تھانہ کلچراور حکمران
پاکستان کے ماضی اورحال کے وہ تمام حکمران جنہوں نے خوشحالی اور تبدیلی لانے کے بڑے بڑے دعوے کیے،ان سب کے ادوارِ حکومت میں پولیس نے نااہلی، ظلم و جبر اور کرپشن کی داستانیں رقم کی ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن اور سانحہ ساہیوال اْن اَن گنت واقعات کی صرف چند مثالیں ہیں جہاں پولیس نے نہ صرف مردوں بلکہ بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو بھی بلا تفریق ریاستی رِٹ نافذ کر نے کے نام پر قتل کیا۔ ایک ریاست میں پولیس کا کردار تو ایسا ہونا چاہیے کہ اس کی بنا پر عوام کے ذہنوں میں اپنے لیے تحفّظ اور امن کے جذبات پیدا ہونے چاہئیں لیکن پاکستان جیسی ریاست میں پولیس پر نظر پڑتے ہی عوام کے ذہنوں میں خوف اور ناپسندیدگی کے احساسات ہی جنم لیتے ہیں۔ تفتیش کے نام پر اذیت ناک جسمانی تشدّد، تھانے کے اندراورتھانے سے باہر کے نجی عقوبت خانے، ماورائے عدالت قتل، رشوت ستانی، عوام کے لیے ہمدردی کے جذبات سے عاری برتاؤ، مظلوموں کی دادرسی کی بجائے ظالموں اور سیاسی اثر ور سوخ رکھنے والے نام نہاد شرفا کے ہاتھوں کٹھ پتلی بننا جیسے رویّے پولیس کے ادارے سے منسوب ہیں۔اِن تمام رویّوں کو ہمارے ہاں“تھانہ کلچر”کا نام دیا جاتا ہے۔اداروں میں ”کرپشن“ کے حوالے پاکستان کے اپنے یا کسی دیگر ممالک کی جب کوئی رپورٹ جاری ہوتی ہے عام طور پر نمبر ون پولیس کوقرار دیا جاتاہے، لیکن یہ بات ہمارے لیے کوئی نئی نہیں نہ ہی یہ کوئی حیرت انگیز انکشاف ہے کیونکہ پولیس کے ادارے کایہی طرزِ عمل ہمیں بر صغیر کے تمام خطوں میں ملتا ہے۔
پاکستان میں پولیس کے ادارے کا مکمل انتظامی ڈھانچہ اور وہ قوانین جن کے تحت یہ ادارہ کام کرتا ہے انگریز سامراج کی ہی دین ہیں۔بر صغیر میں برطانوی سا مراج کے قبضے سے قبل مسلم حکمرانوں کے دورِ حکومت میں جو کئی صدیوں پر محیط تھا معاشرہ عمومی طور پر جرائم سے کافی حد تک پاک تھا اور اسلام کے نافذ شدہ نظام عدل اور پولیس کے نظام کی بدولت عوام کو تحفّظ اور امن حاصل تھا۔ لیکن برصغیر پربرطانوی قبضے کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ اس خطہ کی عوام اِس قبضے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھی اور جب موقع ملتا وہ اس برطانوی سامراج کے قبضے کے خلاف نجات حاصل کرنے کے لیے کھڑے ہوتے رہے رہے جن کو طاقت کے زور پر کچل دیاگیا اور برطانوی سامراج اپنی گرفت مضبوط کرتا گیا مگر جس عظیم بغاوت نے اس قبضے کو حقیقی طور پر ایک خطرے سے دوچار کیا وہ 1857کی جنگ آزادی تھی جس میں عام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ فوج اور پولیس کے وہ جوان جو انگریز نے برصغیر کے مختلف حصّوں سے ہی بھرتی کیے تھے وہ بھی اِس جنگ آزادی میں انگریز سے پیچھا چھڑانے کے لیے بڑی تعداد میں شامل ہوئے۔ اگرچہ یہ کوشش ناکام ہوئی مگر اِس جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد جس میں استعمارنے ہزاروں لوگوں اور سپاہیوں کو شہید کیا، انگریزوں کے سامنے یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ اِس خطّے پر صرف ظلم و جبر اور ظالمانہ قوانین کے ذریعے ہی اپنے تسلّط کو بر قرار رکھ پائیں گیاور اسی حقیقت کو ذہن میں رکھ کر انگریز نے1861 میں وہ بد نام زمانہ پولیس ایکٹ Police Act of 1861 برصغیر میں نافذ کیا، جِس کا مقصد یہاں کی عوام کو سخت قابو میں رکھنا، مستقبل میں ممکنہ بغاوتوں کے اِمکان کو ختم کرنا اور یہاں کی مقامی آ بادی کو یہ احساس دلانا تھا کہ وہ اب انگریز کے غلام ہیں۔
پولیس کے ادارے کو نئے سِرے سے ترتیب دیا گیا تا کہ اِسکے وہ جوان جو برصغیر سے ہی بھرتی کیے جاتے تھے اْنکی طرف سے بھی کسی ممکنہ مہم جوئی کا امکان ہمیشہ کے لیے ختم کردیاجائے۔لہٰذا برصغیر میں برطانوی قبضے کے بعد سے پولیس کے ادارے کوعوام کے جان و مال کی حفاظت کرنے اور انہیں امن و سلامتی فراہم کرنے کی بجائے محض ظلم کو نافذ کرنے اور ظلم کی حکومت کا مدد گار ادارہ بنا دیا گیا اور یہی سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 1947 میں بر طانوی حکمرانوں سے نجات تو حاصل کرلی گئی، مگرانگریز کے نظام نے ہماری جان نہیں چھوڑی پاکستان بننے سے لے کر آج تک جتنے بھی حکمران آئے ہیں کبھی کسی نے”پولیس“ کے حالات بدلنے کی کوشش نہیں کی ہر دور میں پولیس کو زاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا،آج بھی پولیس کا ادارہ 1861کا پولیس ایکٹ اور 1934 کے پولیس رولز کے مطابق ہی چلایاجارہا ہے جو برطانیہ نے اِس ادارے کے لیے وضع کیے تھے اور پاکستان کے ماضی اورحال کے حکمران تھانہ کلچر کو تبدیل کرنے کے بڑے بڑے مگر کھوکھلے دعوے کرتے رہے۔یہ حکمران بڑی اچھی طرح جانتے ہیں کہ پولیس کا یہ نظام یا تھانہ کلچر عوام دشمن ہے اوریہ عوام کو کوئی تحفّظ فراہم نہیں کر سکتا لیکن ہر دور میں حکمرانوں نے پولیس اور بیوروکریسی میں من پسند تعیناتیوں کے سوا کچھ نہیں کیا، پولیس سے عوام کا ڈائریکٹ رابطہ رہتا ہے، اوریہ ادارہ حکمرانوں کی گورننس کی تصویر کشی کرتا ہے، ادارے کاجس بھی ”آئی جی“ کو سربراہ بنایا گیا اسے کام کرنے کا پورا موقع نہیں دیا گیا،حکمرانوں نے عرصہ ساڑھے تین سال میں راؤ سردار علی خان کو پنجاب کا ساتوں آئی جی پولیس تعینات کیا ہے،لاہور پولیس کے سربراہ کے تبادلوں کی صورت حال بھی اس سے مختلف نہیں،درحقیقت آئی جی پولیس سمیت کسی بھی آفیسرز کو پولیس آرڈر2002کے مطابق کام کرنے کا جب تک موقع نہیں دیا جائے گا اس وقت“ تھانہ کلچر“ تبدیل کرنا ممکن نہیں، اس سے قبل تبدیل ہونے والے کسی بھی آئی جی پر یہ الزام نہیں لگایاجا سکتا کہ وہ تھانہ کلچر تبدیل کرنے کا حامی نہیں تھا، آئی جی پولیس راؤ سردار علی خان اور لاہور پولیس کے سربراہ فیاض احمد دیو کو دیکھ لیں دونوں انتہائی ایماندار، اچھی شہرت کے حامل پریشر نہ لینے،میرٹ پر کام کرنے اورتھانہ کلچر تبدیل کرنے والے کمانڈرہیں۔ اگر پولیس ایکٹ 2002کے مطابق انھیں کام کرنے کا پوار موقع دید یا جائے تو کوئی ایسی وجہ نہیں ہے کہ تھانہ کلچر تبدیل نہ ہو،