کلام اقبال (شرح بال جبریل)غزل نمبر: 10

Mar 21, 2018

پروفیسر ڈاکٹر قاری محمد طاہر

متاعِ بے بہا ہے درد و سوزِ آرزو مندی
مقام بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی
ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا، نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی، وہاں جینے کی پابندی!
حجاب اکسیر ہے آوارۂ کوے محبت کو
میری آتش کو بھڑکاتی ہے تیری دیر پیوندی
گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ و بیاباں میں
کہ شاہیں کے لیے ذلت ہے کارِ آشیاں بندی!
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی؟
زیارت گاہِ اھلِ عزم و ہمت ہے لحد میری
کہ خاکِ راہ کو میں نے بتایا رازِ الوندی!
مری مشّاطگی کی کیا ضرورت حسنِ معنی کو
کہ فطرت خودبخود کرتی ہے لالے کی حنابندی!


یہ بال جبریل کی دسویں غزل ہے جو معمول کے مطابق سات اشعار پر مشتمل ہے۔
پہلے شعر میں علامہ فرماتے ہیں:


متاعِ بے بہا ہے درد و سوزِ آرزو مندی
مقام بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی


متاع بے بہا۔ دولت قیمتی اثاثہ۔ انتہائی اہم چیز جو فائدہ دے
مقام بندگی۔ اللہ کی عبدیت کا مقام


درد و سوز۔ انتہائی آہ و زاری اور سوز کے ساتھ دعا کرنا، الوند ایک پہاڑ کا نام ہے جو ایران میں ہے جو بہت بلند ہے، اس کی بلندی ضرب المثل ہے۔


ایک محب کے لیے محبوب کے وصل کی آرزو سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں۔ یہ وہ دولت ہے جس کو مال و دولت سے تولا نہیں جا سکتا اور نہ ہی دنیا میں اس کا کوئی اور بدل موجود ہے۔

محبوب کے ساتھ وصل یعنی اس سے ملاقات کی آرزو اور اس آرزو کی وجہ سے جو کرب اور سوز محب کو بے چین کیے رکھتا ہے یہ بے قراری اورملاقات کی خواہش انسان کو ہر وقت تڑپاتی رہتی ہے۔

اس تڑپ کے اندر جو دل میں بے قراری کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ یہ بے قراری بے چینی ہروقت محب کے دل میں بے قراری کی کیفیت پیدا کیے رکھتی ہے اور محب کو اس بے قراری میں جو لذت محسوس ہوتی ہے دنیا کی بڑی سے بڑی دولت اس کے مقابلے میں انتہائی ہیچ ہے۔ کم تر ہے۔


عربی زبان میں انسان کے لیے عبد کا لفظ استعمال ہوااور عبدیت بہت بڑا اعلیٰ مقام ہے۔عبدیت کا مقام اتنا بلند و بالا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ لفظ جناب محمد رسول اللہﷺ کے لیے استعمال کیا ہے۔ عبدہ ورسولہ ۔ کہ محمدﷺ اس کے بندے ہیں۔

اس کے رسول ہیں۔

اسی لیے علامہ فرماتے ہیں کہ اللہ میرا آقا ہے۔ میں اس کا بندہ ہوں۔ اس عبدیت کے حوالے سے میرا مقام اور مرتبہ اتنا بلند و بالا ہو چکا ہے کہ میں اپنے رب کا بندہ ہونے کے سبب خود کو بہت صاحب افتخار سمجھتا ہوں، اس عالی مرتبہ کی وجہ میں سمجھتا ہوں کہ میں اس کے بدلے میں کبھی شان خداوندی بھی قبول نہیں کر سکتا کیونکہ میرے نزدیک عبدیت کا مقام کہیں بلند و بالا ہے۔


اس دنیا میں سب سے بڑی ذات رب کائنات کی ہے جو پوری کائنات کا مالک ہے اور اس کا عبد ہونا اس کا عبد بن کر رہنا سب سے بڑی نسبت ہے۔ اسی نسبت سے میں صاحب مرتبہ ہوں۔


دوسرے شعر میں علامہ اللہ تعالیٰ سے شکوہ آمیز تعلِی کا اظہار فرماتے ہیں۔ اے اللہ! تو نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا۔

اسی اشرف المخلوقات ہونے کے سبب میں آزاد ہوں جبکہ دنیا کی ہر چیز کسی نہ کسی انداز میں مقید ہے اورایک انسان ہی ہے جو زندگی اور قید کے حصار میں ہے۔

کہنے کو تو انسان آزادی کی نعمت سے مالا مال ہے لیکن دنیا میں آکر زندہ رہنا بھی تو ایک طرح کی قید ہی ہے کہ زندہ رہتے ہوئے بھی انسان زندگی کے حصار میں قید ہے۔


دوسرے شعر میں علامہ فرماتے ہیں:


ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا، نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی، وہاں جینے کی پابندی!


ہم تیرے آزاد بندے ہیں تو نے ہمیں آزادی کی نعمت سے مالا مال کر کے دنیا میں بھیجا ہے جبکہ دنیا کی ہر چیز کسی نہ کسی حوالے سے قید کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ اگرچہ انسان بظاہر آزادی کی زندگی گزارتا ہے تاہم بنظر غور دیکھا جائے تو یہ انسان اصلاً مقید زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

اپنی پیدائش کے حوالے سے مجبور ہے اور اس دنیا سے جانے کے حوالے سے بھی مجبور ہے کیونکہ موت و حیات پر کسی کی اجارہ داری نہیں۔

انسان نہ اپنی مرضی سے زندہ رہ سکتا ہے، نہ ہی موت سے پہلے خود اپنی مرضی سے موت کو گلے لگا سکتا ہے کیونکہ پیدائش کا بھی وقت مقرر ہے اور موت کا بھی وقت مقرر ہے۔ اس ضمن میں قرآنی محرکات میں اللہ کا فرمان ہے:


’’ہر انسان اور ہر چیز کو فنا کا مزہ چکھنا ہے۔‘‘


اور موت کے بعد پھر ابد لآباد کی زندگی شروع ہو گی جو حقیقت میں ایک قبر کی زندگی ہی ہو گی اور انسان کو مستقل زندہ رہنا ہو گا۔ قرآن میں ہے:
’’خٰلِدِیْنَ فِیْھَا‘‘(آل عمران: 15/3)
انسان ہمیشہ زندہ رہے گا، پھر موت نہیں آئے گی۔ گویا دنیا کی زندگی، قبر کی زندگی اور عاقبت کی زندگی بھی مسلسل حیات کی شکل میں حبس دوام کی زندگی ہو گی۔


اس لیے فرمایا: یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی۔ گویا ہر لحاظ سے انسان مقید زندگی بسر کر رہا ہے۔


تیسرے شعر میں علامہ فرماتے ہیں:
حجاب اکسیر ہے آوارۂ کوے محبت کو
میری آتش کو بھڑکاتی ہے تیری دیر پیوندی
حجاب۔ پردہ
اکسیر۔ بااثر چہرہ۔ افاقہ مند دوا
آوارۂ کوے محبت۔ محبت کے کوچے میں آوارہ پھرنے والا شخص
دیر پیوندی۔ توقف اور دیر سے انسیت کا حاصل ہونا


جو شخص محبت کے کوچے میں اپنے محبوب کی تلاش میں بظاہر بے کار پھرتا ہے وہ دراصل اپنے محبوب کو ڈھونڈ رہا ہوتا ہے۔ ایسے شخص سے محبوب کا پردہ میں رہنا ہی محب کی خواہش کا اصل علاج ہے۔

اگر محبوب بے پردہ ہو کر اپنے محبوب کے سامنے آ جائے تو اس وصل کی وجہ سے اس کی تڑپ ختم ہو جاتی ہے اور اس کی تلاش اور جستجو کی لذت اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے اور اس وصل میں وہ لذت ہی باقی نہیں رہتی۔

محب کو اصل مزہ تو انتظار وصل ہی میں حاصل ہوتا ہے، جوں جوں انتظار بڑھتا ہے اور وصل نہیں ہوتا تو تڑپ میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

یہی تڑپ اور عدم وصل محبت کے لیے علاج زندگی ہے۔ یہی کیفیت محب کی بیماری کے لیے تریاق کا کام دیتی ہے کیونکہ اس کی آتش وصل میں ہر دم اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے۔ اس لیے اے اللہ! تیرا حجاب میں رہنا ہی میرے لیے حیات بخش ہے۔


چوتھے شعر میں علامہ فرماتے ہیں:
گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ و بیاباں میں
کہ شاہیں کے لیے ذلت ہے کارِ آشیاں بندی!


آشیانہ بندی میں زندگی کی اہمیت کی وضاحت ہے اور درویشانہ زندگی کی خوبیوں کا تذکرہ ہے اور اس کے اظہار کے لیے علامہ نے شاہین کو تمثیل کے طور پر چنا ہے۔ فرماتے ہیں:


شاہین ایک درویشی صفت رکھنے والا پرندہ ہے۔ اس کی پرواز بہت اونچی ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے اسے تمام اڑنے والے پرندوں پر فضیلت و برتری بھی حاصل ہوتی ہے۔

طاقت و قوت بھی اسے زیادہ ہوتی ہے، وہ جہاں چاہے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام یعنی عمدہ سے عمدہ درخت کے گھنے سائے میں اپنا گھونسلہ بنا سکتا ہے لیکن ان تمام صلاحیتوں کے باوجود کوہ بیابان فضاؤں میں آزادی کے ساتھ اڑتا پھرتا ہے۔

جنگلوں کا باسی رہ کر زندگی گزار لیتا ہے اور کسی اعلیٰ مقام میں بسیرا کرنے کو اپنے لیے ذلت خیال کرتا ہے۔ اسی طرح جو شخص اللہ پر توکل کرتے ہوئے دنیوی مال و منال پر آسائش زندگی سے کنارہ کش رہتا ہے اور دنیاوی علائق اور جھمیلوں میں نہیں پھنستا وہی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر لیتا ہے۔


یہی وجہ ہے کہ اہل دنیا کے لیے ایسے شخص کے لیے عزت و توقیر بھی زیادہ ہوتی ہے جو بڑے بڑے بادشاہوں کو بھی حاصل نہیں ہوتی۔
پانچویں شعر میں علامہ فرماتے ہیں:


یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی؟

انسان کی تربیت میں دو چیزوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اس کے والدین، دوسرے درس گاہ۔


علامہ حضرت اسماعیل ؑ کی مثال دے کر سمجھاتے ہیں کہ حضرت اسماعیل ؑ کو آداب فرزندی کی تعلیم ان دونوں ذرائع سے ہی حاصل ہوئی تھی۔ یہ صلاحیت حضرت ابراہیم ؑ کی پدری صحبت اور تربیت سے ان کو حاصل ہوئی۔حضرت اسماعیل ؑ حضرت ابراہیم ؑ کے بیٹے تھے۔


اس شعر میں علامہ کے لیے قرآنی محرک سورۃ الصافات کی آیت نمبر 102ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:


حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے اسماعیل ؑ کو مخاطب ہو کر فرمایا: اے میرے بیٹے! مجھے خواب میں القا ہوا ہے کہ میں تجھے اللہ کے حکم سے اللہ کی راہ میں ذبح کروں، اب تو بتا اس بارے میں تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے اسماعیل نے جواب دیا:


ابا جی! آپ کو جو حکم ملا ہے آپ اس پر عمل کر گزرئیے، آپ ان شاء اللہ اس معاملے میں مجھے صابر و شاکر پائیں گے۔


اسی واقعے کو علامہ منظوم کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی؟


انسان کی تربیت دو بنیادی زاویوں سے ہوتی ہے۔ علامہ اقبال اپنے شعر میں ان دونوں زاویوں کا تذکرہ سوالیہ انداز میں کرتے ہیں کہ حضرت اسماعیل ؑ نے فرزند ہونے کے آداب کہاں سے حاصل کئے۔ کیا یہ کسی درس گاہ میں ان کو سکھائے گئے یا صالح پدری نظر کا اثر تھا جو اسماعیل ؑ کی ذات پر اثر انداز ہوا۔

فکر اقبال کے شناسا ان دونوں زاویوں کو الگ کر کے بیان کرتے ہیں جبکہ ہمارے نزدیک یہ دونوں منابع کی کرشمہ سازی کا اثر تھا کیونکہ حضرت ابراہیم ؑ کی شکل میں یہ دونوں منابع جمع ہو گئے تھے۔ حضرت ابراہیم ؑ کی نظر بھی کیا پراثر تھی کہ آپ اولو العزم جد الانبیاء تھے۔ دوسری طرف وہ استاد کامل تھے۔

حضرت اسماعیل ؑ کو ان دونوں سے فیض حاصل تھا۔ یعنی فیض نظر اور مکتب نے مل کر حضرت اسماعیل ؑ کی کردار سازی کی تھی جن سے آپ کی ذات مجسم کمال کا درجہ اختیار کر گئی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آپ کی صلب سے جناب محمدﷺجیسی شخصیت خاتم النبیین سالار انبیاء بن کر دنیا میں تشریف لائے۔


چھٹے شعر میں علامہ فرماتے ہیں:
زیارت گاہِ اہلِ عزم و ہمت ہے لحد میری
کہ خاکِ راہ کو میں نے بتایا رازِ الوندی!


جب میں دنیا سے رخصت ہو جاؤں گا تو لوگ میری قبر کی زیارت اور فاتحہ کے لیے آیا کریں گے کہ یہاں ایک ایسا عظیم مفکر خوابیدہ ہے کہ اس نے کائنات کے رازوں کو اپنے اشعار کے ذریعے فاش کیا اور ایسی ایسی باتوں سے لوگوں کو آگاہ کیا کہ جن پر اپنی عملی زندگی کو استوار کرنا ان کے لیے سربلندی کا باعث بن سکتا ہے اور اسی سے ان کو عظمت و سربلندی حاصل ہو سکتی ہے۔


ساتویں شعر میں علامہ فرماتے ہیں:
مری مشّاطگی کی کیا ضرورت حسنِ معنی کو
کہ فطرت خودبخود کرتی ہے لالے کی حنابندی!


میں نے کائنات کے حوالے سے بہت اہم رازوں سے پردے اٹھائے ہیں جس سے انسانوں کی سوچ اور فکر کو بہت جلا حاصل ہوتی ہے۔ یہ تمام باتیں میں نے رسول اللہﷺکے فرامین اور کتاب اللہ سے اخذ کی ہیں۔

اس میں میرا کوئی کمال نہیں۔ یہ سب کچھ فطرت ہی کی طرف سے میرے دل پر القا ہوتی ہیں وگرنہ میرے اشعار میں ایسا کوئی کمال نہیں کیوں کہ گل و لالہ کا جو حسن ہے وہ کسی مالی کا پیدا کردہ نہیں۔

یہ حسن کی کرشمہ سازی خالصتاً فطرت کا کمال ہے۔ یہ حسن اللہ کا عطا کردہ ہے۔ مالی تو صرف زمین کا بیج ہی کاشت کرتا ہے۔ حسن ریزی اللہ ہی کا کمال ہے۔ اسی طرح میرے خیالات کی پاکیزگی اور شعر کا حسن اللہ کا القا کیا ہوا ہے۔

مزیدخبریں