نائن الیون کے بعد ایران نے القاعدہ جنگجوﺅں کو افغانستان سے فرار کیلئے محفوظ راستہ فراہم کیا: عرب میڈیا
دبئی (آئی این پی) القاعدہ اور ایران کے درمیان خفیہ مراسم اور دو طرفہ تعلقات کی خبروں اور امریکہ کی جانب سے ایران اور حزب اللہ کو گیارہ ستمبر 2001ء میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں میں ملوث قرار دینے کے بعد یہ انکشاف ہوا ہے کہ تہران نے القاعدہ کے جنگجوﺅں اور ان کے خاندانوں کو عرب اور دوسرے ملکوں تک پہنچنے کے لیے محفوظ راستے فراہم کیے تھے۔
عرب میڈیا کے مطابق خط الجرذان القاعدہ، ایرانی پاسداران انقلاب اور حزب اللہ کے درمیان باہمی تعاون کے اس خفیہ سلسلے کا حصہ ہے جو سال ہا سال سے ان کے درمیان چلا آ رہا ہے۔ پین عرب روزنامہ ”الشرق الاوسط“ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں پاسداران انقلاب کے منحرفین اور نائن الیون حملوں کے متاثرین کے وکلاءکے بیانات کے مطابق گیارہ ستمبر 2001 کے بعد جب امریکہ نے افغانستان میں القاعدہ کے خلاف چڑھائی کا فیصلہ کیا تو ایران نے القاعدہ جنگجوﺅں اور ان کے خاندانوں کو وہاں سے نکلنے اور محفوظ مقامات تک پہنچنے میں بھرپور مدد مہیا کی تھی۔
اخباری رپورٹ کے مطابق القاعدہ کے جن اہم رہنمائوں کو ایران کے راستے عراق اور دوسرے ملکوں تک منتقل ہونے کی سہولت مہیا کی گئی ان میں اسامہ بن لادن، سیف العدل اور ابو مصعب الزرقاوی کے نام بطور خاص شامل ہیں۔ ایران کی اس پالیسی سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ تہران نائن الیون کی دہشت گردی میں ملوث رہا ہے۔ ایران نے نہ صرف افغانستان میں محصور ہونے والے القاعدہ لیڈروں اور جنگجوﺅں کو محفوظ راستے مہیا کیے بلکہ انہیں تہران کے راستے یورپ تک پہنچانے میں بھی مدد کی۔ اس کی مثال القاعدہ جنگجوﺅ محمد عطا اور رمزی بن شیہ کی مختلف یورپی شہروں میں ملاقاتیں، وہاں سے افغانستان آمد اور افغانستان سے لوٹنے کے بعد تہران میں ان کے قیام سے بھی ملتی ہے۔ جرمن حکومت کا یہ دعویٰ درست ہے کہ بن شیبہ کو جرمن ویزہ برلن میں قائم ایرانی سفارت خانے کے ذریعے دلوایا گیا۔ امریکی تفتیش کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایران اور القاعدہ کے درمیان گٹھ جوڑ محض عارضی اور معمولی نہیں بلکہ وسیع پیمانے پر تھا کیونکہ جب القاعدہ جنگجوﺅں کے دوسرے ملکوں کے ویزے ختم ہو گئے تو ایران نے انہیں دوبارہ ویزے دلوائے تھے۔
تازہ دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ اسامہ بن لادن اپنی تنظیم کے جنگجوﺅں کو عسکری تربیت کے لیے لبنان میں عماد مغیہ کی زیرنگرانی قائم عسکری تربیتی کیمپ میں ٹریننگ کے لیے بھجواتے رہے ہیں۔ رپورٹس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ 2004ء میں بن لادن افغانستان سے ایران منتقل ہوئے۔ ان کی ایران آمد کے حوالے سے صوتی پیغامات بھی منظرعام پرآچکے ہیں۔ بن لادن ایک ایسے وقت میں ایران پہنچے تھے جب وہ پوری دنیا کے مطلوب نمبر ون تھے۔