زیادہ تر کاروبار پر میمن اور بوہری تاجروں کی اجارہ داری تھی،بولٹن مارکیٹ کے آس پاس گلیوں کی قدیم عمارتوں میں چھوٹے چھوٹے فلیٹ ہوا کرتے تھے

زیادہ تر کاروبار پر میمن اور بوہری تاجروں کی اجارہ داری تھی،بولٹن مارکیٹ کے ...
زیادہ تر کاروبار پر میمن اور بوہری تاجروں کی اجارہ داری تھی،بولٹن مارکیٹ کے آس پاس گلیوں کی قدیم عمارتوں میں چھوٹے چھوٹے فلیٹ ہوا کرتے تھے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:52
 ریگل چوک سے شروع ہو کر اورپریڈی تھانے کے سامنے سے گزر کر پریڈی سٹریٹ بندر روڈ سے آ ملتی تھی۔ بندر روڈ پر چڑھ کر بائیںطرف کو مڑیں تو یہ سڑک نیٹی جیٹی پل کی طرف چلی جاتی تھی ۔ بندر روڈ چونکہ کراچی کی ایک اہم قدیم اور مرکزی سڑک تھی اس لیے پرانے وقتوں کی زیادہ تر آبادیاں، بستیاں اور کچھ تاریخی مقامات اسی پر واقع تھے۔ہم ان کا مختصر جائزہ لیتے ہوئے آگے بڑھتے جائیں گے اور حسب روایت کہیں رکنا پڑا تو رک بھی جائیں گے ۔ ٹھہرنے پر کون سا کوئی پابندی ہے!
بندر روڈ پر چڑھتے ہی سامنے سڑک کے اس پار ماما پارسی گرلز سکول ہوتا تھا جو تاریخی اہمیت کا حامل اور بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔کچھ ہی آگے جا کر کراچی کی مشہور جامع کلاتھ مارکیٹ آتی تھی۔اس کے ساتھ ہی دائیں طرف نہ صرف کراچی بلکہ پاکستان کا اعلیٰ ترین ڈاؤ میڈیکل کالج تھا جس کے آس پاس کراچی کی پرانی آبادیاں تھیں اور یہیں کراچی کا لنڈا بازار ،جسے یہاں کے لوگ جونا مارکیٹ بھی کہتے تھے ، موجود تھا۔ یہ پاکستان میں استعمال شدہ کپڑوں اور دوسری گھریلو اشیاءکا سب سے بڑا بازار تصور کیا جاتا تھا ۔یورپ اور امریکہ سے یہاں سینکڑوں کے حساب سے استعمال شدہ کپڑوںکی گانٹھیں آتی تھیں۔ کچھ مال تو یہیں کھپ جاتا تھا، لیکن زیادہ کپڑے اندرون ملک دوسرے شہروں کو بھیج دئیے جاتے تھے ، جہاں شدید سردی کی وجہ سے گرم کپڑوں کی بہت مانگ رہتی تھی ۔
ڈاؤ میڈیکل کالج کے آس پاس کی گلیوں میں دہلی والوں کے چند بڑے مشہور ریسٹورنٹ کھلے ہوئے تھے ، جن کے عجیب و غریب نام رکھے گئے تھے ۔ ان کے بیچ اچھے کھانے خصوصا ًمزیدار قورمہ اور بھناہوا قیمہ بنانے کا مقابلہ چلتا رہتا تھا ۔ ان میں2 نام تو زبان زد عام تھے جن کی آپس میں ٹھنی رہتی تھی ۔ گاہکوں کے اعتماد کو درہم برہم کرنے اور انہیں جل دینے کی خاطر انہوں نے نام بھی ملتے جلتے رکھے ہوئے تھے، یعنی ایک کا نام ”دہلی مسلم ہوٹل “ تھا تو دوسرے نے ”دہلی مسلم کالی ہوٹل“ رکھا ہواتھا ۔ ان کی کاروباری رقابت اس بات پر ہوتی تھی کہ کون اچھا قورمہ یا قیمہ بناتا ہے اور کس کی مانگ زیادہ ہے۔
تھوڑا آگے بائیں طرف کو ذرا ہٹ کر کراچی کا مشہور ہندو مندر سوامی نارائن تھا۔ کچھ اور چلنے پر ایک با ر پھر دائیں طرف کو ذرا اوراندر کی طرف کراچی کی ایک اور تھوک کی مشہوربولٹن مارکیٹ آجاتی تھی ۔یہاں ہر طرح کے استعمال کی تقریباً سب ہی چیزیں گاہک کی مانگ کے مطابق مل جاتی تھیں۔ نہ صرف کراچی بلکہ پاکستان کے دوسرے شہروں کے سارے دکاندار یہیں سے اپنا مال اٹھاتے تھے۔ زیادہ تر کاروبار پر میمن اور بوہری تاجروں کی اجارہ داری تھی۔ یہ سارا علاقہ مجموعی طور پر کھارادر کہلاتا تھا ۔یہاں بہت ہی پر رونق اور مصروف بازار ہوا کرتے تھے ۔آس پاس کی گلیوں کی قدیم عمارتوں میں چھوٹے چھوٹے فلیٹ ہوا کرتے تھے جن میں زیادہ تر میمن اور کچھی برادری کے خاندان آباد تھے۔ اس کے علاوہ کچھ دوسری قومیتوں کے لوگ بھی قیام پذیرتھے۔ اس وقت ایسے مکانوں کا کرایہ تو شاید دس پندرہ روپے ماہوار ہی ہوتا ہوگا لیکن پگڑی ہزاروں میں ہوتی تھی۔ 
یہاں سے باہر نکلتے ہی کراچی کی اس وقت کی سب سے عظیم اور مشہور نیو میمن مسجد آتی تھی، جو بہت وسیع و عریض تھی ۔یہاں لوگ جمعہ اور عیدین کی نماز پڑھنے کے لیے بڑی دور دور سے آتے تھے ۔ یہ عمارت کراچی کے ان امتیازی مقامات میں سے ایک تھی جسے لوگ دیکھنے کی خواہش کیاکرتے تھے ۔ یہ بلا شبہ ایک وسیع و عریض اور خوب صورت مسجد تھی جس پر اہلِ نگر کو بڑا ہی ناز تھا۔
اسی مسجد کے پاس تھوڑا سا آگے چل کر مغرب کی طرف کراچی کی ایک اور تاریخی عمارت تھی جس کا نام آتے ہی اپنے عظیم قائد کے لیے عقیدت اور احترام کی جذبات آ جاتے ہیں۔ یہ وزیر مینشن تھی۔ قائداعظم یہیں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے تھے ۔ قریب ہی بندر روڈ کے اُس پار ان کی مادر علمی یعنی سندھ مدرسةالاسلام تھا ، جہاں انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔ وزیر مینشن کو بعد ازاں قائد کی یاد میں ایک عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا تھا ، جہاں ان سے متعلق اور ان کے زیر استعمال رہنے والی اشیاءکی نمائش کی گئی تھی۔ یہاں بھی قائد سے محبت اور عقیدت رکھنے والوں کا ایک تواتر سے آنا جانا لگا رہتا تھا ۔ سندھ مدرسةالاسلام کو اب ایک یونیورسٹی بنا دیا گیا ہے، جہاں سے بے شمارطلباءزیور تعلیم سے آراستہ ہو کر نکلتے ہیں ۔ 
 بندر روڈ پرکچھ اور آگے نکل جائیں تو یہاں ایک بار پھر وہی میری ویدر ٹاور آجاتا ہے جہاں میکلوڈ روڈ اس سے آن کر ملا تھا ۔ گویا ایک بارپھر ہم اسی مقام پر آگئے جس پر دوسرے راستے یعنی میکلوڈ روڈ کی طرف سے سفر کرتے ہوئے پہنچے تھے ۔ 
ادھرسے کچھ ہی دور آگے دائیں طرف ”کے پی ٹی“ بلڈنگ اور سامنے نیٹی جیٹی کا مشہور پل آتا ہے جس کی اپنی ہی ایک تاریخ اور اہمیت ہے۔ یہ پل سمندر کے ایک ذیلی حصے پر بنا ہوا ہے جس کو پار کرکے کراچی کی بندر گاہ کیماڑی پہنچا جا تا تھا۔ ( جاری ہے ) 
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )

مزید :

ادب وثقافت -