ایٹمی جاسوسی اور ایٹمی جاسوس (2)

ایٹمی جاسوسی اور ایٹمی جاسوس (2)
ایٹمی جاسوسی اور ایٹمی جاسوس (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

4۔جارج کوول (Gorge Koval): امریکہ میں پیدا ہوا۔ اس کے والدین روسی نژاد تھے۔ دوسری عالمی جنگ میں وہ روس واپس چلا گیا اور سرخ فوج کے ایک مشہور انٹیلی جنس ادارے (GRU)میں بھرتی ہو گیا۔ پھر وہ کسی نہ کسی طرح امریکہ چلا گیاکیونکہ وہیں کی ’’پیداوار‘‘ تھا۔

وہاں جا کر اس کو ایک انجینئرنگ یونٹ میں بطور ہیلتھ آفیسر بھرتی کر لیا گیا۔تابکاری (Radiation) اس کا خاص شعبہ تھا۔ 6اگست 1945ء کو امریکہ نے اپنا پہلا جوہری بم جو ہیروشیما پر گرایا اس کا کوڈنام ’’موٹا آدمی‘‘ (Fatman) تھا۔ اس بم کے ڈیٹونیٹر کے بارے میں کوول نے لاس آلاموس میں رہ کر معلومات حاصل کیں اور انہیں سوویت یونین پہنچاتا رہا۔

امریکہ میں اس کی جاسوسی سرگرمیوں کا کسی کو بھی پتہ نہ چل سکا اور اسی گمنامی کی حالت میں اس کی موت واقع ہو گئی۔ کئی برسوں بعد جب پتہ چلا تو تب سوویت یونین،سکڑ کر، رشین فیڈریشن بن چکا تھا۔ تاہم روس کے لئے اس کی خدمات کو سراہا گیا اور بعد از مرگ اسے ’’روسی ہیرو‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ یہ خطاب اسے 2007ء میں روسی صدر پوٹن نے دیا۔
5۔جو لیس روزن برگ (Julius Rozenberg) اور اس کی بیوی ایتھل روزن برگ (Eithel Rozenberg) دونوں پیشے کے اعتبار سے فزکس کے موضوع کی کچھ نہ کچھ جان پہچان رکھتے تھے۔ ایتھل انتہائی ذہین اور چنچل دوشیزہ تھی اور عمر میں اپنے شوہر سے دوسال بڑی تھی۔ ایتھل کا بھائی ڈیوڈ گرین گراس جس ذکر اوپر آ چکا وہ بھی اس نیٹ ورک کا حصہ بن گیا جو جولیس اور ایتھل نے مل کر قائم کیا تھا۔

یہ خاندان یہودی تھا۔

ان کی داستان طویل ہے۔ ان پر مقدمہ چلایا گیا اور میاں بیوی کو موت کی سزا سنائی گئی۔ جولیس کا موقف تھا کہ اگر وہ امریکہ کے جوہری رازوں کو روس تک نہ پہنچاتا تو عالمی توازنِ قوت درہم برہم ہو جاتا۔ اس لئے اس نے ضروری سمجھا کہ دوسری سپرپاور کے پاس بھی جوہری اہلیت موجود ہوتا کہ امریکہ اکیلا ساری دنیا کا ’چوہدری‘ نہ بن سکے۔
6۔ ہیری گولڈ (Harry Gold)بھی امریکی جاسوس تھا۔ جب وہ پکڑا گیا تو اس نے اعترافِ جرم کر لیا۔ وہ گرین گلاس اور فیوچس کے کوریئر (Courier) کے طور پر کام کرتا رہا۔ یعنی جو جوہری معلومات اس کو ملتی تھیں، وہ ان کو لے کر روسی ذرائع تک پہنچا دیا کرتا تھا۔
دوسرے ممالک کے جوہری راز
1945ء سے 1949ء تک امریکہ، دنیا کی واحد جوہری قوت تھا۔ اس دوران بہت سے جوہری راز، امریکہ سے روس منتقل ہوتے رہے۔ جو لوگ یہ کام کرتے رہے ان کی تعداد زیادہ ہے۔

سطور بالا میں، ہم نے صرف 6،7 اشخاص ہی کاذکر کیا ہے جن کو جوہری جاسوس کہا جاتا ہے۔ بہت سے ایسے جاسوسی راز بھی تھے جن کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا اور شائد آئندہ بھی نہ چل سکے۔ دنیا کی دوسری بڑی طاقت جس نے امریکہ کے بعد جوہری تجربے کئے وہ سوویت یونین تھی۔

اس کے بعد برطانیہ نے 1952ء میں، فرانس نے 1960ء میں، چین نے 1964ء میں، انڈیا اور پاکستان نے 1998ء میں اورشمالی کوریا نے 2017ء میں جوہری تجربات کئے۔ یہ بات ابھی تک صیغہ ء راز میں ہے کہ بم بنانے کی ٹیکنالوجی جوہری جاسوسوں کی مرہونِ منت ہے یا امریکہ کے بعدجتنے ممالک نے بھی یہ اہلیت حاصل کی وہ از خود کی اور اس میں کسی اور ملک سے چوری کی گئی ٹیکنالوجیکل معلومات شامل نہیں تھیں۔
ایک بار جب کسی ملک کے پاس جوہری بم سازی کی اہلیت آ جاتی ہے تو وہ اپنے جوہری ترکش کی سیکیورٹی کو حتی المقدور فول پروف بناتا ہے تاکہ کوئی معلومات لیک ہو کر کسی دوسرے ملک کے پاس نہ چلی جائیں۔ یہ ایک فطری عمل ہے۔

نہ صرف یہ بلکہ دنیا کی تمام ماڈرن ایجادات کا حال بھی یہی ہے۔ دنیا میں آج جتنے بھی بھاری ہتھیار موجود ہیں مثلاً طیارے، آبدوزیں، میزائل، راڈار، طیارہ بردار بحری جہاز وغیرہ ان کی ٹیکنالوجی کسی نہ کسی سطح پر ایک ملک سے نکل کر دوسرے ملک کو ’’چوری کے ذریعے‘‘ منتقل ہوتی رہی۔ بعض اوقات یہ بھی ہوا کہ کسی کمزورملک کے ہاتھ کوئی ایسا راز آ گیا جس سے وہ خود فائدہ نہیں اٹھا سکتا تھالیکن اس کا کوئی طاقتور دوست ملک اس کی نقل کر سکتا تھا تو وہ کمزور ملک اپنے طاقتور دوست کو وہ راز دیتا رہا۔
ریورس انجینئرنگ
آیا ریورس انجینئرنگ کا عمل جاسوسی یا چوری کی مد میں شمار کیا جا سکتا ہے ، اس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہو سکا۔ دنیا کے تقریباً سارے ترقی یافتہ ممالک ریورس انجینئرنگ سے کام لیتے رہے ہیں۔

ان میں چین کا نام اس لئے پیش پیش ہے کہ چینی سائنس دان اور انجینئرز باقی ملکوں کے ماہرین کے مقابلے میں زیادہ تیز ذہنِ رسا کے مالک ہیں۔ وہ نہ صرف کسی ویپن سسٹم کی فوری طور پر ہوبہو نقل کر سکتے ہیں بلکہ اصل ہتھیار کی بعض خوبیوں میں اضافہ کرکے اسے زیادہ کارگر بھی بنا سکتے ہیں۔۔۔ اس کے مظاہر دنیا نے بارہا دیکھے ہیں۔
جوہری جاسوسی کا مستقبل
جوہری جاسوسی کا مستقبل، ماضی کے مقابلے میں نہایت روشن ہے۔ عصرِ حاضر کی ڈیجیٹل دنیا (Digital World) میں کوئی بھی تحریر، تصویر، خاکہ اور آڈیو کلپ پلک جھپکنے میں ایک براعظم سے دوسرے براعظم میں پہنچائی جا سکتی ہے۔ ہائی برڈ وارفیئر کے آفاق اتنے پھیل چکے ہیں کہ ان کا احاطہ کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ مثلاً درج ذیل چار سوالات میرے ذہن میں اٹھ رہے ہیں جن کا جواب خاصا طویل اور مبسوط ہے لیکن ان کو قارئین تک پہنچانا کارے دارد معلوم ہو رہا ہے:
1۔ ہائی برڈ وار فیئر کے ٹول (Tools) کون کون سے ہیں؟
2۔یہ ٹول پاکستان کے خلاف کیوں استعمال کئے جا رہے ہیں؟
3۔ہائی برڈ وارفیئر پاکستان کی قومی سلامتی کے لئے اگر خطرہ ہے تو اس کی تفصیل کیا ہے؟
4۔کیا اربابِ اختیار اس خطرے سے پوری طرح آگاہ ہیں؟
بظاہر یہ چاروں سوال مختصر ہیں لیکن ان کے جواب کی تفصیل میں جائیں تو ایک نیا جہانِ معنی سامنے آتا ہے۔ کیا ہمارا دشمن ہمارے جوہری ہتھیاروں کی جاسوسی کے ضمن میں کوئی ہاتھ پاؤں مار رہا ہے؟۔۔۔ اوراگر ایسا ہے تو موجودہ ڈیجٹیل آلات سے لیس جوہری آلات/ وارہیڈز/ میزائل وغیرہ کی چوری اور جاسوسی کے امکانات کیا ہیں؟ وغیرہ وغیرہ
حرفِ اختتام
آج جوہری اہلیت کے حامل کس ملک کے پاس کتنے جوہری وارہیڈز ہیں اس کا علم صرف اسی ملک کو ہے جس کے پاس یہ وارہیڈز موجود ہیں۔ باقی یا تو اندازے (Estimates) ہیں یا ان ملکوں نے خود اعتراف کر رکھا ہے کہ اس کے پاس فلاں تعداد کے وارہیڈز ہیں۔ درج ذیل تعداد سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے لی گئی ہے اور اس کو اَپ ڈیٹ کرنے کی تاریخ 20جون 2018ء درج ہے:
روس= 6850
امریکہ= 6550
فرانس= 300
چین= 280
برطانیہ= 215
پاکستان= 145
انڈیا= 135
اسرائیل = 80
کوریا = 15
میزان= 10570
ان میں سے 90فیصد وارہیڈز صرف دو ملکوں یعنی امریکہ اور روس کے پاس ہیں۔ جوہری ماہرین کے مطابق یہ تعداد ہمارے کرۂ ارض کو کئی بار یکسر تباہ کر سکتی ہے۔ اب تک دنیا جو اس نیوکلیئر قیامت سے بچی ہوئی ہے تو یہ صرف اور صرف خدا کا حکم ہے۔ جس روز یہ حکم واپس لے لیا گیا قیامت آ جائے گی۔ انسان اس قیامت کے خوف سے مبّرا معلوم ہوتا ہے۔ تبھی تو ہزاروں جوہری بم اس نے ’’سنبھال‘‘ کر رکھے ہوئے ہیں۔۔۔ اورقرآن حکیم کے مطابق انسان نے اپنے ’’ظلوماً جہولا‘‘ کا ثبوت تو دے کے رہنا ہے!(ختم شد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک مہمل غزل
1960ء اور 1970ء کے عشروں میں پاک پتن، ضلع منٹگمری کا ایک تحصیل ہیڈکوارٹر تھا۔ عوام کی تفریح کے تین ذرائع ہوتے تھے۔ ایک نشاط سنیما، دوسرے حضرت گنج شکر کا سالانہ عرس اور تیسرے وہ مشاعرے جو وقتاً فوقتاً منعقد کرائے جاتے تھے۔ ہم نے وہیں ہندوپاک لیول کے کئی مشاعرے بھی سنے۔ طالب علمی کا زمانہ تھا۔ ہم سٹیج کے سامنے بچھی دریوں پر جا کر بیٹھ جاتے اور سمجھ آئے نہ آئے داد دینے والوں میں شامل ہو جاتے۔ شائد وہیں سے شعر گوئی کا چسکہ پڑا۔ مجلسِ فروغِ ادب کے ماہانہ اجلاس ہوتے تھے جن میں غزلیں اور افسانے تنقید کے لئے پیش کئے جاتے۔ ایک بار مجلس نے یہ اہتمام کیا کہ ’’مہمل غزلیں‘‘ سنی جائیں۔ طرح مصرعہ تھا:
ہر ہر قدم پہ یورشِ طوفانِ رنگ ہے۔
درجِ ذیل ’مہمل غزل‘ اسی دور کی یادگار ہے:
ہر ہر نظر میں لذتِ ارمانِ رنگ ہے
’’ہر ہر قدم پہ یورشِ طوفانِ رنگ ہے‘‘

دل ہے کہ ایک محشرِ جذباتِ آرزو
جاں ہے کہ ایک منظرِ جانانِ رنگ ہے

رنگینیء وصال و سرورِ جمالِ ہجر
عالم تمام بستہ ء سامانِ رنگ ہے

’’کب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر‘‘
خود زیست جبکہ نذرِ حسینانِ رنگ ہے

ہر لمحہ انتظارِ قیامت سرشت ہے
کتنی مہیب گردشِ دورانِ رنگ ہے

صبحِ ازل کی دھوپ ہے دل میں بسی ہوئی
ایسا حسین سایہ ء دامانِ رنگ ہے

فیضِ نظر بقدر ظرف ہے، اسی لئے
دَر پہ مرے ہجومِ گدایانِ رنگ ہے

بیگانگی، سرابِ محبت، شکستِ دل
لے دے کے ہے جو آج ، یہ ایمانِ رنگ ہے

مینا و مے و بادہ و جام و سبو و خُم
کیا خوب رنگِ بادہ گسارانِ رنگ ہے

ذوقی پسِ ردائے حقیقت نما مجاز
اک میں ہوں اور جلوۂ یزدانِ رنگ ہے

مزید :

رائے -کالم -