بچوں سے پیار کرنے والی چینی ما ں کودھوکہ دینے اور رقم بٹورنے کی وجہ سے جیل کی سزا

بچوں سے پیار کرنے والی چینی ما ں کودھوکہ دینے اور رقم بٹورنے کی وجہ سے جیل کی ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


چین کی 54 برس کی ایک خاتون لی یانگڑیا جسے ایک زمانے میں غریبوں کی مدد کرنے کی وجہ سے قومی سطح پر شہرت ملی تھی، اسے اب 20 برس قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔
چین کے شمال مشرقی صوبے ہیبی کے علاقے وْوآن کی ایک عدالت نے اس عورت کے خلاف دھوکہ دہی، رقم اینٹھنے اور سماجی معمول کو خراب کرنے کے جرائم ثابت ہونے کے بعد سزا سنائی۔
ایک پرانے یتیم خانے کی مالکہ پر جسے لوگ پیار سے ’محبت والی ماں‘ بھی کہتے تھے، قید کی سزا کے علاوہ ڈھائی ملین یوآن جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔ یہ رقم امریکی ڈالروں میں پونے چار لاکھ سے زیادہ رقم بنتی ہے۔
اس کے ساتھ اس کے دوست سمیت اس کے جرائم کے پندرہ ساتھیوں کو بھی مجرم قرار دیا گیا ہے۔
عدالت کے فیصلے کے مطابق، لی یانگڑیا نے جو کہ لی لیجوآن کے نام سے بھی بجانی جاتی ہے، یتیم خانے کی وجہ سے بننے والے اثر و رسوخ کا ناجائز استعمال کیا تھا۔
چین کے ایک سوشل میڈیا وائیبو پر ووآن سٹی پیپلز کورٹ کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان کے مطابق ’اْس نے ایک گروہ کے ساتھ مل کر مالی فائدہ حاصل کرنے کے لیے دھوکہ دہی سمیت کئی جرائم کا ارتکاب کیا۔‘
لی یانگڑیا کے دوست، ڑو کی پر سماجی ماحول پر غیر مستحکم کرنے، دھوکہ دہی اور دوسروں کو ارادتاً نقصان پہنچانے کی کوشش کی فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔ اسے ساڑھے بارہ برس کی قید اور سوا ملین یوآن جرمانے کی سزا دی گئی ہے۔
جب کہ جرم میں شریک دیگر 14 افراد کو پانچ برس قید تک کی مختلف سزائیں سنائی گئیں ہیں۔
’محبت کی ماں‘ جس نے ’محبت کا گاؤں‘ بنایا تھا
لی یانگڑیا کو سب سے پہلے اس وقت شہرت ملی تھی جب اس کے بارے میں سنہ 2006 میں میڈیا میں یہ خبریں آنا شروع ہوئی تھیں کہ وہ اپنے آبائی گاؤں کے گھر میں یتیم بچوں کو گود لے رہی ہیں۔
وہ میڈیا کو یہ کہتی تھی کہ ان کی ایک مرتبہ شادی ہوئی تھی لیکن اس کا انجام طلاق پر ہوا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے سابق شوہر نے ان کے بیٹے کو ایک ٹریفیکر کے ہاتھ 7000 یوآن میں فروخت کردیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ وہ اپنا بیٹا واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تھیں لیکن اس کے بعد انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ دوسرے ضرورت مند بچوں کی بھی مدد کریں گی۔
ایک برس کے بعد انھوں نے کافی زیادہ دولت حاصل کر لی، اس طرح وہ ہیبی صوبے کی امیر ترین شخصیات میں شامل ہوگئیں۔ اور پھر 1996 میں انھوں نے لوہے کی ایک کانکنی کی ایک کمپنی خرید لی۔
ہیبی صوبے ینڑاؤ میٹروپولِس نامی ایک اخبار کو اپنی کہانی سناتے ہوئے کافی عرصہ پہلے کہا لی یانگڑیا نے تھا کہ ’میں اکثر اپنے ارد گرد ایک چھ برس کی بچی کو اپنے آس پاس دوڑتے ہوئے دیکھتی تھی۔ اس کے باپ کا انتقال ہو گیا تھا اور اس کی ماں بھاگ گئی تھی۔ اس لیے میں اس بچی کو اپنے گھر لے آئی۔ یہ پہلی بچی تھی جسے میں نے گود لیا تھا۔‘
اِس طرح اس نے کئی اور بچو ں کو بھی گود لینا شروع کردیا اور پھر اس نے ایک یتیم خانہ کھول لیا جس کا اس نے نام ’محبت کا گاؤں‘ رکھا۔ اس کے متعلق میڈیا میں اکثر ایسی باتیں آتی تھی کہ اسے کینسر تھا جس کے علاج میں اس نے اپنی تمام دولت خرچ کردی تھی۔
2017 میں اس کے یتیم خانے میں گود لیے گئے بچوں کی تعداد 118 تک پہنچ گئی تھی۔
اْسی برس حکومت کو عوام کی جانب سے اْس کے بارے میں مشکوک حرکتوں میں ملوث ہونے کی اطلاعات ملنا شروع ہوئیں۔
2018 میں مئی کے مہینے میں پولیس کے علم میں آیا کہ اس کے بینک اکاؤنٹ میں دو کروڑ یوآن اور 20 ہزار امرکی ڈالرز ہیں اور وہ لینڈ کروزر اور مرسی ڈیز جیسی لگڑری کاروں کا مالکہ ہے۔حکام کو پتہ چلا کہ وہ 2011 سے غیر سرگرمیوں میں ملوث چلی آرہی ہے۔
اس کے متعلق پتہ چلا کہ اس نے گود لیے گئے اپنے چند بچوں میں سے کچھ کو تعمیراتی کام رکوانے کے لیے ان کو استعمال کرکے حادثات کروائے۔ ایک واقعے میں ایک بچہ تعمیراتی کمپنی کے ٹرک کے نیچے آ گیا اور اس طرح تعمیراتی کام رکوا دیا گیا۔ لی یانگڑیا نے اس کمپنی کو بلیک میل کرنا شروع کردیا۔
ادھیڑ عمر کی اس خاتون نے تعمیراتی کمپنیوں کو مجبور کیا کہ وہ اس کے ’محبت کے گاؤں‘ کی تعمیر میں اسے چندہ دیں۔
لی یانگڑیا کو مئی میں فوجداری قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا۔ جب اس کو گرفتار کیا گیا تو اس وقت اس کے یتیم خانے میں 74 بچے تھے۔ ان بچوں کو سرکاری سکولوں میں منتقل کردیا گیا ہے۔
چین میں سوشل میڈیا پر اس عورت پر سخت تنقید کی گئی ہے اور اْسے بھیڑ کے روپ میں بھیڑیا کہا گیا۔
وائیبو پر ایک صارف نے کامنٹ پوسٹ کیا کہ ’قابلِ نفرت۔ میرے چچا نے تو اس کو واقعتاً پہلے چندہ بھی دیا تھا۔‘
ایک اور صارف نے پوسٹ کیا کہ ’میں نے ایک زمانے میں اسے محبت والی ماں کہا تھا۔ میں اب اس سے یہ لقب واپس لینا چاہتی ہوں۔ اس میں محبت نامی کوئی بات ہے ہی نہیں۔ وہ اس لقب کے قابل نہیں ہی ہے۔‘

مزید :

ایڈیشن 1 -