ایٹمی ہتھیاروں کی سیکیورٹی کے متعلق امریکی گواہی
اوباما انتظامیہ نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ساتھ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے معاملے میں پاکستان کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے اسے بہترین اقدام قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان عالمی جوہری ایجنسی سے بھرپور تعاون کر رہا ہے اور ایٹمی ہتھیاروں کی سیکیورٹی بخوبی نبھا رہا ہے۔ کانگریس کی ایک سماعت کے دوران امریکہ کے ہتھیاروں پر ضابطے اور بین الاقوامی سلامتی کمانڈر سیکرٹری روز گھوٹ موئلر نے سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے ارکان کو بتایا کہ پاکستان نے کچھ سال قبل جوہری سلامتی کے موضوع پر سینٹر فار ایکسی لینس قائم کیا ہے اور پاکستان نے ایک ایسا پروگرام تشکیل دینے کے معاملے میں بہترین کام کیا ہے جس سے نہ صرف پاکستان کو فائدہ ہو رہا ہے بلکہ یہ پروگرام خطے کے حوالے سے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جہاں آئی اے ای اے کی مدد سے تربیت دی جا رہی ہے۔ سینیٹرباب کارکر کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت اپنے اپنے جوہری ہتھیاروں کو نہ صرف بہتر بنا رہے ہیں بلکہ ان میں اضافہ بھی کر رہے ہیں اور یہ صرف ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے لیکن اس عمل کے دوران جوہری سلامتی کے مسئلے سے نپٹنے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے جا رہے۔ امریکہ میں ماہِ رواں کے آخر میں جوہری سلامتی کے موضوع پر ایک عالمی کانفرنس کا انعقاد ہو رہا ہے جس میں پاکستان اور بھارت بھی شرکت کریں گے۔
پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی سیکیورٹی کے معاملات پر امریکہ کے بعض حلقے جو بے سرو پا باتیں کرتے رہتے ہیں حتیٰ کہ اِن میں اب صدارتی الیکشن میں ری پبلکن پارٹی کے ٹکٹ کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ بھی شامل ہو گئے ہیں، اوباما انتظامیہ کی طرف سے ان کو یہ مثبت اور منہ توڑ جواب دے دیا گیا ہے۔ پاکستان نہ صرف جوہری ہتھیاروں کی سیکیورٹی کو بطریق احسن نبھا رہا ہے بلکہ جب سے پاکستان نے نیو کلیئر میدان میں قدم رکھا ہے کوئی چھوٹے سے چھوٹا واقعہ بھی ایسا رونما نہیں ہوا جس میں ایٹمی تابکاری وغیرہ کی لیکج کی طرح کے واقعات ہوئے ہوں اس سلسلے میں پاکستانی ایٹمی سائنسدانوں کے اقدامات قابلِ تعریف اور فول پروف ہیں حالانکہ روس، جاپان اور بھارت جیسے بڑے ملکوں میں ایٹمی تابکاری کے حادثات پیش آ چکے ہیں اور ان میں نہ صرف بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہو گئے تھے بلکہ متاثرہ لوگوں کی وسیع تعداد پر اس کے اثرات طویل عرصے تک محسوس کئے گئے، پاکستان اس لحاظ سے جوہری طور پر انتہائی ذمہ دار اور با صلاحیت ملک ثابت ہوا ہے۔ اب ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے کے ساتھ پاکستان جس طرح کا تعاون کر رہا ہے امریکی انتظامیہ بھی اس کو سراہنے پر مجبور ہے۔
دنیا جانتی ہے کہ پاکستان نے اس خطے میں ایٹمی ہتھیار بنانے میں پہل نہیں کی، یہ بھارت تھا جس نے پہلے 1974ء میں ایٹمی صلاحیت حاصل کی اور پھر 1998ء میں ایٹمی دھماکے کردیئے، اس عرصے کے دوران سلامتی کو خطرات کے پیش نظر پاکستان نے بھی اس شعبے میں قدم رکھ دیا تھا چنانچہ وزیر اعظم نوازشریف نے امریکہ سمیت ہر قسم کے عالمی دباؤ کو رد کرتے ہوئے بھارت کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کر دیئے چونکہ پاکستان کو اپنی سلامتی کے حوالے سے خدشات لاحق تھے اس لئے صرف دھماکے کر کے بیٹھ رہنا مفید نہ تھا پاکستان نے اپنی دفاعی ضروریات کی خاطر ایٹمی ہتھیار لے جانے والا ڈلیوری سسٹم بنایا اور بعد میں میزائل ٹیکنالوجی کے میدان میں قدم رکھا، یہ پاکستان کی اس صلاحیت ہی کا نتیجہ ہے کہ اس خطے میں تمام تر کشیدگی کے باوجود اس عرصے میں عالمی سرحدوں پر روایتی جنگ بھی نہیں چھڑی، یوں پاکستان کی اس ایٹمی صلاحیت نے ڈیٹرنس کا کردار ادا کیا تھا ورنہ اگر ان چند دنوں میں بھارتی رہنماؤں کے بیانات کو سامنے رکھا جائے جو بھارتی ایٹمی دھماکوں اور پاکستانی ایٹمی دھماکوں کے درمیانی عرصے میں دیئے گئے تو ان کا لہجہ خاصا اشتعال انگیز تھا اور اگر پاکستان جوابی دھماکے نہ کرتا تو بھارتی اشتعال انگیزی پھیل کر نہ جانے کیا رُخ اختیار کر لیتی۔ پاکستان نے جب سے جوہری صلاحیت کے حصول کی کوششیں شروع کی تھیں دنیا بھر کا میڈیا پروپیگنڈے میں مصروف تھا اور اس حوالے سے طرح طرح کی بے پر کی افواہیں اُڑائی جا رہی تھیں پاکستان کے حوالے سے اگر دنیا میں کہیں کوئی چھوٹی سے چھوٹی خبر بھی سامنے آتی تو اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا، جب پاکستان نے دھماکے کر دیئے تو اس پروپیگنڈے نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا۔
پاکستان کو اس وقت دہشت گردی کے جس عفریت کا سامنا ہے اس کا آغاز اس وقت ہوا جب امریکہ نے نائن الیون کے ایک ماہ بعد افغانستان پر فضائی حملہ کر دیا اور اندھا دھند بمباری کے بعد امریکی اور نیٹو کی زمینی افواج بھی افغانستان میں داخل کر دیں ۔ طالبان کی حکومت ختم ہو گئی تو تھوڑے عرصے کے بعد انہوں نے امریکہ کے خلاف جوابی کارروائیاں شروع کر دیں۔ پاکستان چونکہ اس جنگ میں امریکہ کا اتحادی تھا اس لئے غم و غصے اور رد عمل کا سارا ملبہ بھی پاکستان پر گرا، دہشت گردوں کے ایک گروپ نے پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں شروع کر دیں۔ یہ بات ریکارڈ کا حصہ ہے کہ افغانستان میں امریکی آمد سے پہلے خطے میں خود کش حملوں کا کوئی تصور نہ تھا خود کش حملے امریکی آمد کے بعد شروع ہوئے جب دہشت گردوں کی کارروائیوں کا دائرہ پاکستان بھر میں پھیل گیا تو مغرب کے پروپیگنڈہ بازوں نے اس کے ڈانڈے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں سے ملانے شروع کر دیئے اور یہ کہا جانے لگا کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار غیر محفوظ ہیں اور دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں حالانکہ پاکستان نے ان سٹریٹجک اثاثوں کی سیکیورٹی کا فول پروف انتظام کر رکھا ہے اور کوئی دہشت گرد تو کیا کوئی دشمن ملک اس کی گرد تک پہنچنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اِس سلسلے میں پاکستان کے سیکیورٹی انتظامات نہ صرف عالمی معیار کے مطابق ہیں بلکہ ایٹمی توانائی کا عالمی ادارہ اس حقیقت کو تسلیم بھی کرتا ہے اب امریکی حکومت نے بھی اس کی گواہی دے دی ہے اور سینٹ کی کمیٹی کو بتا دیا ہے کہ پاکستان ایٹمی ہتھیاروں کی سیکیورٹی بخوبی نبھا رہا ہے۔ امریکہ کی یہ شہادت اس وقت منظرِ عام پر آئی ہے جب اس مہینے کے آخر میں واشنگٹن میں عالمی جوہری کانفرنس منعقد ہو رہی ہے اس کانفرنس میں وزیر اعظم نوازشریف شریک ہو رہے ہیں اور اس ضمن میں وہ پاکستان کی پوزیشن کو بخوبی عالمی رہنماؤں کے سامنے رکھ دیں گے اب امریکہ کی اس شہادت کے بعد ان لوگوں کو تعصبات کی عینک اتار کر اپنے ان خیالات سے رجوع کر لینا چاہئے جو وہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی سیکیورٹی کے بارے میں رکھتے ہیں۔ پاکستان نے نہ صرف دہشت گردوں کا مقابلہ کر کے ان کی کمر توڑ دی ہے بلکہ خطے کو اس عفریت سے محفوظ رکھنے میں بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کے اس کردار کو کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہئے بہتر ہے ڈونلڈ ٹرمپ جیسے لوگ انتخابی مہم میں اپنی توپوں کا رخ اپنے عوام کی طرف ہی رکھیں جو ان سے بخوبی نپٹ بھی رہے ہیں اور شاید ان کا صدارتی خواب بھی چکنا چور کر دیں گے۔ پاکستان کے متعلق تو انہیں پوری معلومات بھی نہیں ہیں اور وہ اٹکل پچوسے باتیں کر رہے ہیں۔