیر سے آتے رہے۔ سعود عثمانی، زاہد فخری ، فرحت عباس شاہ اور علی اصغر عباس اپنا اپنا کلام سنا کر خود داد بیداد لے کر اور دوسروں کو اپنی دادسے مبرا رکھ کر رخصت ہوگئے، اس لئے ان کا کوئی شعر اپنے خوش ذوق قارئین کو سناکر زیر بار کیوں کیا جائے، جو شعراء آخری لمحے تک بلکہ چائے نوشی تک حاضر رہے ان میں صدر محفل ظفر اقبال روحی کنجاہی، ناصر زیدی، امجداسلام امجد، نجیب احمد، ڈاکٹر اجمل نیازی، باقی احمد پوری، خالد شریف، اقبال راہی، عباس تابش ، سعداللہ شاہ، ڈاکٹر اختر شمار، ندیم الحسن گیلانی، اسلم کولسری ، کیپٹن عطا محمد خاں، سلمان گیلانی، رخسانہ نور، ڈاکٹر تیمور حسن تیمور،حسنین سحر، حمیدہ شاہین، کنورامتیازاحمد، عظمت فیروز شہاب (کینیڈا) راحیلہ اشرف، ڈاکٹرصغریٰ صدف اور ناصر بشیر شامل تھے۔ دراصل اس مشاعرے کے اصل کرتا دھرتا ناصر بشیر ہی تھے۔ انہیں ہمارے سکول کے زمانے کے کلاس فیلو افتخار احمد] فِتنہ[وائس چیئرمین پی ایچ ای کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی ورنہ پہلے یہ مشاعرہ جب تک جاوید کشیدا کے قبضے میں رہا، وہ شاعروں سے زیادہ غیر شاعروں، اور اوروں سے کلام خریدنے والوں کو بلاتے اور معمولی اعزازیے پر ٹرخاتے رہے ۔
اس بار شعراء کی حتمی فہرست انتخاب اور ترتیب و تہذیب کلی طورپر ناصر بشیر کے سپردتھی جنہیں بطور شاعر بھی پہلے کبھی نہیں بلایا جاتا تھا۔ خدا کی قدرت رنگِ زمانہ یوں بھی کروٹ بدلتا ہے۔ بے شک اللہ جسے چاہے عزت دے۔ ناصربشیر نے تمام جینوئن معروف شاعروں کو مدعو کیا تھا پھر بھی ایک آدھ کو زبردستی ایڈجسٹ کرنا ہی پڑا۔ صاحب صدارت کا انتخاب البتہ ایسے پبلک مشاعرے کے لئے ہرگز مناسب نہ تھا کہ طویل عمری اور بیماری میں صدارت کی کرسی پر جم کر گھنٹوں بیٹھنا بزرگوں کے اختیار میں نہیں ہوتا چنانچہ شروع کے شعراء تو محدود وقت کے پیش نظر ایک غزل کی پابندی کو توڑتے ہوئے بھی حسب منشا کلام سناتے رہے مگر آخر آخر میں جن شعراء کو سننے کے لئے اہل ذوق سامعین سات بجے سے یعنی مشاعرہ شروع ہونے سے بھی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ پہلے آکر بیٹھے ہوئے تھے ان کو کلام سنانے سے پہلے صاحب صدر، جلدی کرو، جلدی کرو کی رٹ لگاکر موڈ آف کرتے رہے، اس کے باوجود اکثر شعراء نے محض ایک غزل کے چند اشعار پر بھی خود کو منوایا۔ جبکہ صاحب صدارت نے واش روم جانے کی ضرورت کو ضبط کرکے بھی بلا طلب تین چار غزلیں سنا ڈالیں۔ ان کی کسی غزل کا کوئی شعر اس لئے نوٹ نہ کیا جاسکا کہ ہم خود ان سے پہلے پڑھ کر باہر چلے گئے تھے۔ باقی جن شعراء کے کچھ اشعار لکھے جاسکے ان کا انتخاب اس کالم کے باذوق قارئین کی نذر ہے :
ذرا سی دیر رہوں گا تمہاری محفل میں
پھر اپنے جیسے ہی لوگوں میں لوٹ جاؤں گا
ناصر ؔ بشیر
کھڑکیاں کھولی نہیں دیوار گھر کی توڑ دی
اتنا ہی وہ کرسکا تازہ ہوا کے نام پر
رخسانہ نور
اچھی مس ہے کوئی مس کال نہ مسیج کوئی
اپنی سم لے لے موبائل مجھے واپس کردے
سلمان گیلانی
راہی وہ اس لئے کبھی ہوتے نہیں خفا
وہ جانتے ہیں ہم نے منانا تو ہے نہیں
اقبال راہیؔ
سارے آنسو میں نے آنکھوں ہی میں ضائع کردیئے
ورنہ اک سوکھا ہوا جنگل بھگو سکتا تھا میں
اسلم کولسری
ایسے لگتا ہے کہ آسودگی قسمت میں نہ تھی
جل گئے سایۂ دیوار تک آتے آتے
سعد اللہ شاہ
اب جو آنسو نہ بہاؤ گے تو مرجاؤ گے
ضبط کی آخری سرحد پہ بکھر جاؤ گے
ندیم گیلانی
میں تو اس واسطے چپ ہوں کہ تماشا نہ بنے
تو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گلہ کچھ بھی نہیں
اختر شمار
جب انتظار کے لمحے پگھلنے لگتے ہیں
گلی کے لوگ مرے دل پہ چلنے لگتے ہیں
عباس تابشؔ
وہ شاخ کبھی پھولتی پھلتی نہیں خالد
جس شاخ پہ چڑیوں کا بسیرا نہیں ہوتا
خالد شریف
اس کے میرے درمیاں ہیں فیصلوں کے فاصلے
میں یہاں موجود ہوں اور وہ وہاں موجود ہے
ڈاکٹر اجمل نیازی
ان یزیدوں کو خدا کا تو کوئی خوف نہیں
ان یزیدوں کو بہتَّر سے پریشانی ہے
باقی احمد پوری
بچپن کے واقعات سناتا ہے ان دنوں
مجھ کو نجیب خوش نظر آتا ہے ان دنوں
نجیب احمد
اس کا کیوں انتظار ہے بابا
اس کا کیا اعتبار ہے بابا
روحی کنجاہی
مَیں نے جو صاحب صدارت کی روک ٹوک کے ڈر سے صرف ایک غزل سنائی وہ اللہ کے فضل وکرم سے اس قدر پسند کی گئی کہ بے بناہ داد کی حامل ٹھہری۔ مشاعرے کے اختتام پر خوش ذوق سامعین کی اکثریت نے گھیر لیا کہ پوری غزل لکھ کردوں۔ زیادہ تعداد خواتین کی تھی، ان سے وعدہ کیا کہ کالم میں پوری غزل چھاپ دوں گا وہ اخبار سے کاٹ کر سنبھال لیجئے، یا پھر مجموعہ کلام ’’التفات ‘، اگر کسی بکسٹال سے مل جائے حاصل کیجئے مگر اس کا دوسرا تیسرا ایڈیشن چھپ کر بھی نایاب ہے۔ اس لئے غزل پوری ملاحظہ ہو:
مَیں نے کہا کہ حسن کو اپنے چھپا کے رکھ!
اس نے کہا تُو اپنی نگاہیں جھکا کے رکھ!
مَیں نے کہا کہ دید میسر ہو کس طرح؟
اس نے کہا کہ آئینہ دل میں سجا کے رکھ ؟
مَیں نے کہا کہ راہِ محبت ہے اور میں
اس نے کہا قدم کو قدم سے ملا کے رکھ
مَیں نے کہا کہ چاہئے تھوڑا سا التفات
اس نے کہا مزاج نہ بادصبا کے رکھ
مَیں نے کہا کٹھن ہے بہت زیست کا سفر
اس نے کہا کہ عشق کو جادہ بنا کے رکھ!
مَیں نے کہا کہ ہجر میں جلتا ہے یہ بدن
اس نے کہا جلے تو جلے دل بچا کے رکھ!
مَیں نے کہا کہ وصل کا امکان ہے کبھی
اس نے کہا چراغِ تمنا جلا کے رکھ
مَیں نے کہا کہ بجھتا دیا ہوں، خیال کر
اس نے کہا کہ سامنے خود کو ہواکے رکھ
مَیں نے کہا کلام میں تاثیر کیوں نہیں
اس نے کہا کہ درد کو دل میں بسا کے رکھ
ناصر ؔ مکالماتی غزل خوب ہے مگر!
اس طرز خاص میں تو قدم آزما کے رکھ
ناصر زیدیؔ
اور ہاں اس خوبصورت یادگار محفل مشاعرہ بہ سلسلہ ’’جشن بہاراں‘‘ کی ایک اہم نظامت کار ڈاکٹر صغریٰ صدف کا کوئی شعر روداد میں شامل ہونے سے رہ گیا جبکہ انہوں نے خوب جم کے عمدہ نظامت کی۔ ان کا ایک شعر میں نے ناصر بشیر سے پوچھا تھا وہ بتا نہ سکے نہ فون پر لکھوا سکے حالانکہ اسی دن ’’پاکستان‘‘ میں انہوں نے قصیدہ درمدح صغریٰ صدف لکھ کر چھپوایا تھا۔ اس قصیدے کے دوشعر درج کرکے اجازت :
ہیں غزل کی خوبیاں اس میں الف سے ے تلک
شاعروں کے واسطے دیوان ہے صغریٰ صدف
اہل حرف وصوت سب دل توڑنے میں طاق ہیں
لیکن اس فن سے ابھی انجان ہے صغراصدف
حیرت ہے اپنی ممدوح کا ایک شعر بھی مداح ناصر بشیر کو زبانی یاد نہیں !