بلاول بھٹو نے قومی بیانیہ کی پہلی اینٹ رکھ دی
کسی نے کہا بلاول بھٹو زرداری نے اس دورِ ابتلاء میں حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کا اعلان کرکے خود کو شہید بے نظیر بھٹو کی سیاسی وراثت کا حقیقی حقدار ثابت کر دیا…… مَیں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں ……اس وقت مسلم لیگ(ن) جس طرح لٹھ لے کر عمران خان کے پیچھے پڑی ہوئی ہے اور کرونا وائرس کا ذمہ دار انہیں قرار دے رہی ہے، اس تناظر میں بلاول بھٹو زرداری کا وزیراعظم عمران خان کی مخالفت سے دستبردار ہونا بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ انہوں نے بہت صحیح کہا کہ سیاست کرنے کے لئے تو بڑی عمر پڑی ہے، اس وقت متحد ہو کر کرونا وائرس کے خلاف لڑنے کی ضرورت ہے۔حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنا طرزِ سیاست بدلے اور سیاسی قوتوں کو اس اہم مرحلے پر ساتھ لے کر چلے۔
بلاول بھٹو زرداری نے عین موقع پر یہ بیانیہ دے کر اپنے بالغ نظر سیاستدان ہونے کا ثبوت پیش کر دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) ابھی تک اس بیانیہ میں پھنسی ہوئی ہے کہ شہبازشریف پنجاب کے وزیراعلیٰ ہوتے تو صوبے میں کرونا وائرس داخل بھی نہ ہو سکتا، جبکہ یہ معاملہ عالمی اور قومی سطح کا ہے، صرف پنجاب کا نہیں۔ ہم تو پہلے بھی ان کالموں میں کہہ چکے ہیں کہ کرونا وائرس پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ ایک بڑی زیادتی ہوگی۔ اس بات کو بلاول بھٹو زرداری نے بھی دہرایا ہے۔ اس وقت پورا ملک مفلوج ہو چکا ہے، عملاً لاک ڈاؤن کی صورت حال نظر آتی ہے۔ آگے کیا ہوتا ہے، کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ اس حوالے سے پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کی باتیں بھی نامناسب ہیں۔ جب پورے ملک میں ہر اجتماع پر پابندی ہے تو پارلیمنٹ میں چار پانچ سو افراد کو کیسے اکٹھا بٹھایا جا سکتا ہے؟ پھر اس میں ہوگا کیا؟ الزام تراشی، دنگا فساد، ہڑبونگ اور واک آؤٹ، اس سے بہتر نہیں کہ اپوزیشن حکومت کو فری ہینڈ دے کہ وہ کرونا پر قابو پانے کے لئے جو کچھ کر سکتی ہے، کرے، ہم اس کے ساتھ ہیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ قوم کرونا کے مسئلے پر متحد ہو کر ایک پیج پر آ چکی ہے۔ فوج اپنی پوری طاقت کے ساتھ کرونا وائرس سے نمٹنے کے لئے قومی اداروں اور حکومت کے ساتھ ہے۔ عوام بھی ہر مشکل کو خوشدلی سے برداشت کررہے ہیں۔ رفتہ رفتہ کرونا کے حوالے سے شعور بھی اجاگر ہو رہا ہے اور وہ احتیاطی تدابیر جو پہلے انہونی لگتی تھیں، اب لوگو ں کے معمولات کا حصہ بنتی جا رہی ہیں۔ اب ایسے حالات میں اگر سیاسی سطح پر ایک عدم اتفاق اور انتشار موجود رہتا ہے تو یہ بدقسمتی کی بات ہوگی۔ اس بات کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ فی الوقت حکومت تحریک انصاف اور عمران خان کے پاس ہے۔ ان کے حق حکمرانی کو موجودہ حالات میں چیلنج کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ اس سے وہ یکسوئی متاثر ہوگی جو کرونا وائرس کی وباء سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے۔ اس وقت صاف لگ رہا ہے کہ حکومت اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ کر ونا کو شکست دینے کے لئے سرگرم ہے۔ ہاں اپوزیشن حکومت کو اچھی اور قابلِ عمل تجاویز ضرور دے سکتی ہے، جیسا کہ بلاول بھٹو زرداری نے پورے ملک میں لاک ڈاؤن کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اگرچہ وزیراعظم عمران خان اس کے حق میں نہیں، تاہم پھر بھی ایک اچھی تجویز تو سامنے آئی ہے۔ غور کیا جائے تو ہم بڑھ اسی طرف رہے ہیں۔ صوبہ سندھ کو جانے والی ٹرینیں اور بسیں بند کر دی گئی ہیں۔ اسی طرح دوسرے صوبوں کی سرحدی نگرانی بھی کی جا رہی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کیوں ضروری ہے؟ اس کا جواب ایک تو یہی ہے کہ چین نے اسی موثر لاک ڈاؤن کے نتیجے میں کرونا کو شکست دی۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ سب چیزیں اور افراد اپنی جگہ پر رک جاتے ہیں، جس کے بعد کرونا وائرس کے کیس اگر سامنے آتے ہیں تو ان کی جائے سکونت کا علم ہو جاتا ہے، وگرنہ آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہے تو کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ وائرس کہاں کہاں ہے، کہاں سے آیا اور کس طرف کو سفر کررہا ہے؟……عوام کو ایک مشکل صورتِ حال سے گزارنے کے لئے اعلیٰ سطح کی اچھی مثالیں قائم کرنا ہوں گی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ملک کے بالا دست طبقے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور عوام سے توقع کریں کہ وہ احتیاطی تدابیر پر عمل کریں۔ اب شیخ رشید احمد کا ٹی وی پر بیٹھ کر یہ کہنا کہ موت کا ایک دن معین ہے، اس لئے مَیں تو کوئی احتیاط نہیں کروں گا۔ اپنی لال حویلی میں لوگوں سے ملوں گا بھی اور ہاتھ بھی ملاؤں گا۔ جہاں وزیراعظم عمران خان وزیراعظم ہاؤس آمد پر کرونا سے احتیاط کے پیشِ نظر مولانا طارق جمیل سے بھی ہاتھ نہ ملاتے ہوں، وہاں ایک وفاقی وزیر ایسی باتیں کرے تو عجیب تاثر جنم لیتا ہے اور عوام یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ اسی قسم کی ایک مثال گورنر ہاؤس لاہور میں بھی قائم کی گئی، جس پر سوشل میڈیا میں شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ یہ تقریب لاہور ہائیکورٹ کے نئے چیف جسٹس محمد قاسم خان کی حلف برداری پر مشتمل تھی اور گورنر ہاؤس کے وسیع و عریض لان میں منعقد کی گئی۔
حیرت ہے کہ اس سے پہلے ایسی تقاریب گورنر ہاؤس کے دربار حال میں منعقد کی جاتی تھیں، اب انتہائی خاص حالات تھے، جن میں سینکڑوں لوگوں کی شمولیت عوام کو یہ پیغام دینے کے مترادف تھی کہ ایلیٹ کلاس پر اس ملک میں کوئی پابندی نہیں لگ سکتی۔ اسی دن یہ خبر بھی سوشل میڈیا پر درج شدہ ایف آئی آر کے ساتھ چلتی رہی کہ اٹک میں قل خوانی کی ایک تقریب منعقد کرنے پر مقدمہ درج کر لیا اور پولیس نے ذمہ داروں کو حراست میں لے لیا ہے۔ اسی شام محکمہ داخلہ پنجاب نے یہ حکم بھی جاری کیا کہ اب گھروں میں بھی شادی بیاہ کی تقریبات سمیت کوئی تقریب منعقد نہیں کی جا سکتی۔ ایک طرف اگر یہ پابندیاں ہوں اور دوسری طرف گورنر ہاؤس میں بڑے پیمانے پر مہمان بلا کر تقریب سجا لی جائے تو اس کا عوام پر کیا اثر پڑے گا؟…… کسی نے اس کے بارے میں بہت نوکیلا جملہ لکھا کہ کرونا وائرس گورنر ہاؤس میں داخل نہیں ہو سکتا، کیونکہ وہاں وی آئی پی کلچر پہلے سے قدم جمائے ہوئے ہے، جس کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے کی گنجائش کیسے نکل سکتی ہے؟……
موجودہ حالات میں ہمیں ایسے تمام تضادات ختم کرکے ایک نکتے پر جمع ہونا پڑے گا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ بڑے لوگوں کی اٹھکھیلیاں جاری رہیں اور عوام سے یہ توقع کی جائے کہ وہ ٹک کر گھر بیٹھ جائیں۔ کرونا وائرس کسی کا صوابدیدی اختیار نہیں کہ اسے جہاں چاہا بھیجا اور جہاں چاہا واپس بلا لیا۔ یہ ایک آفت ناگہانی ہے۔ یہ عمر دیکھتا ہے اور نہ مرتبہ، اس میں نہ امارت کام آتی ہے اور نہ غربت بچاتی ہے۔ اس سے بچاؤ کا واحد راستہ احتیاط ہے۔ اتحاد کا کلچر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ اوپر سے لے کر نیچے تک ایک ہی طرزِ عمل کو اپنایا جائے۔ امیروں کے لئے شائد لاک ڈاؤن سے کوئی مشکل پیدا نہ ہو، تاہم غریبوں کے لئے یہ بہت بڑا امتحان ہوگا، لیکن مجھے یقین ہے کہ ہمارے بہادر عوام اس مرحلے سے کامیاب و کامران گزریں گے۔ بس اس کے لئے قومی بیانیہ کو ایک بنانے کی ضرورت ہے اور بلاول بھٹو زرداری نے اس حوالے سے پہلی اینٹ رکھ دی ہے۔