ڈیکوریشن پیس ۔۔۔

ڈیکوریشن پیس ۔۔۔
ڈیکوریشن پیس ۔۔۔

  

’’کمال ہے ماہم تم ابھی تک تیار نہیں ہوئیں تمھیں پتہ بھی ہے کہ جنید صاحب وقت کے کتنے پابند ہیں میٹنگ کا ٹائم بھی ان سے کتنی مشکل سے اور بالکل مختصر ملا ہے اور پھر میں نے ان سے وعدہ بھی کیا ہے  کہ اپنی بیگم کو بھی لے کر آؤں گا ۔۔‘‘

’’میں آپ کی روز روز کی میٹنگ سے تنگ آ گئی ہوں آپ کی کاروباری ڈیلز یہ پارٹیاں یہ لوگوں سے ملنا ملانا پلیز تابش میں اتنی سوشل نہیں ہوں آپ سمجھنے کی کوشش کریں ۔‘‘

ماہم نے بد دلی سے زیورات نکالتے ہوئے کہا "میں سمجھنے کی کوشش بعد میں کر لوں گا تمھارے چکر میں میری ڈیل ہی ہاتھ سے نہ نکل جائے جنید صاحب کے پاس میرے علاوہ اور بھی بہت سے آپشن ہیں۔ ‘‘ 

یہ روز کی روٹین بن گئی تھی کہ ماہم کو شادی کے بعد سے ہی سماجی تقریبات میں شرکت کرنا پڑتی تھی چاہتے نہ چاہتے ہوئے اسے بھی بزنس ڈیل کا حصہ بنا دیا جاتا تھا ۔۔کٹی پارٹیز ، پارلر، جم اور ڈائٹنگ اس سب سے اب وہ بہت تنگ آ چکی تھی ۔۔

شادی کو 2 سال ہوئے تھے لیکن تابش کا فیملی بنانے کی طرف کوئی رحجان نہیں تھا  بلکہ وہ ہر وقت اپنے کیرئیر اور کاروبار کا رونا ہی روتا رہتا تھا ۔ 

ماہم حیران ہوتی تھی کہ یہ وہی تابش ہے جو اس سے اتنی محبت کے دعوے کرتا تھا اسکی ایک جھلک دیکھنے کے لئے دفتر کے باہر گھنٹوں رکا رہتا تھا اورصبح شام فون پر ڈھیروں باتیں کرتا تھا ۔۔

سب گھر والوں کو تابش بہت اچھا تو نہیں لیکن بہتر لگا تھا تاہم بڑے بھائی اور ابا کا ووٹ اسکی طرف بالکل نہیں تھا ۔۔وہ ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ بیٹا مانا کہ تابش معاشی اعتبار سے کافی بہتر ہے رکھ رکھاؤ میں بھی ٹھیک لگتا ہے لیکن ایسا لگتا ہے جیسے  یہ سب کامیابیاں اس نے شارٹ کٹ کے ذریعے ہی حاصل کی ہیں لگتا ہی نہیں کہ وہ سیلف میڈ ہے ۔۔بھابھی کے بقول وہ ایک لالچی انسان تھا ۔۔

اور ماہم کی خوبصورتی سے متاثر تھا جسے وہ کیش کروانا جانتا تھا ۔۔درحقیقت ایسا ہی تھا شادی کے 2 سال میں ہی تابش کا اصل روپ سامنے آ گیا تھا ۔۔

تابش کے ساتھ مختلف پارٹیز میں جا کر وہ سہولت محسوس نہیں کرتی تھی بلکہ مردوں کی غلیظ نگاہیں ہر دم اسے ہراساں کر دیتی تھیں ۔۔

تمھاری بیگم تو بھئی بہت خوبصورت ہیں تابش کہاں چھپا کر رکھا تھا انھیں ؟ ایسا کرو فائنل ایگریمنٹ بھی ان کی موجودگی پر ہی رکھ لیتے ہیں 

شاید ایک 2 مرتبہ ہماری بھابھی جان کو پھر آنا ہو تمھارے ساتھ ‘‘ 

جنید صاحب معانی خیز انداز میں مسکراتے ہوئے بولے ۔تابش نے اگلے ہفتے پھر جنید صاحب سے ملنے کے لیے کہا تو ماہم ہتھے سے اکھڑ گئی " مجھے آپ کا وہ دوست ہرگز پسند نہیں بہانے بہانے سے میرے قریب آنا چاہتا اور چھونا چاہتا ہے اسکی نگاہیں کتنی غلیظ ہیں اوربرامت مانیں آپ کے تقریباً سب دوست ہی ایسے ہیں ۔۔آپ نے آخر مجھے سمجھ کیا رکھا ہے؟ "

’’تمھیں چلنا ہو گا اور یہ سب تمھیں شادی سے پہلے سے ہی معلوم تھا کہ میں سماجی طور پر بہت ایکٹو ہوں ۔۔تم سب کچھ جانتی تھیں پھر بھی تو مجھ سے شادی کی ۔۔‘‘

’’ہاں مجھ سے آپ کے انتخاب میں غلطی ہو گئی ؟میری جگہ اگر آپ کی بہن ہوتی تو تو کیا تب بھی ایسے ہی اصرار کرتے ؟ نہیں ناں ۔۔

’’خبردار میری بہن کا نام بھی اپنی زبان پر مت لانا وہ ایک گھریلو عورت ہے ۔۔‘‘   تابش غصے سے غرایا ۔ "

’’اچھا تو آپ نے مجھ جیسی گھریلو عورت کو بھی تو سوشل بنا دیا  اور بہن کے وقت آپ کی غیرت جاگ گئی ۔۔آپ نے آخر مجھ سمجھ کیا رکھا ہے ؟ میں ایک جیتی جاگتی انسان ہوں خدارا مجھے جینے دیں " ماہم رو دینے کے قریب تھی

ماہم کی ان باتوں نے تابش کے گھناؤنے روپ کو آشکار کر دیا "ہاں ہاں میں نے جان بوجھ کر تم سے شادی کی وقتی طور پر میں تمہاری محبت میں گرفتار ہوا لیکن جانتی ہو تمھیں ساتھ رکھنا میری مجبوری ہے سب کا سب کاروبار کا بوجھ تمھاری خوبصورتی نے سنبھال رکھا ہے ۔۔سننا چاہتی ہو تو سن لو مجھے لڑکیوں کی کوئی کمی نہیں تھی لیکن تمھارا بھولپن مجھے بھا گیا اور سادہ اور آسان لفظوں میں سمجھ لو کہ تم ایک ڈیکوریشن پیس ہو ۔ایک شو پیس جس کی خوبصورتی معصومیت اور اداؤں کے پیچھے میری سب نالائقی چھپ جاتی ہے ۔۔‘‘

’’تم اتنے گھٹیا ہو گے تابش میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔تم نے مجھے دھوکہ کیوں دیا ؟ میں نے تو تم سے سچی محبت کی تھی ؟

 ’’سچی محبت " یہ سب افسانوی باتیں ہیں تمھیں بھی میرا لائف سٹائل پسند تھا میری امارت ، میری وجاہت سب چیزوں سے تم متاثر ہوئیں ۔۔اب دروازہ کھلا ہے جانا چاہو تو چلی جاؤ رکنا ہو تو زندگی کے اس سفر میں میرا ساتھ ایسے ہی دینا ہو گا  ۔‘‘

’’تم مجھے کیا چھوڑو گے میں خود تمھیں چھوڑ کر جا رہی ہوں2سال میں نے مصنوعی زندگی گزار لی اور اب تو تم نے خود اقرار کر لیا کہ تم مجھے ڈیکوریشن پیس سمجھتے ہو ماہم نے آنسو پیتے ہوئے کہا اور ایک شو پیس کی جگہ دوسرا شو پیس سجانا تمھارے لئے مشکل نہیں ۔ خلع کے پیپرز تمھیں جلد ہی مل  جائیں گے ۔ ‘‘ 

تابش کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ ماہم نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا اور قدم باہر کی جانب بڑھا دئیے ۔۔

نوٹ : یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

مزید :

بلاگ -