مشکل عالمی حالات اورمعاشی منصوبے
دنیا میں بڑھتی ہوئی بے چینی،مفلسی،مفلو ک الحالی، بیروزگاری اور مہنگائی کو دیکھتے ہوئے، میں جب پاکستان کے حالات دیکھتا ہوں تو مایوسی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔پھردنیا کے اندر مہنگائی اور انسانی ضروریات کی کم دستیابی سے متاثرہ افراد کو دیکھ کر غم تازہ ہوجاتا ہے۔ قائداعظم کے پاکستان میں گویاانسانیت سسک رہی ہے اورعوام کا دکھ درد رکھنے کے دعویدارحکمران سو رہے ہیں۔میں تھوڑی سی گزارش پاکستان کے عوام، خاص طور پر نادار اور غریب طبقے سے التجا کرنا چاہتا ہوں کہ ایک و ہ لوگ جو برسر اقتدار ہیں اور دوسرے وہ جواختیارات کی کرسی پر بیٹھنا چاہتے ہیں دیکھیں کیا وہ ہمارے لئے کچھ کر سکتے ہیں؟ان سب کا ’بلیو میپ‘ ہمارے سامنے ہے۔یہ سب باری باری اقتدار کے مزے لے چکے ہیں، سوائے اپنے ذاتی اور پارٹی مفادات کے تحفظ کے ان سے کسی قسم کافائدہ عوام کو نہیں مل سکا۔ گویا عوامی حقوق غصب کرنے میں سب ایک ہیں۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت ملک میں جاری سیاسی، معاشی اور آئینی بحران سے واضح ہوتا ہے کہ سیاست دان عوا م اور ان کے مسائل سے بالکل لاتعلق ہیں۔انہیں اقتدار کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا، جبکہ پسے طبقات اور عام لوگ ہیں کہ اپنا چولہا جلانے کے لئے روزا نہ کی بنیاد پر مرتے اور جیتے ہیں۔ ان کی مایوسیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے،خودکشیاں بڑھ رہی ہیں۔ آئی ایم ایف نے تو ملک کو دیوالیہ کردیا ہے۔ڈالر کی بے ہنگم اڑان اور روپے کی بے قدری نے بھی معاشی مسائل میں اضافہ کردیا ہے۔
دوسری طرف پشاورکے بعد کراچی اور بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات سے لگتا ہے کہ امن کی خاطر سوات، شمالی وزیر ستان،سابقہ فاٹا، پنجاب اور سندھ کے دیگر علاقوں میں دی گئی قوم کی قربا نیوں کو ضائع کر دیا گیا ہے۔ حکومت اور سکیورٹی اداروں کا کوئی مشترکہ منصوبہ سامنے نظر نہیں آرہا۔سیاسی جماعتیں ہیں کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، حکومت انتخابات سے جان چھڑانے اوراپوزیشن اسے اپنی مرضی کے مطابق ہر صورت کروانے کے لئے دست و گریبان ہیں، عدالت اور آئینی رعایتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا یاجارہا ہے۔
پھر ہم عالمی حالات کی طر ف نظر دوڑاتے ہیں تو اس میں بنیادی مسئلہ روس اور یوکرائن کے درمیان جاری جنگ کا ہے جس کوایک سال ہوچکا ہے۔ہر آنے والے دن میں جنگ میں بڑھتی ہوئی شدت کو دیکھ کر دُکھ اس بات کا ہے کہ نیٹو ممالک اور یورپی یونین جنگ کو بڑھاوا دے کر ایک عالمی جنگ کی طرف دھکیل رہے ہیں جس سے پوری دنیا میں تباہی کافی حد تک آچکی ہے اور مزید آنے کا خدشہ ہے۔
خطرناک اور جدید جرمن ٹینک ریپڈ ٹو یوکرائن کو مل چکے ہیں۔امریکی ابراہم ٹینک بھی میدان میں ہیں۔ لندن نے بھی یوکرائن کو اسلحہ دینا شروع کر دیا ہے۔ ردعمل کے طور پر روس زیادہ غصے میں ہے، اس نے ایٹمی بمبار ہوا میں اڑا دیئے ہیں جو10 تا 25 کلو گرام تک بارود استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اسی طرح روسی ایٹمی آبدوزیں بھی سمندر میں اتار د ی گئی ہیں جس سے نیوزی لینڈ کو خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ بہت سے نیٹو ممالک نے بھی اسلحہ پہنچانا شروع کر دیاہے۔ دوسری طرف روس نے بیلا روس کے ساتھ مل کر یوکرائن اور روس کے بارڈر کے ساتھ جدید ترین اسلحہ سے لیس افواج کھڑ ی کردی ہیں۔ایران اپنے تیار کردہ جدید اسلحہ کے ساتھ ڈرون بھی دے رہا ہے۔ شمالی کوریا کی طرف سے بھی روس کو جنگی ساز و سامان مہیا کیا جا رہا ہے جبکہ روس چیچن مسلمان جنگجو رمضان حیدروف کی کمانڈ میں نیم فوجی دستوں کو بھی لڑ ایا جا رہا ہے۔ جیسے امریکہ کی ”بلیک واٹرز“، جو باقاعدہ فوج تو نہیں مگر فوجی کارروائیاں امریکہ اسی سے کرواتا ہے۔ یہ فورس افغانستان،عراق اور پاکستان میں بھی سرگرم عمل رہی ہے۔ اسی طرز پر روس نے بھی ”ویگنر فورس“ کے نام سے ایک سخت ترین فوج کو بھی یوکرین پر حملے کرنے کے لئے تیار کیا ہے اور وہ لڑ رہی ہے۔
بڑھتے ہوئے اس عالمی تصادم کو دیکھتے ہوئے اسرائیل نے ایران کے مختلف شہروں میں موجود فوجی تنصیبات پر حملے کیے ہیں،جن میں اصفہان میں واقع ڈرون بنانے والی فیکٹری پر حملہ بھی شامل ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ پاکستانی حکومت نے ہمسایہ برادر اسلامی مملکت پراسرائیل کی طرف سے جارحانہ کارروائی پر مذمت تک نہیں کی تھی۔پاکستانی عوام حیران ہیں کہ کیایہ خاموشی اسرائیل کے لئے نرم گوشہ ہے یا امریکہ کا خوف یا دونوں! عام آدمی بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہے۔
ترکی، شام اور دیگر ممالک میں آنے والا شدید زلزلہ اور اس کے نقصانات نے انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا ہے، ترکی کے کئی صوبوں میں عمارتیں مکمل طور پر منہدم ہو گئیں۔ ہزاروں انسان ملبے کے نیچے دب کر اپنی زندگی کو بیٹھے ہیں۔ اسی طرح شام میں بھی یقینا بہت نقصانات ہوئے ہیں۔زلزلہ متاثرین کے افواج پاکستان، میڈیکل اور ریسکیو اداروں کی کاوشیں قابل تعریف ہیں۔
ان حالات میں پاکستان کے سیاسی سماجی مذہبی رہنماؤں اور سرمایہ داروں سے اپیل ہے کہ حکومت کے ساتھ تعاون کریں۔ اور معاشی بحران سے نکلنے کا 10سالہ پروگرام تشکیل دیا جائے جس کی ترجیحات صرف عوام ہوں۔میری تجویز ہے کہ اس پروگرام میں زراعت پر زیادہ سے زیادہ توجہ دے کر انسانی غذائی ضروریات میں پاکستان کو خود کفیل ہونے کا فارمولا دینا چاہئے۔ اسی طرح گیس بجلی پیٹرول کو بھی عام لوگوں کی دسترس میں دینے کا پروگرام دیا جائے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں، جب غریب لوگ روٹی کی تلاش میں سرمایہ داروں کے محلات پر حملہ آور ہوں گے! اللہ نہ کرے کہ وطن عزیز میں سری لنکا جیسے حالات ہوں، لیکن حقائق بتاتے ہیں کہ سرمایہ داروں، صنعتکاروں، بیوروکریسی اور سیاستدانوں نے اپنی آسائشوں کا تو خیال کیا مگر غریب ان کی ترجیحات میں کہیں نظر نہیں آتا۔ملکی اوربین الاقوامی حالات کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے عوام سے التماس کرتا ہوں کہ وہ انتخابات میں مضبوط کردار کے حامل، محب وطن افراد کو چنیں جو عام لوگوں کی مشکلات کو دور کرنے کا پروگرام رکھتے ہوں۔محض دعوے کرنے والے اور جھوٹے خوابوں کی لوریاں دینے والے نہ ہوں۔