عالمی یومِ شاعری
اقوامِ متحدہ نے 1999ء میں 21مارچ کو شاعری کا عالمی دن قرار دیا۔ ہم نے پاکستان میں 23مارچ 2019ء کو دیئے جانے والے قومی اعزازات میں ایک بھی شاعر کا نام شامل نہیں کیا۔ عام لوگوں کو، جن میں وہ خواص بھی شامل میں جو تعلیمی اداروں ، سیاست یا صحافت سے منسلک ہیں،جو شاعری کو صرف ڈائجسٹ، ایس ایم ایس اور سوشل میڈیا کے توسط سے پڑھتے ہیں، بہت سہولت سے یہ کہتے سنا کہ آخر اچھی شاعری ہو ہی کب رہی ہے، یا اچھا ادب پاکستان میں لکھا ہی نہیں جا رہا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پہلے بہت اچھا ادب تخلیق ہوتا تھا اور اب ایسا نہیں ہے۔
ایسا کہنے والے بیشتر لوگوں نے اس ادب کو بھی نہیں پڑھا جسے وہ غائبانہ اچھا کہہ رہے ہیں۔افسوس تو اس وقت ہوتا ہے جب شعر و ادب سے دور اور کتاب سے کنارہ کش لوگ ایسے بیانات دیتے ہیں اور خود کو مطالعے سے بری الذمہ سمجھتے ہوئے دل کی تسلی کی خاطر یہ مفروضہ گھڑ لیتے ہیں کہ اچھا ادب تخلیق ہی نہیں ہو رہا۔
گزشتہ دِنوں میری ایک دوست ،جو کینیڈ ا میں مقیم ہے،پاکستان آئی تو اس نے بطور خاص مجھ سے پوچھا کہ کون کون سی کتابیں خریدوں۔وہ صحافی ہے، لیکن ادب اور خاص طور پر اردو ادب سے اسے خاص شغف ہے۔مجھے مسرت بھی ہوئی اور اس کی رہنمائی بھی کی۔اس سلسلے میں جب کتابیں سوچنے لگی تو یقین کریں اتنی کتب ذہن میں آئیں اور اس نے خریدیں کہ اس کے سامان میں اچھے خاصے وزن کا اضافہ ہو گیا۔
آج شاعری کا دن ہے اور ایسابالکل نہیں کہ اردومیں اچھی شاعری نہیں ہو رہی ، اگر غزل کو ہی دیکھا جائے تو یہ ہر دہائی میں ایک نئی کروٹ لیتی ہے اور اسے نئے اسلوب اور نئے مضامین نکالنے والے کئی عمدہ شعرا میسر آتے ہیں۔اس صدی کی اولیں دہائی میں بھی ایسے شاعروں کی ایک طویل فہرست ہے،جنہوں نے اس گلشن سخن کی آبیاری کی اور یہ سلسلہ دوسری دہائی میں بھی جاری ہے۔
اگلے روز ایک انٹرویو میں مجھ سے یہ پوچھا گیا کہ شاعری اور ادب ہمیشہ مشکل ادوار میں تخلیق ہوتے ہیں، ہم بھی ایک مشکل دور سے گزر رہے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ اب اس طرح کا ادب اور شاعری سامنے نہیں آ رہے ۔مَیں پہلے تو اس سوال پر حیران ہوئی اور گزارش کی کہ یہ ایک طرح کی غلط فہمی پر مبنی رائے ہے۔ہر دور کسی نہ کسی طرح سے مشکل بھی ہوتا ہے اور کچھ لوگوں کے لئے آسان بھی۔
یہ تو آپ کے مزاج اور طبیعت کی حساسیت پر منحصر ہے کہ آپ چیزوں کو کیسے دیکھتے ہیں، اور آپ جس زاویئے سے زندگی کو دیکھ رہے ہیں کیا وہ خوبصورت ہے یا اس میں چھپے ہوئے بدنما داغ بھی آپ کو دکھائی دے رہے اور آپ کے احساس کو جھنجوڑ رہے ہیں یا نہیں۔
ہمارے خطے نے برصغیر کی تقسیم کا دُکھ دیکھا اور اس میں ہونے والے نقصانات اور انسانوں پر گزرنے والی قیامت کویہاں کے شاعروں ادیبوں نے اپنے اپنے انداز میں شعر و ادب میں سمویا۔منٹو کے افسانے ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ ، عبداللہ حسین کے ناول’’ اُداس نسلیں‘‘، قراۃ العین کے ناول ’آگ کا دریا اور خدیجہ مستور کے ’’آنگن‘‘ سے لے کر آج کے افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں کے ہاں اس نوع کی کئی تخلیقات موجود ہیں،بلکہ یوں کہیں کہ ہجرت کا دُکھ جنہوں نے نہیں بھی جھیلا، ان کے لئے بھی ادبی روایت سے ملنے والا ہجرت کا احساس ان کے تخلیقی عمل کا حصہ بن گیا۔میں اپنے ذاتی تجربے کے حوالے سے دیکھوں تو دُکھ اور کرب کا لمحہ گزر جانے کے بعد ہی اس قابل ہوتی ہوں کہ اسے بیان کر سکوں، دُکھ کا لمحہ تو کرب کو جھیلنے اور اس کے حصار میں تلملانے کا وقت ہوتا ہے۔
ایک المیہ یہ بھی ہے کہ آج کل شاعری کی کتابیں، جس تھوک کے حساب سے شائع ہو رہی ہیں، پہلے ایسا نہیں تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلے ادوار میں بھی فضول شاعری کافی مقدارمیں شائع ہوتی تھی، لیکن اس قدر نہ تھی اورپھر سوشل میڈیا کی یلغارنے یہ کام آسان کر دیا۔
اب ہر کوئی خود ہی اپنے کام کا مدیر ہے، وہ چاہے کسی سماجی موضوع پر لکھی جانے والی کوئی تحریر ہو ، ادب ہو یا شاعری ہو ، ان کے نام پرہر کوئی اپنی یاوہ گوئی کو بلا سوچے سمجھے بیان کر سکتا ہے اور اسے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔
چند ایک کو چھوڑ کر نہ کوئی ادبی پرچے اس معیار کے رہے ہیں کہ جہاں ادب شناس اور فرض شناس مدیرانِ کرام موجود ہوں جو اچھے بُرے میں تفریق کر سکیں اور کاٹ چھانٹ کر سکیں یا نئے لکھنے والوں کی رہنمائی کر سکیں۔اس کے باوجود جو اتنا اچھا کام ہو رہا ہے، اس کی داد دینی بنتی ہے اور ان ادیبوں شاعروں کی سرپرستی بھی ضروری ہے،لیکن حکومت تو ادبی و علمی اداروں کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑ چکی ہے۔
کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے دیکھا جائے تو پوری دُنیا میں کوئی کتاب کسی مدیر کے مشورے کے بغیر نہیں شائع ہوتی۔ دُنیا بھر کے بڑے بڑے پبلشرزکے پاس مشاق ایڈیٹرز ہوتے ہیں اور ہر کتاب کا مسودہ شائع ہونے سے پہلے ان کے پاس منظوری اور مشاورت کے لئے جاتا ہے۔ وہ جسے مسترد کردیں ، ناشر وہ کتاب کبھی شائع نہیں کر تا۔ہمارے ہاں تو خیر یہ روایت کبھی رہی ہی نہیں اور یہاں کے بیشترپبلشر پبلشرنہیں پرنٹر ہیں، جو کچھ بھی شائع کر سکتے ہیں۔
ایسے میں مصنف کے لئے رائیلٹی کا تصور بھی محال ہے۔جب پیسے دے کر چھپوانے والے موجود ہیں تو کسی اچھے شاعر کو کتاب کی رائیلٹی دینا تو دور کی بات ہے ، اسے صرف مفت چھاپنا بھی کیوں ضروری ہے۔اگر اب بھی چند ایک معروف اور سینئر شعرا کی کتابیں دھڑا دھڑ بُک سکتی ہیں تو پھر تازہ اور اچھی شاعری کوخریدنے والے بھی تو موجود ہوں گے۔
مسئلہ ایک عام قاری کے لئے انتخاب کا ہے۔ اسے معلوم ہی نہیں کہ اچھی شاعری کون سی ہے اور بری کون سی۔اس کے سامنے ایک ڈھیر ہے اور اسے اس ڈٖھیر میں سے منتخب کرنے کے لے وقت بھی نہیں۔
ایسے میں وہ کیوں نہ مستند اور پرانے شاعروں کی شاعری کی کتابیں خریدے اور ان سے حظ اٹھائے۔حظ سے یاد آیا اب تو حظ کو بڑے بڑے چینلوں پر حِظ پڑھا جا رہا ہے۔حیرت ہے وہاں ایک بھی ایسا لفظ شناس نہیں جو اس کی درستی کر واسکے۔
مغرب میں ایک عام سے لکھاری کی کتاب ہزاروں کی تعدا د میں فروخت ہوتی ہے۔وہاں کے بیشتر ادیب کل وقتی ادیب ہوتے ہیں۔انہیں کسی اور کام کی ضرورت نہیں پڑتی۔جب آپ روزی روٹی کے چکر سے نکل ہی نہیں پار رہے اور اس پر مستزاد ہزار طرح کی جکڑ بندیا ں اور زباں بندی کے نت نئے طریقے اور حربے اظہار رائے کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ایسی صورتِ حال میں کوئی ادیب کس طرح اپنی بات کا مکمل اور واضح اظہار کر سکتا ہے۔۔۔شاعری کا عالمی دن تمام شاعروں کو مبارک ہو۔اس موقع پر اپنی ایک غزل نذرِ قارئین:
بام سے ڈھل چکا ہے آدھا دن
کس سے ملنے چلا ہے آدھا دن
تم جو چاہو تو رُک بھی سکتا ہے
ورنہ کس سے رکا ہے آدھا دن
اس نے دیکھا جہاں پلٹ کے مجھے
بس وہیں رُک گیا ہے آدھا دن
پڑ رہی ہو گی برف وادی میں
آنکھ میں جم گیا ہے آدھا دن
تیرگی کا لباس اوڑھے ہوئے
میرے اندر چھپا ہے آدھا دن
عنبرین ایک ہے، بکھیڑے سو
اور گزر بھی گیا ہے آدھا دن