قومی اداروں کی تعمیرنو کے اہداف اور قرضوں کے سنگین ہوتے مسائل؟
عرفان یوسف
ملک کا مجموعی بیرونی قرض 53 ارب 40 کروڑ ڈالر ہے جب موجودہ حکومت برسراقتدار آئی تو یہ قرضے 48 ارب دس کروڑ ڈالر تھے۔ موجودہ حکومت کے دور میں بیرونی قرضوں میں پانچ ارب 30 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہواحکومت کی دانش مندانہ پالیسیوں کے ذریعے مالیاتی خسارہ 8.4 فیصد سے کم ہو کر 5.5 فیصد ہو گیا ہے جبکہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت توانائی، شاہراہوں اور ریلوے کے بنیادی ڈھانچے اور گوادر کی ترقی جیسے منصوبوں پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کا کہنا ہے پاکستان توانائی کے شعبے میں اصلاحات اور خسارے میں چلنے والے قومی اداروں کے ڈھانچے کی ازسرنو تعمیر کے اہداف کو حاصل نہیں کرسکا ہے توانائی کے شعبے میں اصلا حات، کاروباری ماحول میں مقابلے کی فضا پیدا کرنے، ٹیکس محصولات کے دائرے کو بڑھانے، قومی اداروں میں خسارے کو ختم کرنا بہت اہم رہے گاان اصلاحات کو مکمل کرنے کی صورت پاکستان مستقل طور پر مضبوط اقتصادی ترقی کر سکے گا اور ملک کے وسیع تر اقتصادی مقاصد کو حاصل کر سکے گاآئی ایم ایف نے پاکستان کی اقتصادی میدان میں بہتری کا عندیہ دیا ہے ملک میں معاشی سرگرمیاں مضبوط رہی ہیں اگرچہ کپاس کی فصل اچھی نہیں ہوئی، برآمدات میں کمی ہوئی اور بیرونی ماحول ترقی کے امکانات پر اثر انداز ہو رہے ہیں لیکن تیل کی کم قیمتوں، توانائی کی فراہمی میں بہتری کی منصوبہ بندی، پاک چین اقتصادی راہداری سے متعلق سرمایہ کاری، تعمیرات کے شعبے میں بہتری سے اقصتادی ترقی کی شرح 4.5 فیصد تک بڑھنے کی امید ہے اس کے علاوہ نگرانی کی بہتر پالیسی کی وجہ سے منہگائی قابو میں رہے گی پاکستان میں ٹیکس کے نظام میں جہاں ٹیکس کی انتہائی کم شرح کی نشاندہی کی گئی ہے وہیں ملک کے اندرونی و بیرونی قرضوں میں غیر معمول حجم کو معیشت کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے پاکستان میں صرف 0.3 فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں جبکہ ہمسایہ ملک بھارت میں یہ شرح اس سے دس گنا یعنی تین فیصد ہے ٹیکس نہ دینے کا رجحان پاکستان کے لیے سب سے بڑا خطرہہے ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدن کم ہونے سے ملک میں ترقیاتی منصوبوں پر نمایاں اثرات مرتب ہوتے ہیں’ٹیکس محصولات کم ہونے کی وجہ ملک کو ترقیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری میں تاریخی خسارے کا سامنا رہا ہے اور اس کی وجہ سے تعلیم اور صحت جیسے شعبوں میں بہتری نہیں آ سکی ٹیکس آمدن میں گذشتہ ایک دہائی میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کو زیادہ قرض لینے پڑے اور اسی وجہ سے قرض کے حجم میں گذشتہ سات برس کے دوران تین گنا اضافہ ہوا ہے ملک میں ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدن کا 44 فیصد ان قرضوں کا سود ادا کرنے میں چلا جاتا ہے’سات برس میں قرضوں کے حجم میں تین گنا اضافہ بڑھتے ہوئے مسائل کی نشاندہی کرتا ہے جو ملکی معیشت کو انتہائی تیزی سے غیر مستحکم کر رہے ہیں یہ محض قرضوں کا تیزی سے بڑھتا ہوا حجم نہیں بلکہ غیرپائیدار بھی ہے کیونکہ حکومت کی آمدن کا ایک بڑا حصہ آہستہ آہستہ سود کی مد میں جا رہا ہے ’گذشتہ حکومتوں کے برعکس موجودہ حکومت نے ٹیکس کے نظام میں اصلاحات متعارف کرانے میں زیادہ پیش رفت کی ہے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے پروگرام کی شرائط کے تحت حکومت نے دو تہائی مضبوط کاروباری گروپوں کو ٹیکس میں دی جانے والی چھوٹ ختم کرنے کا فیصلہ کیاجب کہ10 لاکھ تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم ناکام ہوگئی 28 لاکھ تاجروں میں سے صرف تین ہزار نو سو انتالیس تاجروں نے ایک فیصد ٹیکس دے کر 38 ارب روپے کا کالا دھن سفید کرالیا ایف بی آر چھوٹے تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں ناکام ہوگیا، حکومت کی جانب سے یکم فروری کو شروع کی جانیوالی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم جسے ٹیکس رضاکارانہ ادائیگی اسکیم کا نام دیا جارہا تھا، 15مارچ کو مکمل طور پر ناکام ہوگئی ہیٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے آغاز پر حکومت نے دس لاکھ چھوٹے تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا دعویٰ کیا تھا، جب کہ ایف بی آر نے 28 ارب روپے کی آمدن اکٹھی کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے تحت صرف 3 ہزار 339 تاجروں نے اپنے ٹیکس ریٹرن جمع کرائے، اور 38 ارب روپے کا کالا دھن سفید کرا لیا ہے، جب کہ حکومت کو صرف 38 کروڑ روپے کا ٹیکس وصول ہوا ہے ایف بی آر نے ریٹرن فائل نہ کرنے والے تاجروں کے خلاف کارروائی پر غور شروع کر دیا ہے تمام ٹیکس دفاتر کو ہدایت کی گئی ہے کہ گوشوارے جمع نہ کروانے والے تاجروں کا ریکارڈ فراہم کیا جائے، جب کہ اسٹیٹ بنک سے بھی ان تاجروں کا ڈیٹا طلب کرنے کے لیے خط لکھا جائے گا گوشوارے جمع نہ کروانے والے تاجروں کو رواں ماہ نوٹسز جاری کیے جائیں گے رضاکارانہ ٹیکس ادائیگی سکیم تاجروں کے لیے ٹیکس نیٹ میں آنے اور اپنا اہم قومی فریضہ ادا کرنے کا بہترین موقع ہے جس سے انہیں بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے، سکیم سے فائدہ اٹھانے کے لیے اس کے اغراض و مقاصد اور تمام پہلوؤں کو اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے۔ حکومت نے یہ سکیم تاجر برادری سے طویل مشاورت کے بعد جاری کی ہے جس سے ملک کو معاشی فائدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بھاری سرمایہ گردش میں آنے سے صنعت سازی کو فروغ حاصل ہوگا ، روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونگے اور تجارتی و معاشی سرگرمیاں بڑھیں گی یہ سکیم ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے جس سے موجودہ ٹیکس دہندگان پر سے بوجھ کم ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ محصولات کسی بھی ملک کا نظام چلانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، ملک کو تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں کے لیے سرمائے کی ضرورت ہے جو ٹیکس نیٹ سے باہر کے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لاکر پوری کی جاسکتی ہے یہ سکیم اْن تاجروں کے لئے ہے جو پہلے کسی وجہ سے اپنے سرمائے کو ڈیکلیئر نہیں کرسکے اور اب اس سکیم کے ذریعے اپنا سرمایہ بغیر کسی مسئلے کے ظاہر کرسکتے ہیں یہ سکیم مینوفیکچررز، امپورٹرز، سیلز ٹیکس رجسٹرڈ افراد کے لیے نہیں ہے یہ ورکنگ کیپیٹل وائٹننگ سکیم ہے، اس کے ذریعے اثاثہ جات وائٹ نہیں کیے جاسکتیتاجر و صنعتکار براداری رضاکارانہ ٹیکس سے استفادہ حاصل کرے، یہ اسکیم ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہے، اس سے ملک میں ٹیکس کلچر کو فروغ دیا جاسکتا ہے اس وقت ملک کو کئی چیلنجیز کا سامنا ہے تاجر برادری ان چیلنجیز سے نمٹنے کے حکومت کا ساتھ دے تاکہ ملک سے غربت، مہنگائی، بے روز گاری، توانائی بحران، دہشت گردی، امن و امان کی صورتحال اور معاشی بحران کا خاتمہ کیا جاسکے بڑے بڑے کاروباری حضرات جو ابھی تک نان فائلرز ہیں انہیں حکومت کی اس اسکیم سے فائدہ حاصل کرنا چاہیے ٹیکس کلچر کے فروغ کے لیے حکومت کو تاجر برادری کے ساتھ نرمی برتنی چاہیے اور انہیں رضاکارانہ ٹیکس اسکیم کی تاریخوں میں توسیع کرنی چاہیے ٹیکس دینا ہر پاکستانی کا فرض ہے اور تاجر برادری اپنے کاروبار کو ٹیکس نیٹ میں لائیں بڑے بڑے کاروبار کرتے ہیں لیکن ٹیکس نہیں دیتے ان کی وجہ سے حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے خیبرپختونخوا نے مالی بحران کے باعث عالمی بنک اور ملکی بنکوں سے قرضے لینے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے خیبر پختونخوا حکومت کو اس وقت رواں مالی سال کے بجٹ میں اٹھارہ ارب روپے سے زائد کے خسارے کا سامنا کرنا پڑ رہاہے ۔صوبائی حکومت کی جانب سے بنکوں اور عالمی بنک سے قرضے لینے کی تجویز پر غورکیا جارہا تھا تاہم صوبے کی بیوروکریسی نے موقف اختیار کیا ہے کہ بنکوں اورعالمی بنک سے قرضے نہ لیا جائے اس سے صوبے میں قرضوں کا مزید بوجھ سے صوبے کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو نگے ۔خیبر پختونخوا حکومت نے سالانہ ترقیاتی پروگرام کا حجم بھی 174ارب 88کروڑ روپے سے کم کررہی ہے اور 90ارب روپے کے سالانہ ترقیاتی بجٹ پروگرام کا حجم بنا رہی ہے جبکہ وفاق کی جانب سے صوبے کو مسلسل طور پر نظر انداز کیا جا رہاہے ۔ جس پر صوبائی حکومت کا صبر لبریز ہو گیا ہے جبکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف ) کی سربراہ کرسٹائن لاگارڈ کا کہنا ہے کہ عالمی معیشت کو لاحق خطرات کے مقابلے کے لیے ایشیائی ملکوں کو ایسی مالیاتی پالیسیاں اپنانا چائیں جو اقتصادی ترقی میں معاون ثابت ہو سکیں۔عالمی معیشت کی نازک صورت حال اس وقت جن چیلنجوں کی وجہ بنی ہوئی ہے، ان کے مقابلے کے لیے ضروری ہے کہ ایشیائی ریاستیں اپنے ہاں ایسی مالیاتی پالیسیاں متعارف کرائیں، جو ان کی اقتصادی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی بجائے معاون ثابت ہو سکیں۔