جوتا چھپائی اور جوتا پٹائی
پاک و ہند میں جوتا چھپائی اور دودھ پلائی شادی کی چند لازمی رسموں میں شامل ہے۔ اس کے بغیر شادی پھیکی پھیکی رہ جاتی ہے شادی کے سنجیدہ فنکشن کو تھوڑا چلبلا بنانے کے لئے شاید ان رسموں کو شامل کیاگیا۔ ویسے تو یہ دونوں رسمیں ہندوانہ ہیں، لیکن چونکہ مسلمان ایک لمبے عرصے تک ہندوؤں کے ساتھ رہے ہیں تو ایسی کئی رسمیں اور رواج ہیں جو ان دونوں اقوام میں مشترک ہو گئے ہیں۔
اسی طرح ان دونوں ممالک کے پولیس کلچر میں بھی کافی مماثلت پائی جاتی ہے، ہمارے ہاں پولیس کو جتنی مرضی ٹیکنالوجی فراہم کردی گئی ہے، لیکن اب بھی مجرم سے جرم منوانے کے لئے ’’جوتے‘‘ (لِترّ) کا سہارا لیا جاتا ہے اور پھر چاہے اس نے وہ جرم کیا ہو یا نہ کیا ہو، اسے ماننا تو پڑتا ہے۔ جوتے کی اس خصوصیت سے ہماری پولیس خوب واقف ہے اور اس کا بھرپور استعمال اور فائدہ اٹھاتی ہے۔
بات چونکہ جوتوں کی ہورہی ہے، اِسی حوالے سے ہم نے ایک مزید روایت یا رسم مغربی یا عربی کلچر سے بھی درآمد کی ہے۔ جب 2008ء میں عراق میں جارج بش کو ایک عربی صحافی زیدی نے پریس کانفرنس کے دوران جوتا کھینچ مارا، جو اس وقت براہ راست پوری دنیا میں دیکھا گیا۔
امریکی صدر کی اس ’’تواضع‘‘ پر عراق سمیت پوری دنیا کے بیشتر ممالک کے لوگوں نے اس حرکت کو بے حد سراہا اور اس طرح غم و غصہ اور نفرت دکھانے کا ایک نیا طریقہ متعارف ہوا، چونکہ یہ واقعہ ایک عربی صحافی کے ہاتھوں عراق میں امریکی صدر کے ساتھ پیش آیا، تو ہم اسے عربی اور مغربی کلچر کا امتزاج بھی کہہ سکتے ہیں، بہر حال یہ کہنا بھی کسی حد تک درست ہوگا کہ جوتے مارنے کی اس رسم کے دور حاضر کے أوجد بھی ایک صحافی ہی نکلے۔
پھر ایسے واقعات ہوتے چلے گئے، جہاں جس نے کسی کے خلاف نفرت اور غم و غصے کا اظہار کرنا ہوتا، وہ جوتا کھینچ مارتا۔ ہیلری کلنٹن سے لے کر سابق چائنیز صدر جیاپاؤ، سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد اور ہمارے اپنے چہیتے سابق صدر پرویز مشرف بھی اس فہرست میں نمایاں طور پر شامل رہے ہیں، بہر حال اس طرح اس بیرونی روایت نے پاکستان میں اپنی جگہ بنائی، بلکہ ابھی دور حاضر میں جوتوں کے بے دریغ استعمال سے اس روایت کو مزید تقویت ملی۔
ابھی چند روز پہلے ایک دینی مدرسے میں جناب نواز شریف تشریف لے گئے اور تقریر شروع کرتے ہی ایک نوجوان نے جوتا کھینچ مارا، جناب خواجہ آصف وفاقی وزیر خارجہ کے ساتھ بھی پیش آیا، جب مسلم لیگ ورکرز کنونشن کے موقع پر ایک شخص نے ان کے چہرے پرسیاسی پھینک دی۔ پھر اسی سلسلے کی ایک اور کڑی فیصل آباد میں عمران خان پر ایک شخص کا حملہ تھا جو ناکام ہوگیا۔ چونکہ محترم نواز شریف اور خواجہ آصف پر پہلے ایسے حملے ہو چکے تھے تو اب اگر عمران خان پر حملہ نہ ہوتا تو توازن برقرار نہ رہتا۔
بہر حال یہ ایک نہایت ہی بُرا رد عمل تھا، حالانکہ عمران خان نے نواز شریف اور خواجہ آصف کے واقعات کی بھرپور مذمت کی اور واضح الفاظ میں اسے شرمناک اور گری ہوئی حرکت کہا، لیکن اس کے باوجود یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ حساب برابر ہونا چاہئے، چاہے یہ حرکت کسی نے بھی کی ہو، لیکن عمران خان کے ساتھ بھی ایسا ہونا چاہئے۔ وجہ کوئی بھی ہو جوتے مارنے کی روایت جو چل نکلی ہے، بہت دور تک جائے گی۔ اب ایک نیا Security Threat ہے۔
پہلے کم خطرات میں گھرے ہوئے تھے کہ اب جوتوں کے خطرات بھی چھائے رہیں گے، جب سے یہ چند واقعات پیش آئے ہیں، زیادہ تر سیاستدانوں نے اپنے ساتھ خصوصی اہلکاروں کی ٹیم تشکیل دے دی ہے، جن کا کام ان عوامی نمائندوں کو لوگوں کے جوتوں اور سیاہی پھینکنے سے محفوظ رکھنا ہے۔
جناب جوتے پھینکنے سے معاملات اور حالات میں تبدیلی نہیں آئے گی، یہ مہذب معاشروں کو زیب نہیں دیتا، اگر آپ کو کسی سے کوئی شکوہ شکایت، غم و غصہ ہے تو آپ اسے باآواز بلند مخاطب ہو سکتے ہیں، بُرا بھلا کہہ سکتے ہیں، لیکن اس طرح جوتے اور سیاسی پھینک دیناتہذیب سے گری ہوئی حرکت ہے۔
یہاں ایک نہایت ہی اہم سوال اٹھتا ہے کہ آخر عوام میں اتنا غم و غصہ کیوں آگیا ہے، کیوں لوگ اتنا تناؤ کا شکار ہوچکے ہیں۔ آخر کیا وجوہات ہیں کہ لوگ ایسے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں۔
سیاستدان تو الیکشن سے پہلے عوام میں گھل مل جاتے ہیں، جھوٹے سچے وعدے کریں گے، بہترین مستقبل اور نوکریوں کے وعدے کریں گے اور الیکشن جیت کر غائب! پھر عوام 5 سال ان منتخب نمائندوں کو صرف ٹی وی چینلز پر ہی دیکھیں گے۔
اپنے درمیان حلقے میں دوبارہ دیکھنے کے لئے عوام کو 5سال انتظار کرنا پڑے گا۔ بات صرف اتنی ہوتی تو بھی شائد عوام میں اتنا غم و غصہ نہ ہوتا۔ جناب پانچ سال تک عوام پر طرح طرح کے ٹیکسوں کا بوجھ، مہنگائی بے روزگاری کا بوجھ، بڑھتا چلا جاتا ہے، نہ تعلیم اور نہ ہی علاج معالجے کی سہولیات اور اوپر سے پولیس گردی، اس نظام میں عوام کو اتنے جوتے مارے جاتے ہیں کہ اگلے الیکشن تک انہیں ہوش نہ آسکے، جب عوام کو اتنے جوتے ماریں گے، اتنی زیادتی کریں گے، اتنا سانس بند کردیں گے تو کیا عوام آپ کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالیں گے، آپ وہی کاٹ رہے ہیں، جو آپ بوتے چلے آئے ہیں، اب کیوں پریشان ہوتے ہیں، اب عوام کا سامنا کریں، ان سے معافی مانگیں، یہ عوام کا احتساب ہے، اس میں وہی کامیاب ہوگا، جوعوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرے گا۔
میری تمام پارٹی رہنماؤں سے گزارش ہے کہ عوامی لیڈر کہلانا آسان ، لیکن بننا بہت مشکل ہے، خدارا اس ملک اس قوم کا سوچیں اور عوام سے اپیل ہے کہ عمل کا رد عمل ایک فطری عمل ہے لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ ہم بھی اپنے رویے میں تبدیلی لائیں، جوتے اور سیاہی پھینکنے کی بجائے، وقت پر صحیح امیدوار کا انتخاب کریں۔۔۔ آپ یقین کریں آپ کا ووٹ جوتے سے زیادہ تکلیف دہ ثابت ہوگا اور اس کی گونج سنائی دیتی رہے گی۔
سیاستدانوں اور عوامی نمائندوں کے نام ایک پیغام ’’ جناب ایسا نہ ہو کہ آئندہ ہر جلسے سے پہلے جوتا پھینکنے سے بچنے کے لئے عوام کی جوتا چھپائی کی رسم ادا کرنی پڑے‘‘۔