جمہوریت۔۔۔ جمہوری رویے اور تانگے کی سواری؟
جمہوری نظام میں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کو گاڑی کے دو پہیوں سے مماثل قرار دیا جاتا ہے، دونوں پہیے ساتھ ساتھ چلیں تو نظام چلتا ہے، ورنہ رکاوٹ آ جاتی ہے،ہمارے ملک میں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے درمیان دو پہیوں والی ضرب المثل پر کبھی دھیان نہیں دیا گیا۔یہاں تو حزبِ اقتدار کا کام دبانا اور حزبِ اختلاف کا کام زچ کرنا ہوتا ہے،ان مقاصد کے حصول کے لئے جو کچھ کیا جاتا ہے،اس کا نظارہ پاکستان میں خوب کیا جا سکتا ہے کہ یہاں گاڑی کے پہیے تو کجا سائیکل کے دو پہیے چلنا مشکل ہو جاتا ہے،ذرا غور فرمائیں تو آج کی حزبِ اقتدار گئے دور کی حزبِ اختلاف ہوتی ہے اور سیاسی جماعتیں بنتی اور پھر انتخابات میں حصہ اِسی لئے لیتی ہیں کہ اقتدار حاصل کر کے اپنے جماعتی منشور پر عمل درآمد کرائیں (کہا تو ہمیشہ یہی جاتا ہے) تاہم رویوں میں تضاد یہ بھی نہیں کرنے دیتا۔
پاکستان میں آمریت کے ادوار کو پسِ پشت بھی ڈال دیا جائے تو باقی جمہوری ادوار بھی کوئی اچھی مثال پیش نہیں کرتے کہ ہمارے یہاں آج کی حزبِ اقتدار گزشتہ کی حزبِ اختلاف ہو تو ہر دو ادوار میں رویے تبدیل ہوتے ہیں،اور اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ حزبِ اختلاف برسر اقتدار آ جائے اور اسے زمامِ حکومت سنبھالنا پڑے تو دیر تک سمجھ نہیں آتی اور جب آ جائے تو پھر جاتی نہیں،اکثر حزبِ اختلاف والے حزبِ اقتدار بن کر بھی احتجاجی ٹرک سے نہیں اُترتے اور ان کے تمام عمل اِسی کے مطابق ہوتے ہیں، موجودہ حالات میں بھی کچھ ایسا ہی منظر ہے کہ22سالہ جدوجہد والی جماعت کے لئے اب راوی چین ہی لکھتا ہے اِسی لئے اسے کسی تعاون کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی۔محاذ آرائی جاری ہے اور رویے ابھی تک کنٹینر والے ہیں۔
آج کل جو عجیب بات محسوس ہو رہی ہے وہ یہ کہ حزبِ اختلاف کی ضرورت پڑ سکتی ہے،لیکن معروضی حالات میں سخت کشیدگی پائی جاتی ہے، وزیراعظم عمران خان نے تو شاید قسم کھالی ہے کہ وہ حزبِ اختلاف کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آنا تو کجا،براہِ راست بات ہی نہیں کریں گے، اس مسئلے میں وہ شاید کسی کی مانتے بھی نہیں ہیں۔
ملک میں ایک طرف احتساب کا سلسلہ جاری ہے، جو معتدبہ طور پر مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کا ہو رہا ہے۔باقی اگر کوئی ہے تو یہ خانہ پُری ہو گی،گزشتہ روز سابق صدر آصف علی زرداری اپنے صاحبزادے کے ساتھ نیب راولپنڈی میں پیش ہوئے اور تفتیش میں باقاعدہ شامل ہوئے جو منی لانڈرنگ کے حوالے سے جعلی بنک اکاؤنٹس کی ہو رہی ہے، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) والے اپنے مرکزی رہنماؤں کی وجہ سے پریشان ہیں،چنانچہ جب بھی تاریخ سماعت ہو، وہ وہاں کارکنوں کی موجودگی سے حوصلہ پاتے ہیں، اِسی لئے کارکنوں کو تاریخ سماعت پر بلایا بھی جاتا ہے،جیسا کہ اب ہو رہا ہے،لیکن گزشتہ روز جو کچھ ہوا، وہ کوئی نیک شگون نہیں ہے، بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لئے کارکنوں کو بلایا گیا تھا اور نیب والوں نے انتظامیہ کے تعاون سے حفاظتی انتظامات کئے تھے۔
یوں ایک فضا موجود تھی اور اس کی بہتری کی ذمہ داری حزبِ اقتدار اور انتظامیہ کی تھی۔ تاہم حکومت یا حکمرانوں کا رویہ وزیر اطلاعات فواد چودھری کے ٹویٹ سے ظاہر تھا،جنہوں نے لکھا، پورے ملک سے پیپلزپارٹی تانگے میں لد کر پہنچے گی اور ایک تانگے میں آ جائے گی۔
ہم کسی کی حمایت یا مخالفت کئے بغیر کہنا چاہیں گے کہ ملک میں ساٹھ کی دہائی سے اب تک کی تمام تحاریک کے ہم خود گواہ ہیں کہ کوریج بھی کی ہوئی ہے، کوئی بھی سیاسی تحریک کبھی ہزاروں سے شروع نہیں ہوتی،بات سینکڑوں سے بنتی ہے اور اگر اسے خوبصورتی سے نہ سنبھالا جائے اور گزشتہ روز کی طرح گرفتاریوں اور ڈنڈوں سے ابتدا ہی میں ختم کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ غلطی ہوتی ہے کہ چھوٹا چھوٹا مظاہرہ، تشدد اور گرفتاریوں سے بڑھتا اور پھیلتا چلا جاتا ہے اور باپ بیٹے کو بیک وقت طلب کر لینے سے یہ خدشہ موجود رہے گا کہ کوئی تحریک شروع ہو سکتی ہے؟ اور اگر ایسا ہوا تو پھر یہ سلسلہ دراز بھی ہو سکتا ہے اور یہ سب ملک کے موجودہ حالات میں قطعاً درست نہیں ہے۔
بہتر عمل افہام و تفہیم ہے، مقدمات اور احتساب اپنی جگہ یہ عام انداز میں چلتے رہنا چاہئیں، تاہم ریاستی امور میں گاڑی کو دونوں پہیوں ہی سے چلنا چاہیے۔ یوں بھی حکومت پارلیمینٹ کو جواب دہ ہوتی ہے، اِس لئے درخواست یہی ہے کہ حالات کو امن کی خرابی کی طرف نہ جانے دیں اور یہ درخواست سب سے ہی کرنا ہو گی کہ دور کسی تحریک کا بھی نہیں۔
جہاں تک تانگے کی سواریوں کا تعلق ہے تو یہ طنزیہ جملہ امروز(مرحوم) کے مرحوم ایڈیٹر ظہیر بابر کے قلم سے نکلا تھا اور بابائے جمہوریت و اتحاد نوابزادہ نصر اللہ کی جماعت پی ڈی پی کے لئے لکھا گیا تھا،لیکن یہ تانگہ پارٹی اور نوابزادہ نصر اللہ خان ہیں،جن کے سر پر پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کا سہرا ہے اور اس سے بھی قبل ایوب آمریت کے خلاف بھی تحریک انہی نے شروع کی تھی،اِس لئے کسی کو بھی کمزور نہ سمجھا جائے۔