ویکسینیشن سنٹر پہ تر و تازہ کالم

 ویکسینیشن سنٹر پہ تر و تازہ کالم
 ویکسینیشن سنٹر پہ تر و تازہ کالم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 برمنگھم میں ’فیملی پرائیڈ‘ نام کی ٹی وی سیریل شُوٹ کرتے ہوئے نامور صداکار، ایکٹر اور پروڈیوسر ضیا محی الدین نے مجھے ایک غیرمعمولی مشورہ دیا تھا: ”کوئی بھی کردار ملے، بس اپنے کام سے مزا لیتے جائیں۔“ ہدایت پہ عمل کرنے کی دیر تھی کہ صرف ٹی وی شُوٹنگ کے دوران ہی نہیں بلکہ عملی زندگی میں بھی میری آئندہ پرفارمنس عام لوگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ خوشگوار ہونے لگی۔ آپ بھی میرے انکشاف سے لطف لے سکتے ہیں کہ اِس کی تازہ ترین شہادت دو روز پہلے ملی اور زبان سے بے اختیار نکلا ”ضیا محی الدین زندہ باد۔“ 


 سیدھی بات کروں تو وطنِ عزیز میں کورونا ویکسین کا چرچا ہوتے ہی مجھے اپنے تعلیمی پس منظر کی عمومی برتری کا احساس ہونے لگا تھا۔ برتری اس لحاظ سے کہ آپ کے کالم نویس نے ثانوی درجہ سے آگے سیاسیات و معاشیات، انگریزی زبان و ادب اور پھر قانون کی تعلیم تو حاصل کی، مگر ایک شعوری فیصلے کے تحت سائنس پڑھنے کا تکلف بالکل رو ا نہ رکھا۔ ثانوی جماعتوں میں بھی اللہ کی مہربانی سے فزکس، کیمسٹری کے مضر اثرات دُور کرنے کے لئے بیالوجی کی بجائے فارسی لینے کو ترجیح دی تھی۔ اِس سے جوانی تو سپھل ہوئی ہی، اب گھر کی مالکن سے، جو پیشہ ورانہ تربیت کی رو سے ولایت پاس ڈاکٹر ہیں، ویکسین کی اقسام اور فائدے نقصان پر بحث سے یہ کہہ کر کنارہ کش ہوں کہ بیگم، ہمیں تو میڈیسن کی سمجھ ہے نہ اُس میں دلچسپی۔ خیر، یہ مت سمجھیں کہ مَیں نے پیش بندی کے بغیر یکدم ٹیکہ لگوا لیا۔ 


 جی نہیں، پہلے تو ڈائننگ ٹیبل پر آٹھ آٹھ فُٹ کے سماجی فاصلے کے ساتھ بھائی زاہد ملک کے عسکری تجربہ سے فائد ہ اٹھاتے ہوئے ایک نجی کور کمانڈرز کانفرنس منعقد کی۔ پھر اِس صلاح مشورے میں اُن غازیوں کو بھی آن لائن لے لیا جو شہدائے کورونا کے برعکس ویکسینیشن کی آزمائش سے کامران لوٹے ہیں۔ شیخوپورہ سے قیصر ذوالفقار بھٹی ایڈووکیٹ، اسلام آباد سے بہن میمونہ ملک اور لاہور سے ریٹائرڈ پرنسپل طاہر یوسف بخاری نے متعلقہ مراکز میں انتظامی تدابیر اور تینوں شہروں میں مامور عملے کے حسنِ اخلاق کو سراہا۔ فلسفہ کے مستند استاد ڈاکٹر ساجد علی نے بھی، جنہیں فیس بُک پہ ذاتی باتیں لکھنے کی عادت نہیں، اپنے اسٹیٹس میں کہا: ”ایکسپو سنٹر میں بہت اچھا انتظام ہے۔ سہولت وافر ہے، لیکن ویکسین لگوانے والوں کی تعداد کافی کم تھی۔ تیس منٹ سے بھی کم وقت لگا جس میں دس منٹ آرام بھی شامل ہے۔“


 ڈاکٹر ساجد علی کی پوسٹ پڑھ کر اُن سے مختصر سوال و جواب کا خیال تو جمعرات کی سہ پہر آیا۔ لیکن زاہد ملک ایک روز پہلے یہ سوچ کر ویکسینیشن کے مرحلے سے گزر آئے تھے کہ ہم دونوں الگ الگ ایام میں ٹیکے لگوائیں اور بیگمات کی باری مزید ہفتہ دس دن بعد آئے۔ وجہ یہ روایتی تاثر کہ انسدادِ مرض کی کوئی بھی ویکسین مرض جیسی علامتیں پیدا کر سکتی ہے جس سے بدن میں مدافعتی اینٹی باڈیز پیدا ہوتی ہیں۔ لہذا یہ یقینی بنانا فائدہ مند ہوگا کہ خواتین سمیت گھر کی ساری مَین پاور‘ ایک ہی وقت لم لیٹ نہ ہوجائے۔ منزل تک پہنچنے کے لئے سائن پوسٹنگ چیک کرتے رہنے کی احتیاط البتہ مَیں نے اِس مفروضہ کے تحت کی کہ براستہ نہر ایکسپو سنٹر جانا ہر کسی کا معمول نہیں۔ 


 اب میری رننگ کمنٹری۔۔۔ گھر سے روانگی نمازِ جمعہ کے بعد دو بجکر اکتیس منٹ پر۔ روشن دن، نہر کنارے ٹریفک زیادہ نہیں، اس لیے حد رفتار کی ہلکی پھلکی خلاف ورزی۔۔۔ مگر یہ کیا؟۔۔۔ پنجاب یونیورسٹی گزری، پھر شوکت علی روڈ گزر گئی۔۔۔ ذرا آگے ڈاکٹرز ہاسپٹل۔۔۔ ایکسپو سنٹر کا بورڈ آجانا چاہیے۔۔۔ اب دو بجکر پینتالیس منٹ۔۔۔ ادارہ منہاج الحسین۔۔۔ مدنی مرکز۔۔۔ یہ تو آخری سڑک لگتی ہے۔۔۔ آگے تو موٹر وے کو ملانے والا پُل ہوگا۔۔۔ گوگل میپ کیسے کھولوں؟ آخر لیفٹ ٹرن لے لیا۔۔۔ کوئی چارہ تھا ہی نہیں۔۔۔ مڑتے ہوئے سائین پوسٹنگ دیکھی تو ایور کئیر ہاسپٹل، ایوانِ قائد اعظم، ایوب چوک، کشمیر چوک۔۔۔ یا الہی، کہیں تو ایکسپو سنٹر کا نام ہو۔۔۔ جھوٹ نہیں بولوں گا، دو تین کلومیٹر پہ ایک جگہ لکھا ہوا مِل گیا۔۔۔ کچھ گیٹ بند، چار نمبر کھُلا تھا۔ ٹھائیں ٹھپ اندر۔ ٹائم دو پچپن۔


 لَو جی، ہُن کار پارک وچ گڈی کھلار دتی اے۔ بلڈنگ ول منہ کرو تے دوسری قطار وچ کھبے ہتھ تیسرا نمبر۔ محلِ وقوع خوب ذہن نشین کر لیا تاکہ واپسی پہ گھپلا نہ ہو۔ پتا نہیں پبلک ٹرانسپورٹ سے آنے والے اور پیدل خواتین و حضرات یہاں کیسے پہنچتے ہیں اور پہنچتے بھی ہیں یا نہیں؟ سامنے ایک راہداری تھی جس کے اوپر ٹینٹ اور سائیڈوں پہ قناتیں۔ بائیں جانب تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر ڈیسک اور سٹاف کے لیے چار چار کرسیاں، روبرو ویسی ہی کرسیوں پر سائل۔ پہلا ڈیسک خالی سا لگا جس پہ بس ایک کارکن بیٹھا دکھائی دیا، باقی تین کھڑے کھڑے گپ مار رہے تھے۔ کارکن نے کہا ”فارم ختم ہیں۔“ ”انتظار کروں گا۔“ عقب میں پیارا سا سواگتی پوسٹر تھا:”ہم حکومتِ پنجاب کی طرف سے معزز بزرگ شہریوں کو مُلک کے سب سے بڑے کوویڈ ویکسینیشن سنٹر میں خوش آمدیدکہتے ہیں۔“ مَیں فُل مزا لینے لگا۔ 


 پانچ منٹ میں فارم آئے تو محسوس ہوا کہ عبد الرحمان صاحب آج پہلی بار فارم بھر رہے ہیں۔ شناختی کارڈ دیکھ کر بولے: ”اپنا پِن بتائیے۔“ ”وہ کیا ہوتا ہے؟“ ”آپ کو چار ہندسے مِلے ہوں گے، وہ بتائیں۔“ اتنے میں موبائل نے ٹَن کیا۔ ”چیک کریں، ایس ایم ایس آیا ہوگا۔“ پیغام تھا: ”پُرانے اے سی اتروانے کے لئے ہم سے رجوع کریں۔“ مَیں نے پیغام سُنا دیا۔ اِس پہ گپ لگانے والے ایک کارکن نے ہنس کر کہا ”یہ ساٹھ سے اوپر ہیں، اِنہیں اجازت ہے۔“ کارڈ پہ تاریخ پیدائش لکھی ہوئی تھی، میرا مسئلہ حل ہو گیا۔ اب فارم ہاتھ میں تھامے ہال کے اندر داخل ہوئے تو کوئی ہجوم نہیں، سوائے عملہ کی ’چہل پہل‘ کے۔ جن متوازی راستوں پہ دو رویہ کیبن تھے وہاں سب معائنہ گاہوں اور ٹیکہ گھروں کے باہر اِن کے الگ الگ کام جلی حروف میں درج ہوتے تو اتنی ’چہل پہل‘ بھی بلا جواز ٹھہرتی۔


 یہ اِس لیے کہ مستعدی کا دارومدار ٹریننگ اور معقول مراعات پہ بھی ہوا کرتا ہے۔ وگرنہ ہمارے گورڈن کالج کے ڈاکٹر فرانسس زیویر کا مقولہ کہ My cook  doesn't  know how to prepare food, but he is a good Christian۔ ایک خاتون کارکن نے یہ کہہ کر تراہ نکال دیا کہ بیشتر انتظامی عملہ اسکول اساتذہ ہیں جنہیں کوئی معاوضہ نہیں ملے گا۔ یہاں تک کہ باغبان پورہ سے ایکسپو سنٹر آنے جانے پر خود اُس کے روزانہ چھ سو روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ پھر تو یہ محض کارکنوں کا حسنِ اخلاق ہے کہ مَیں پینتیس منٹ میں فارغ تھا۔ واحد بدتمیزی میری طرف سے ہوئی کہ ایک ماسک پوش صاحبہ کو وہیل چئیر پہ دیکھ کر خوامخواہ سمجھ لیا کہ یہ لائن پھاندنے کا حربہ ہے: ”کیا آپ واقعی اپاہج ہیں؟“ ”جی، میری سرجری ہوئی ہے۔“ ساتھ ہی سابق وفاقی سیکرٹری اور پرانے ہمکار قاضی آفاق حسین کی مانوس آواز گونجی ”رعنا، پہچانا نہیں، یہ شاہد ملک ہیں۔“ شاہد نے بھی بات بدل لی ”’جی، اِس لئے پوچھا کہ مجھ سے پہلے انجکشن لگوا لیتیں۔“ 

مزید :

رائے -کالم -