سکندر اعظم کی وفا ت کے بعد اہلِ ایتھنز ارسطو کی جان کے دشمن بن گئے،بے دینی اور بد کرداری جیسے الزامات بھی لگائے

مصنف:لطیف جاوید
قسط:21
ارسطو(Aristotle )
یونانی فلسفہ کے دورِ عروج کا آخری فلسفی شہنشاہ ارسطو ،سٹاجیرا(Stagira) کے شہر میں پیدا ہوا۔اِس کا باپ مقدونیہ کے حاکم نکو میکس کا شاہی طبیب تھا۔ارسطو نے بچپن میں اپنے باپ سے طِب اور جراحت سیکھی۔18 سال کی عمر میں وہ ایتھنزآیا۔ افلاطون کا شاگردبنا اور اسکی اکیڈمی میں داخل ہوا۔ وہ افلاطون کا مکالمات کی تدوین میں معاون رہا۔افلاطون کی وفات تک ایتھنز میں ہی رہا اور پھر ایشیائے کوچک چلا گیا۔ سکندرِ ِ اعظم کے باپ شاہ فلپ نے اسے سکندر کا معلم مقرر کر دیا۔شاہ فلپ کی وفات کے بعد جب سکندر مقدونیہ کا حاکم بنا تو ارسطو واپس ایتھنز آگیا۔ لائیسم (Lysium)کے مقام پر ایک اکیڈمی قائم کی۔13 سال اِس اکیڈمی کا سربراہ رہا۔یہی دور ارسطو کا تحقیقی اور تخلیقی کام کرنے کا ہے۔ وہ اپنے لیکچر کے دوران ٹہلتا رہتا تھا اِس لئے اِس اکیڈمی کا نام ’ مشائی درس گاہ ‘ پڑ گیا تھا۔
سکندراعظم کی اچانک وفات کے بعد دیگر ریاستوں کی طرح ایتھنز میں بھی سکندر کے خلاف لوگو ں کے جذبات بھڑک اٹھے۔ارسطو کو بھی ان مظالم کا موردِ الزام ٹھہرایا گیا جوسکندر نے ان لوگوں پر ڈھائے تھے۔ اہل ِ یونان سکندر اعظم اور اسکے خاندان سے سخت نفرت کیا کرتے تھے کیونکہ یہ ریاست مقدونیہ کے رہنے والے تھے اور زبردستی یونان پر قابض تھے۔ سکندر بہت ظالم،متکبر اوراِنسان دشمن حکمران تھا۔ارسطو سکندر کا پہلے اتالیق ، پھرمشیر رہا تھا اور یہ بھی مقدونیہ کا ہی رہنے والا تھا۔ اس لئے سکندر کی وفا ت کے بعد اہل ِ ایتھنز اِس کی جان کے دشمن بن گئے۔ اِس پر بے دینی یعنی دیوتاؤں کے انکاراور بد کرداری کا الزام لگا۔یہ عظیم فلسفی اپنی جان بچانے کی خاطر ایک رات ایتھنز سے بھاگ کراپنے ننھیالی شہر ’ کال کس (Chalcis) ‘چلا گیا۔ اِس کے اعزاءواقارب نے تو اِس کی بہت آؤبھگت کی لیکن یہ اداس اور افسردہ رہنے لگا۔ اسے اپنے احباب ،شاگرد ،درسگاہ،کتب خانہ اور اپنا سازو سامان بہت یاد آتا تھا،جو وہ ایتھنز میں چھوڑ آیا تھا۔ کچھ ہی عرصہ بعد اِس پر کسی ناگہانی مرض کا حملہ ہوا اور وہ جانبر نہ ہوسکا۔ آسمانِ فلسفہ کا درخشندہ ستارہ 63سال کی عمر میں یوں ڈوبا کہ یونانی فلسفہ کا آفتاب بھی سر نگوں ہو نا شروع ہو گیا۔
۰ نظریات
ارسطو کا فلسفہ بنیادی طور پرو ہی تھا جو سقراط کا تھا اور افلاطون کی معرفت اِس تک پہنچا تھا۔ وہ یہ کہ عقل کو عقیدہ پر اور روح یا ذہن کو مادہ پر برتری حاصل ہے۔علم کے حصول کا ذریعہ حواسی ادراک نہیں عقل ہے۔ تفصیل میں جاتے ہوئے وہ بعض مقامات پر افلاطون سے بھی اختلاف کرتا ہے۔
۰ ارسطو کی تصانیف: ارسطو کی تصانیف کی فہرست بڑی وسیع ہے۔ایک جھلک ملاحظہ ہو۔اِس نے منطق پر5کتابیں تحریر کیں۔فزکس پر8کتابیں۔میٹافزکس پر1 کتاب۔موسمیات پر4 کتابیں۔ علمِ ہیئت پر 4 کتابیں۔ کائنات کی ابتداءاور انتہا پر 2 کتابیں۔حیوانوں کے اعضاءپر 4 کتابیں۔ جانوروں کی ابتداءپر5 کتابیں۔ اخلاقیات پر 10 کتابیں۔ سیاسیات پر 8 کتابیں۔فصاحت و بلاغت پر3 کتابیں۔ فنِ شاعری پر3 کتابیں لکھیں۔
۰ اس کے علاوہ علم ِ کائنا ت اور نباتات ، جانوروں کے ارتقاء،جانوروں کی حرکات ،خوابوں ،اور روح کی حقیقت پر بھی کتابیں اور رسائل تحریر کئے۔
۰ کہا جاتا ہے کہ بعض کتا بیں ا رسطو کی نہیں لیکن اس کی طرف منسوب کر دی گئی ہیں لیکن یہ کوئی انوکھی بات نہیں اِنسانی معاشرے میں ہرمعروف آدمی کے ساتھ یہی کچھ ہو رہا ہے۔ ( جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔