اہل شام اور مسلمان
دنیا بدلتے رنگوں اور بدلتے حالات کا دوسرا نام ہے۔ سکون اگر میسر ہے تو صرف گڑھے میں موجود پانی کو انسان کا دل و دماغ ماہی بے آب کی طرح مضطرب ہے۔
کبھی کسی بیماری سے جوبُجھ رہا ہوتا ہے تو کبھی حالات کے شکنجے میں پھنس جاتا ہے۔پاکستان میں موجود تقریباً سبھی لوگ ایسی کیفیت سے دوچار ہیں۔
مسلمان چاہے پاکستان میں ہوں یا کسی اور ملک میں وہ بدترین حالات کا سامنا کررہے ہیں۔ اذیت کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی اس قابل نہیں جو چند قدم آگے بڑھا کر دوسرے مسلمان کا ہاتھ تھام سکے اور اس کی مدد کر سکے۔
اگر کوئی مسلمان ایسی صلاحیت رکھتا بھی ہے تو وہ زبان کھولنے کو تیار نہیں (شاید یہ ایمان کی کمزوری ہے)۔ احساس بس اتنا سا ہے کہ چند سیکنڈوں یا منٹوں تک ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا درد محسوس کرتا ہے۔ اس کے بعد زمانے کی بھول بھلیوں میں ہم سب گُم ہو جاتے ہیں۔
اس حقیقت سے کوئی منہ نہیں موڑ سکتا کہ تقریباً ہر انسان (مسلمان) اپنی جنگ خود لڑ رہا ہے، لیکن یہ کہاں کا اصول ہے کہ آدھی دنیا آپ کے بھائیوں کو گولیوں اور بموں سے بھون رہی ہو۔ ننھے منے بچوں کا خون یوں بہا رہی ہو جیسے چمڑے کی فیکٹری سے نکلنے والا سیال مادہ ہو۔
جہاں چند دنوں میں چند سال کے بچے اس قابل ہو جائیں وہ تن تنہا بارڈر پار کرنا شروع کر دیں، جبکہ ان بچوں کو بھوک ایسا کرنے پر مجبور نہ کرے، بلکہ زندگی کی حفاظت ان کی جان کا روگ بن جائے۔
جہاں آٹھ، دس سال کی لڑکی چار ، پانچ سال کی اپنی بہن کو خون میں لت پت یوں سنبھال رہی ہو کہ اگر کوئی ماں دیکھے تو اسے اپنی ممتا اور محبت پر شک ہونے لگے۔
جہاں لوگ آپ سے یہ مطالبہ نہ کریں کہ انہیں سپرپاور چاہیے یا پھر قارون کا کوئی خزانہ ان کا مطالبہ ہو، بلکہ وہ صرف اپنی سرزمین مانگ رہی ہوں، جہاں وہ سکون کا سانس لے سکیں اور اپنے پیاروں کے ساتھ زندگی گزار سکیں، جبکہ آپ ہاتھ پر ہاتھ دھرے صرف چند منٹ کا افسوس کریں اور اس کے بعد سب بھلا دیں۔
دوسری طرف ہر گذرتے دن کے ساتھ لوگوں کو ان کے حقوق کے متعلق آگاہ کرنے کے لئے بہت سی ورکشاپز، کانفرنسز اور منعقد ہوتی ہیں۔ لوگوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ ہر کامیابی کی بنیاد علم ہے۔
آج بچوں کی تعلیم کل کی دنیا کو نئی کامیابیوں سے منور کرے گی۔ بچوں کی تعلیم اتنی ہی ضروری ہے، جتنا دو وقت کا کھانا، لیکن کیا شام میں رہنے والے بچوں کا تعلیم بنیادی حق نہیں؟ کیا علم کے علمبرداروں کو شام میں موجود ہر بچے کے چہرے میں ملالہ کا چہرہ نظر نہیں آتا؟ یا پھر یہ کہہ لیجئے کہ تعلیم صرف ترقی یافتہ اقوام کا حق ہے۔
عالمی جنگوں کا مرکز ہمیشہ کمزور لوگ بنتے ہیں۔ کبھی افغانستان کی صورت میں اور کبھی شام کی صورت میں۔ UDHRجن انسانی حقوق کی بات کرتا ہے۔ کیا شام کے لوگ ان حقوق سے مستثنیٰ ہیں؟
یا پھر یہ کہنا بجا ہو گا کہ انسانی حقوق صرف طاقتور اقوام کے لئے بنائے گئے ہیں۔ اگر ان اقوام پر نائن الیون جیسا کوئی حملہ ہوتا ہے تو پورے کے پورے ملک میں فوجیں اتار دی جاتی ہیں اور وہاں کے باسیوں کو یوں کچلا جاتا ہے، جیسے سانپ کا سر ہو۔
شام کا قصہ شروع سے تھوڑا مختلف نظر آتا ہے لیکن اب جو حالات آ چکے ہیں، ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جنگ پھر سے امریکہ اور روس میں بدل چکی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ دوسرے مسلم ممالک اپنے اپنے حصے کی جنگ لڑنے کے لئے امریکہ اور روس کا ساتھ دینے لگے ہیں، جبکہ دوسرے مسلم ممالک جیسے کہ پاکستان خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ ہماری جوتا سیاست ختم ہوگی۔تبھی ہم دیوار سے جھانک کر دیکھیں گے کہ کتنی لاشیں گریں، پاکستان اسلام کا قلعہ ہے۔
اس حقیقت میں کوئی شک نہیں، لیکن جب اس قلعے کے وارث اپنی ہی چالوں میں پھنس جائیں اور ساون میں خود کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرنے لگیں تو پھر بھلا کیا مدد کی امید رکھنا۔ پاکستان اگر اس قابل ہوتا تو کشمیر ’’مقبوضہ‘‘ نہیں، بلکہ ’’آزاد‘‘ کہلاتا۔
میری بات سے شاید آپ سب متفق نہ ہوں، لیکن اگر بحیثیت ایک فرد دیکھا جائے تو باہمی صلہ رحمی، بھائی چارہ اور صبر و برداشت ہم سب میں نام کی نہیں رہی۔ ہر شہری اپنی جھولی بھرنے کو بے تاب کھڑا ہے۔
میں اپنے شامی بھائیوں سے صرف اتنا کہنا چاہوں گی کہ ہم خود بیچ منجدھار میں پھنسے بیٹھے ہیں۔ ہم کبھی کسی سیاسی شوشے کے پیچھے دوڑ لگانے لگتے ہیں تو کبھی کسی مذہبی گٹھ جوڑ کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
پاکستان میں اس وقت جمہوریت کے نہ ہونے کا رونا رویا جا رہا ہے۔ وہ جمہوریت جو میں نے پچھلے اٹھارہ بیس سال میں کبھی نہیں دیکھی۔ ہم بحیثیت ایک قوم تو دور کی بات، بحیثیت ایک پاکستانی شہری بھی تِلوں میں تیل نہ ہونے کے مترادف ہیں۔
اپنی شخصی کمزوریوں سے بالاتر ہو کر اگر دیکھا جائے تو یہ بات حق بجانب ہے کہ میں اور آپ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتے ماسوائے اللہ تعالیٰ سے اپنے شامی بھائیوں کے حق میں دعا مانگنے کے، جبکہ پاکستانی حکومت کو باقاعدہ اس معاملے کو عالمی سطح پر حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ جلد از جلد شام میں ناحق قتل ہونے والے لوگوں کی جان و مال کا ازالہ ہو سکے۔