وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 10ویں قسط

وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 10ویں قسط
وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 10ویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آگ میں ابھرنے والے چہرے جیسے آگ ہی کاحصہ تھے۔ ان کے نقوش بھڑکتی آگ کے ساتھ بڑھتے اور سکڑتے۔ خیام، وشاء ، فواد اور حوریہ بخوبی جانتے تھے کہ اب انہیں کیا کرنا ہے۔
وشاء نے شیشے کاجار اپنے ہاتھ پر رکھا جس میں ایک خوبصورت تتلی کا Stuffedتھا۔ وہ بلند آواز میں بولی۔’’تتلی کے روپ میں ایک خوبصورت بلا۔‘‘
حوریہ بلند آواز میں بولی’’ایک خوبصورت ایسی آواز جو اس قدر دلفریب ہو کر لوگ اس کے پیچھے دوڑتے دوڑتے موت کی آغوش میں چلے جائیں۔‘‘
فواد نے سگریٹ کا کش لیا اور اس کا دھواں فضا میں اڑایا۔‘‘ اس کا روپ لے کر اس ہوا میں بکھر جاؤں، کسی بھی وقت کوئی بھی روپ لے سکوں۔‘‘
خیام بھی بلند آواز میں بولا’’پراسرار قوتوں کی حامل بس ایک روشنی کی شعاع جو کسی بھی وقت کہیں بھی نمودار ہو سکے کوئی بھی روپ لے سکے۔‘‘

وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ نویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
خیام کی بات ختم ہوتے ہی جیسے بھیانک شیاطین و جنات آگ سے باہر آگئے۔ ان چاروں کی چیخ و پکار فضامیں گونجتی رہی پھر ایک بھونچال میں ان کی آوازیں بھی کھو گئیں اور ان کے وجود بھی غائب ہوگئے۔
بھونچال ختم ہونے کے بعد نہ وہاں آگ تھی نہ لکڑیاں اس طرح کی کوئی نشانی نہیں تھی جس سے پتہ چلے کہ کیا ہوا تھا مگر چند ساعتوں کے بعد ایک خوبصورت تتلی اڑتی ہوئی نظر آئی جو کیاری میں لگے پودوں میں چھپ گئی۔
ایک خوبصورت آواز فضا میں گونجنے لگی جس کے ساتھ ہی روشنی کی ایک شعاع اور سیاہ دھواں آسمان کی طرف بڑھتا ہوا دکھائی دیا جو دیو ہیکل پہاڑوں کی طرف بڑھتا ہوا غائب ہوگیا۔ جس کے ساتھ ہی نسوانی آواز بھی ختم ہوگئی۔
اس گمبھیر سناٹے میں دلخراش قہقہہ سنائی دیا ۔بدہیت بوڑھا آدمی قہقہے لگاتا ہوا درخت کے پیچھے سے چوپائیوں کی طرف چلتا ہوا سامنے آگیا۔ وہ بمشکل سیدھا کھڑا ہوا۔ اس نے اپنے ہاتھوں کو پیچھے باندھا اور وہ بدہیت بوڑھا آدمی وجیہہ نوجوان میں بدل گیا۔
اس نوجوان نے فاتحانہ انداز میں اپنے بازو پھیلا لیے۔’’طلسمانی دنیا کا ساحر زرغام، شیاطین وجنات پر راج کرنے والا آج اور طاقتور ہوگیا۔ خیام، وشاء ، فواد اور حوریہ پراسرار روپ لے کر تم کیا کرنا چاہتے تھے مجھے اس سے غرض نہیں مگر میں تم سے کیا کراؤں گا یہ میں بخوبی جانتا ہوں۔‘‘
اس نے ایک بار پھر قہقہہ بلند کیا’’تم لوگ مجھے آسیب سمجھ بیٹھے جبکہ میں انسان کا ہی روپ ہوں۔‘‘
زرغام اندر ریسٹ ہاؤس میں چلا گیا۔
***
پروفیسر حسنان نے اریبہ کو تو واپس بھیج دیا تھا مگر وہ خود اور ان چاروں کے والد نے ایک خاص ٹیم کی مدد سے ان چاروں اسٹوڈنٹس کو ڈھونڈنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
بہت دونوں کی تگ و دو کے بعد وہ سب واپس اپنے شہروں کو لوٹ گئے۔ اس مایوسی کے بعد ان چاروں کے گھر ماتم کدہ بن گئے۔
چھ ماہ گزر گئے مگر خیام، وشاء فواد اور حوریہ کا کہیں کوئی پتہ نہ چلا سکا۔ ان کے والدین نے ملک کا چپہ چپہ چھان مارا مگر کوئی ایسی نشانی تک نہ ملی جس سے ان کا کوئی سراغ مل سکے یہ سانحہ ان چاروں کے والدین کے لیے ایک روگ بن کے رہ گیا۔
***
ٹی وی چینل پر وشاء کی تصویر کے ساتھMissingکا اشتہار دیکھ کر اس کے والد ظفرکی آنکھیں بھر آئیں۔ اس کی سوتیلی ماں نے بیزاری سے سرکو جھٹکا دیا۔ وہ دھیرے دھیرے اس صوفے کے قریب بڑھ رہی تھی جہاں ظفر بیٹھا تھا۔وہ من ہی من میں بڑبڑائی’’یہ لڑکی جب اس گھر میں تو بھی آفت تھی اور اب گمشدہ ہو کے عذاب بن گئی ہے نہ جانے زندہ ہے یا مر گئی ہے۔‘‘
وہ جھوٹے ٹسوے بہاتی ہوئی ظفر کے قریب بیٹھ گئی۔’’نہ جانے وشاء کس حال میں ہوگی۔ آخر کیا ضرورت تھی اسے ایسے نکمے دوست بنانے کی۔‘‘
وشاء کی گمشدگی کے بعد ہی ظفر ماریہ سے اکھڑا اکھڑا سا رہتا تھا۔ اس نے طنزیہ نظروں سے ماریہ کی طرف دیکھا۔’’وشاء کے گمشدہ ہونے میں تمہارے رویے کا بہت دخل ہے تم نے اسے کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ تم کیسی ماں ہو جو اپنی بیٹی کے ذہن میں پیدا ہونے والی منفی سوچوں کو نہ پڑھ سکیں۔ میں تو کاروبار کے سلسلے میں ملک سے باہر ہوتا تھا مگر تم اس قدر بے خبر رہی کہ وشاء نے ڈرگز لینا شروع کر دیا اور تمہیں خبر نہ ہوئی۔ میں نے تم سے اس لیے شادی کی تھی کہ وشاء کو ماں کی ضرورت تھی۔‘‘
ماریہ غصے سے کھڑی ہوگئی۔’’آپ یہ بھول رہے ہیں کہ جب میں اس گھر میں آئی تو وشاء عمر کے اس حصے میں تھی جب ایک بچی کی شخصیت بن جاتی ہے۔ اس کی خامیوں اور خوبیوں میں اس کی اپنی ماں کا ہاتھ تھا۔‘‘
’’مگر تمہارے آنے کے بعد اس کی شخصیت میں جو بولاؤ میں نے دیکھا تھاوہ غیر معمولی تھا۔‘‘ 
’’تو پھر اس وقت اپنی بیٹی کو کیوں نہیں سنبھالا اب کیوں تاؤ کھا رہے ہو۔‘‘
’’تم اس وقت میری نظروں سے دور ہو جاؤ۔‘‘ ظفر نے ماریہ سے کہا اور پھر اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
اس نے ٹی وی بند کیا اور اپنے کمرے کی طرف گیا۔ اس نے الماری سے ایک بیگ نکالا جس میں اس نے وہ ساری خاص خاس چیزیں رکھی تھیں جو اسے وشاء کی الماری سے ملی تھیں اس نے وہ بیگ بیڈ پر رکھا اور پھر سے وہ ساری چیزیں دیکھنے لگا۔ وہ تمام چیزیں کسی کی بربادی کی داستان سنا رہی تھیں۔ وہ اس کی چیزوں کو چھو کر بیٹی کی قربت کو محسوس کرنے لگا۔
’’ماریہ کو میں باتیں سنا آیا ہوں مگر اپنے آپ کو کیسے سزا دوں۔ کیوں نہ میں نے اپنی بیٹی کو وقت دیا۔۔۔پردیس میں رہ کر جس کے لیے دولت جمع کرتا رہا۔۔۔آج وہی میرے پاس نہیں رہی۔ میں اس کی محرومی کو نہ سمجھ سکا۔ اس کی ترجیحات نہ جان سکا۔ وہ میرے ساتھ کے لیے ترستی رہی اور جب اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو خود وہ مجھ سے دور ہو گئی۔‘‘
***
حوریہ کی والدہ رخسانہ بیٹی کے غم میں سخت بیمار تھی اس کا بلڈ پریشر خطرناک حد تک کم ہوگیا تھا۔ وہ ایک گھریلو عورت تھی۔ حوریہ کے والد توقیر کی شوگر مل تھی، زمینیں بھی تھیں۔ جہاں انہوں نے مختلف قسم کی فصلیں اگائی ہوئی تھیں۔ زمینداری کے کام کے لیے ڈیروں پر کسانوں کو رہائش بھی دی ہوئی تھی۔
حوریہ ہی ان کی واحد اولاد تھی۔ وہ لے پالک تھی، رخسانہ اور توقیر نے اسے بہت پیار دیا۔ اس کے لیے وہ سب کچھ کیا جو انسان اپنی سگی اولاد کے لیے کرتا ہے مگر اسے کہیں سے علم ہوگیا کہ وہ لے پالک ہے اس وقت وہ نہم جماعت کی طالبہ تھی اپنی ذات کی تلاش کی کھوج نے اسے بے راہ کر دیا۔ فواد کا تعلق بھی امیر باعزت گھرانے سے تھا۔ فواد کے والد شاہ انڈسٹریز کے مالک وقار احمد جن کے پاس سب کچھ تھا سوائے وقت کے۔
فواد کی والدہ ایمن جو ایک ویمن این جی او کی جنرل سیکرٹری تھی۔ عورتوں کی فلاح و بہبود کا بیڑا اٹھانے والی خاتون جو کبھی اپنے گھر کو گھر نہ بنا سکی میاں بیوی کے تعلقات سے لے کر اولاد کے جذبات تک سب کچھ پیسہ اور شہرت کے نشے میں پامال ہورہے تھے۔(جاری ہے )

وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 11ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں