یہ خونی کھیل کب تک جاری رہے گا؟
پتنگ بازی کا خونی کھیل ملک بھر میں با لعموم اور پنجاب میں بالخصوص دھڑلے سے جاری ہے۔ یہ کھیل جہاں ہماری ثقافت ، معاشرتی استحکام اور اسلامی اخلاقیات کو بگاڑنے کا سبب بن رہا ہے ، وہاں آئے دن کسی نہ کسی انسان کی زندگی کا چراغ بھی گل کرتا چلاجارہا ہے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ پتنگ کی دھاتی ڈور سے کٹ کر جاں بحق ہونے والے افراد کی اکثریت ان لوگوں کی ہے جو نہ پتنگ اڑاتے ہیں اور نہ ہی ان کا مقصد پتنگ لوٹنا ہوتا ہے۔
10فروری 2018ء کے اخبارات میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق گوجرانوالہ میں ایک 7 سالہ بچہ پتنگ کی دھاتی ڈور گلے پر پھرنے سے جاں بحق ہوگیا ۔ اس بچے کے والد شفیق الرحمن نے بتایا کہ ’’میں اپنے بیٹے جمیل الرحمن کو موٹر سائیکل پر اپنے آگے بٹھائے گھر جارہا تھا کہ اچانک ایک کٹی ہوئی پتنگ کی ڈور میرے بیٹے کی گردن پر گری، میں ایک دم بریک نہ لگاسکا ،جس کے باعث وہ ڈور میرے بیٹے کی گردن پر چھری کی طرح تیزی سے پھر گئی اور اس کی گردن سے خون بہنے لگا۔
میں اسے جلدی سے قریبی ہسپتال لے کر پہنچا ،لیکن زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے وہ جانبر نہ ہوسکا‘‘۔۔۔ اس معصوم بچے کی ماں اپنے بیٹے کی اس اچانک اور دردناک موت کی خبر سن کر نیم پاگل ہوگئی ہے اور اسے بالکل یقین نہیں آرہا کہ اب اس کا لاڈلا بیٹا اس دنیا میں نہیں ہے۔
ایک اور خبر کے مطابق فیصل آباد میں ایک پتنگ باز دھاتی ڈور سے پتنگ اڑارہا تھا کہ پتنگ کی دھاتی ڈور بجلی کی مین تار سے ٹکراگئی ،جس سے اس لڑکے جواد احمد کو کرنٹ لگا اور اس کی موقع پر موت ہوگئی۔23فروری کواسی خونی کھیل کا شکار راولپنڈی کا نوجوان عدنان ہوچکا ہے جو بسنت کی خوشی میں اپنے پستول سے ہوائی فائرنگ کر رہا تھا کہ پستول کی خرابی کے باعث خود ہی اس سے نکلنے والی گولی کا نشانہ بن کر موت کی آغوش میں چلا گیا، جبکہ سیالکوٹ کانوجوان فہیم احمدبھی اسی روز موٹر سائیکل پر گھر سے بازار جاتے ہوئے قاتل ڈور گلے پر پھرنے سے دن دیہاڑے تڑپ تڑپ کر سڑک کے اوپر جان کی بازی ہار گیا ۔پتنگ بازی سے صرف دو ماہ میں ہونے والے جانی و مالی نقصانات کی رپورٹ بھی دل دبلا دینے والی ہے۔
اگر اس سے ہٹ کر پتنگ بازی کی وجہ سے ہونے والے معاشرتی بگاڑ ، اخلاقی تنزلی ، ثقافتی اور تہذیبی پامالی کا جائزہ لیا جائے تو یہ نقصان شائد ناقابل تلافی ہے۔
جس طرح نیو ائیر نائٹ وغیرہ منانے کے لئے غیر اخلاقی تقاریب اور فنکشنز کا اہتمام کیا جاتا ہے ، اسی طرح بسنت پر بھی ایسی ہی غیر اخلاقی اور غیر مہذب تقریبا ت کا انعقاد شہری آبادیوں میں کیا جاتا ہے۔
ان تقریبا ت میں سرعام شراب نوشی اورہوائی فائرنگ کی جاتی ہے ۔ساؤنڈ سسٹم، ایمپلی فائر، ڈیک اور سپیکر لگا کر بلندترین آوازوں میں لچر اور فحش قسم کا میوزک لگا کر نہ صرف شہریوں کو آواز سے پیدا ہونے والی تکلیف پہنچائی جاتی ہے، بلکہ یہ گھٹیا گانے زبردستی ان کے گھروں تک پہنچائے جاتے ہیں ، جس سے عام شہریوں کو جسمانی کے ساتھ ایمانی اذیت بھی دی جاتی ہے۔
ایسے پروگراموں میں نہ صرف بڑے پیمانے پر آتش بازی کی جاتی ہے ،بلکہ کھسروں کے علاوہ دھندہ کرنے والی لڑکیوں کو بھی سرعام نچایا جاتا ہے اور ان کے ساتھ بر سر محفل نازیبا حرکات کی جاتی ہیں۔
ایسے متعدد واقعات بھی رپورٹ ہو چکے ہیں کہ اس طرح کی حرکتوں کو روکنے کے لئے اگر اہل محلہ باہر نکلے اور ایسی پارٹیوں کا انعقاد کرنے والوں کے ساتھ جھگڑا مول لے لیا۔
ایسے متعدد تصادموں میں صرف دو ماہ کے اندر 370افراد شدید زخمی ہو چکے ہیں جن میں سے کئی اسپتالوں کے اندر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے پتنگ کی ڈور پھرنے سے ہونے والی ہلاکتوں کا بار بار نوٹس لیا اور متعلقہ علاقوں کے متعدد پولیس افسران کو فرائض سے غفلت پرتنے پر معطل کر چکے ہیں ۔
ابھی 23فروری کو اوکاڑہ میں پتنگ کی ڈور سے جاں بحق ہونے والی فہیم کی موت پر نہ صرف وزیر اعلیٰ پنجاب نے لواحقین کے ساتھ گہرے دکھ کا اظہار کیا، بلکہ اوکاڑہ کے ڈی ایس پی ، ایس ایچ او سٹی اور ایس ایچ او صدر کو ملازمت سے معطل کر دیاہے۔
میاں شہباز شریف نے پنجاب بھر کے پولیس افسران کو حکم دیا ہے کہ ممنوعہ ڈور اور آلات سے پتنگ بازی کرنے والے افراد کو گرفتار کر کے ان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے اور اگر کہیں کوئی جانی و مالی نقصان ہوا تو اس کی پوری ذمہ داری متعلقہ پولیس افسر پر ہوگی ۔
اس حکم اور سرزنش کے بعد پنجاب پولیس میں کافی فعالیت دیکھنے میں آرہی ہے اور ممنوعہ ڈور سے پتنگ اڑانے والوں اور ہلہ گلہ کر کے پر امن شہریوں کی زندگی اجیرن بنانے والوں کے خلاف کارروائیاں بھی تیز ہوئی ہیں ،لیکن ایک افسوس ناک چیز یہ بھی سامنے آرہی ہے کہ پولیس کی بڑی اکثریت نے ان کارروائیوں کی آڑ میں مال پانی بنانے کا دھندہ بھی شروع کر دیا ہے ۔۔۔ یعنی جو پتنگ باز یا پتنگ بازی کا ممنوعہ سامان بنانے او ربیچنے والا گرفتار ہوتا ہے ، اس سے رشوت طلب کی جاتی ہے ۔
جو مٹھی گرم کر دیتا ہے، اسے فوراً چھوڑ دیا جا تا ہے او رجس کے پاس رشوت دینے کی رقم نہیں ہوتی، اسے لاک اپ میں بند کر کے مقدمہ درج کر لیا جا تا ہے۔ پولیس کا یہ طرز عمل بھی قابل گرفت ہے۔
بیس سال قبل تک پتنگ بازی کے لئے جو ڈور استعمال ہوتی تھی وہ سادہ اور عام قسم کی ہوتی تھی،جس سے پتنگ کٹنے پر اگر یہ ڈور کسی آدمی کے گلے پر رگڑ بھی کھا جاتی تھی تو محض معمولی سی خراش پڑتی تھی، جبکہ جانی نقصان نہ ہونے کے برابر تھا ،لیکن اب اس کھیل کو خونی کھیل بنانے میں بنیادی کردار اس ڈور کا ہے، جسے عرف عام میں ’’قاتل ڈور‘‘کہا جاتا ہے۔
ایک طریقہ یہ رواج پا چکا ہے کہ دھاتی تارکا چند گز کا ٹکڑاایک طرف پتنگ کی تناؤں کے ساتھ باندھ کردوسری طرف ڈور کے ساتھ گانٹھ دیا جا تا ہے ۔
یہ چند گز دھات کا ٹکڑا لگانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس سے ایک تو مد مقابل پتنگ کو آسانی سے کاٹا جا سکتا ہے اور دوسرا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اس دھاتی تار سے کٹی ہوئی پتنگ کو اپنی پتنگ کے ساتھ چمٹانا آسان ہو جا تاہے۔
یہی چند گز دھاتی ٹکڑے والی ڈور جب کسی بجلی کی لائن پر گر تی ہے تو شارٹ سرکٹ ہوتا ہے اور علاقے کی بجلی بند ہوجاتی ہے۔ اسی طرح آج کل ڈور کو شیشے کا مانجھا لگا کر تیار کیا جاتا ہے جو اس طرح خطرناک اور جان لیوا ہو جاتی ہے کہ جب پتنگ بلند ہوتی ہے تو اس میں ہوا بھرنے سے اس پتنگ کا وزن اور طاقت کئی گنا بڑھ جاتی ہے، پھر جب یہ کٹتی ہے تو اسی طاقت کے ساتھ اس کی شیشے کا مانجھا لگی ہوئی ڈور کسی کی گردن پر پھر جائے تو اسے کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔
ایک اور طریقہ ،جس سے ڈور قتل کا آلہ بن گئی ہے، وہ یہ کہ پہلے جو ڈور بنتی تھی، اس میں صرف کاٹن کا دھاگہ استعمال ہوتا تھا جو آسانی سے ٹوٹ جاتا تھا،لیکن اب ڈور سازوں نے کاٹن کے ساتھ نائلون اور پولیسٹر ملے ہوئے دھاگے سے ڈور بنانا شروع کر دی ہے، جسے توڑنے کے لئے سخت جان لگانا پڑتی ہے۔ اس طرح کی مضبوط ڈوربنانے کا مقصد یہی تھا کہ پتنگ بوکاٹا نہ ہو۔
دوسری طرف اس کا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ اس کی زد سے کوئی راہ گیر ، سائیکل والا یا موٹر سائیکل والا محفوظ نہیں رہا۔اس سے بھی خطرناک ڈور اب مارکیٹ میں کھلے عام دستیاب ہے ،جس کی پالش ایلفی اور دیگر خطرناک کیمیکلز سے کی جاتی ہے۔
اس پالش سے ڈور کی دھار نہایت تیز ہو جاتی ہے اور مد مقابل کی پتنگ زیادہ دیر اس دھار کے سامنے ٹھہر نہیں پاتی ،لیکن یہی ڈور جب کسی راہ چلتے انسان کی گردن سے ٹکراتی ہے تو کسی تیز دھار چاقو سے بھی شدید ثابت ہوتی ہے اور نشانہ بننے والے کی گردن سے خون کے فوارے پھوٹ پڑتے ہیں اور چند ہی لمحوں میں اس کی دنیا اندھیرہوجاتی ہے۔
پتنگ بازی سے نقصان کی ایک وجہ یہ بھی بن رہی ہے کہ اب جہازی سائز کی بڑی بڑی پتنگیں آسمان پر اڑتی دکھائی دیتی ہیں ۔ان بڑی پتنگوں پر ہوا کا پریشر اور ان کی طاقت بہت زیادہ ہوتی ہے اور جب یہ بڑے سائز کی پتنگ کٹتی ہے تو اسی اضافی طاقت اور پریشر کے ساتھ زمین پر آتی ہے، جہاں اس پتنگ کی طاقت کی وجہ سے اس کی ڈور بھی زیادہ تیز ی سے نشانہ بننے والے کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔۔۔پتنگ بازی کی تباہ کاریوں کو روکنے کے لئے اگر مندرجہ ذیل چندتجاویز پر عمل کر لیا جائے تو کافی حد تک نقصانات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
سب سے بنیادی تجویز یہ ہے کہ پتنگ بازوں پر سارا زور صرف کرنے کی بجائے پتنگ اور قاتل ڈور بنانے اور فروخت کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے۔
ظاہر ہے جب یہ سامان کہیں سے دستیاب ہی نہیں ہو گا تو پتنگ بازی پر بھی قابو پالیا جائے گا۔اس ضمن میں پولیس کی کارروائیاں نہ ہونے کے برابر ہیں ۔
ایسے بہت سے واقعات بھی رپورٹ ہو چکے ہیں کہ پولیس بھاری رشوت لے کر خطرناک ڈور اور آتش بازی کا سامان بنانے اور فروخت کرنے والوں کی ڈھال بن جاتی ہے۔اس طرز عمل کا سد باب ہونا چاہئے۔
ایک تجویز یہ ہے کہ پتنگ کے ساتھ چند گز کا دھاتی ٹکڑا لگانے، نائلون اور پولیسٹر سے ڈور کا دھاگہ بنانے اور ایلفی و دیگر کیمیکلز سے ڈور کو پالش کرنے والوں پر اقدام قتل کی دفعات کے تحت مقدمات درج کئے جائیں اور اسے ناقابل ضمانت جرم قرار دیا جائے۔
یہ تجویز بھی حادثات کی روک تھام میں مؤثر ہو سکتی ہے کہ ایک خاص حد سے زیادہ بڑے سائز کی پتنگ بنانے، بیچنے اور اڑانے پر بھی پابندی عائد کی جائے ، کیونکہ بڑے سائز کی پتنگ زیادہ ہوا کے دباؤ اور طاقت کا شکار ہو تی ہے اور کٹ جانے کی صورت میں اس کی عام ڈور بھی انسانی جان کو شدید نقصان پہنچانے کا باعث بن جاتی ہے۔
ایک تجویز یہ بھی ہے کہ حکومت پتنگ بازی کے لئے شہری آبادیوں سے دو رجگہیں مختص کرے ،جس سے نہ صرف پتنگ کٹنے کی صورت میں کسی انسانی جان کے ضیاع اور بجلی کی تعطلی جیسے واقعات کا امکان ختم ہوجائے گا ،بلکہ گلی محلوں کے اندر بسنت کے نام پر ہونے والے بے ہودہ اور لچر فنکشنوں، آتش بازی، ہنگامہ خیزی ، تیز میوزک اور اس ضمن میں ہونے والے لڑائی جھگڑوں سے بھی شہریوں کی جان چھوٹ جائے گی ۔
سب سے اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ عوام کا یہ اجتماعی رویہ بن چکا ہے کہ اپنی انفرادی ذمہ داریوں سے مجرمانہ غفلت برتتے ہیں اور جب کوئی نقصان ہو جا تا ہے تو اس کا سارا ملبہ حکومت پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی رویہ پتنگ بازی کے ضمن میں بھی ہمارے سامنے ہے۔
یہ طے ہے کہ والدین کی اجازت اور رقم کی ادائیگی کے بغیر 80 فیصد بچے پتنگ بازی اور غیر اخلاقی حرکات نہیں کر سکتے۔ تو پھر والدین کو بھی اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرنا ہوگی اور اپنی اولاد کو اس خونی کھیل سے دور رکھنا ہوگا ، ورنہ آپ کے بچے کی موج مستی سے آج اگرکسی اور کا گھر ویران ہوگا تو کل یہ بربادی خود آپ کے گھر کی دہلیز بھی ضرور پار کرے گی۔۔۔ پس کوئی ہے جو ان باتوں پر غور کرے ؟