افغانستان میں روزگار کیلئے گئے پاکستانیوں کی گرفتاری پر ورثاءکا احتجاج
پشاور(اے این این ) افغانستان میں گرفتار 24 پاکستانیوں کے اہلخانہ نے الزام عائد کیا ہے کہ افغان حکومت ان کی رہائی کے لیے سنجیدہ نہیں جبکہ سپریم کورٹ آف افغانستان نے حراست میں رکھے لوگوں کی رہائی کے لیے واضح احکامات جاری کیے ہیں۔ پشاور پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کے راشتے داروں کی رہائی کا معاملہ افغانستان کے صدر کے ساتھ مل کر اٹھائیں۔
یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
خیبرپی کے کے مختلف اضلاع سے جمع لوگوں نے بتایا کہ ان کے رشتے دار افغانستان میں زورگار کی تلاش میں گئے لیکن افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں نے انہیں مشتبہ جاسوس اور طالبان قرار دے کر حراست میں رکھا ہوا ہے۔ چارسدہ کے علاقے شبقدر کے رہائشی اکبر علی نے بتایا کہ ان کا بیٹا چارٹرڈ اکاﺅنٹنٹ ہے جو افغان حکومت میں بطور ٹیکس مشیر تعینات تھا لیکن اسے 2013 میں گرفتار کیا گیا اور تاحال وہ ان کی حراست میں ہے۔ اکبر علی نے افغان سپریم کورٹ کا تحریری حکم نامہ بھی دکھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت کی جانب سے 2 سال جیل میں سزا کاٹنے کے بعد ان کے بیٹے اور دیگر قیدیوں کو نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔
صوابی کے خیر الرحمن نے بتایا کہ ان کا بھتیجا سیکندر رشید چند برس پہلے روز گار کے لیے افغانستان گیا اور جہاں اسے بغیر وجو گرفتار کرکے پور چرکی جیل میں رکھا گیا اور بعدازاں نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا اور اب اس سے ملاقات کی بھی اجازت نہیں ہے۔ خیرالرحمن کے مطابق زیر حراست بیشتر پاکستانیوں کا تعلق مردان، صوابی ، چارسدہ اورپشاور سے ہے جو افغانستان روزگار کی تلاش میں گئے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے گزشتہ 4 دہائیوں میں افغان شہریوں کو شیلٹر فراہم کیا اور پاکستانی ان کو بھائی اور بہن کا درجہ دیتے ہیں لیکن افغانستان کی جانب پاکستانیوں کے لیے ہمدردانہ جذبات کا اظہار نہیں ہے۔
پاکستان کونسل آف ورلڈ ریلیجن کے ترجمان مقصود احمد سلفی نے افغانستان میں پاکستانیوں کی گرفتاری پر افسوس کا اظہار کیا اور افغان حکومت سے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر رہائی کا مطالبہ کیا۔