کیسے ہوسکتا ہے جس کیخلاف شکایت ہو وہ خود کسی کیخلاف تحقیقات کرے؟،چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے محکمہ جنگلات اراضی کی غیرقانونی الاٹمنٹ کیس میں نیب کے تفتیشی افسر کو تحقیقات سے روک دیا
کراچی(ڈیلی پاکستان آن لائن)سندھ ہائیکورٹ نے محکمہ جنگلات اراضی کی غیرقانونی الاٹمنٹ کیس میں نیب کے تفتیشی افسر کو تحقیقات سے روک دیا۔چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ڈائریکٹرنیب صاحب،آپ کے تفتیشی افسر کیخلاف کرپشن کی شکایت ہے،کیسے ہوسکتا ہے جس کیخلاف شکایت ہو وہ خود کسی کیخلاف تحقیقات کرے؟۔
تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں محکمہ جنگلات اراضی کی غیرقانونی الاٹمنٹ کیس کی سماعت ہوئی،چیف جسٹس ہائیکورٹ احمدعلی ایم شیخ کی سربراہی میں بنچ نے محکمہ جنگلات افسراعجازاحمدکی درخواست ضمانت پرسماعت کی،ڈائریکٹر نیب جاوید علی عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے ڈائریکٹر نیب سے استفسار کیا کہ آپ نے ڈرافٹ ریفرنس بھیج دیاہے،ڈائریکٹر نیب نے جواب دیا کہ ڈرافٹ ریفرنس 2016 میں بھیج چکے ہیں۔
ڈرافٹ ریفرنس پیش نہ کرنے اور غلط بیانی پر چیف جسٹس ڈائریکٹر نیب پربرہم ہو گئے،چیف جسٹس احمد علی شیخ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا آپ قانون سے بالاتر ہیں،عدالت میں غلط بیانی کرتے ہیں،نیب نے ڈائریکٹر نیب جاوید علی کو غلط بیانی پر شوکاز جاری کردیا۔ درخواست گزار نے عدالت کو بتایاکہ نیب تفتیشی افسرپیرخلیق کےخلاف بھی تحقیقات جاری ہیں۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے کہاکہ کسی کومعلوم ہی نہیں نیب میں کیاہورہاہے،عدالت نے کیس افسر سے استفسار کیا کہ بتائیں چوکڑی کیاہوتی ہے؟کیس افسرعدالت کوجواب دینے میں ناکام ہو گئے جس پر عدالت نے ڈائریکٹرنیب کی بھی سرزنش کردی۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے کہا کہ کیسے افسران ہیں جنہیں بنیادی معلومات ہی نہیں،ڈائریکٹرنیب کوبھی معلوم نہیں چوکڑی کیاہوتی ہے،کورٹ سے نکل جائیں جب کچھ معلوم ہی نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ڈائریکٹرنیب صاحب،آپ کے تفتیشی افسر کیخلاف کرپشن کی شکایت ہے، کیسے ہوسکتا ہے جس کیخلاف شکایت ہو وہ خود کسی کیخلاف تحقیقات کرے؟ ہائیکورٹ نے نیب تفتیشی افسر پیر خلیق کو تحقیقات کرنے سے روک دیا۔