غریبوں کی بستیوں میں غیر قانونی اور غیر اخلاقی چیزوں کی بھرمار تھی،میرے بنجر دماغ کے لیے یہ باتیں غیر اہم تھیں

 غریبوں کی بستیوں میں غیر قانونی اور غیر اخلاقی چیزوں کی بھرمار تھی،میرے ...
 غریبوں کی بستیوں میں غیر قانونی اور غیر اخلاقی چیزوں کی بھرمار تھی،میرے بنجر دماغ کے لیے یہ باتیں غیر اہم تھیں

  

مصنف : میلکم ایکس( آپ بیتی)

ترجمہ :عمران الحق چوہان 

قسط :29

 ہارلم میں ہر رات میں کوئی ایک نئی جگہ دریافت کرتا۔ سب سے پہلے میں نے YMCA میں کمرہ کرایہ پر لیا کیونکہ یہ سمال پیراڈائیز کے قریب ہی تھا۔ پھر میں نے مسز فشرز میں ایک زیادہ سستا کمرہ لے لیا زیادہ تر ریلوے کے آدمی یہی ٹھہرتے تھے۔ میں نے ناصرف بارونق علاقے دیکھنے شروع کیے بلکہ ہارلم کے بہترین سے بدترین رہائشی علاقے بھی دیکھے۔ شوگر مل سے پولوگراﺅنڈز تک بہت سے معروف لوگوں کی رہائشیں تھیں اور ان سے پرے غریبوں کی بستیاں تھی۔ جہاں غیر قانونی اور غیر اخلاقی چیزوں کی بھرمار تھی۔ گندگی کوڑے کرکٹ سے بھرے ہوئے ڈبے شرابی، نشہ باز، بھکاری گندے شراب خانے، گرجا گھر جن کے باہر دکانیں تھی اور گھر کے پکے کھانوں والے ریسٹورانز تھے۔ چیزیں گروی رکھنے والی دکانیں، دھوئیں سے بھری بیوٹی شاپس جہاں کالی عورتیں اپنے بال سیدھے کروانے آتیں اور کونک ایکسپرٹ حجام کی دکانیں تھیں۔ کبھی کبھی نئی اور سیکنڈ ہینڈ کیڈی لاکس بھی دوسری کاروں کے درمیان کھڑی نظر آتی تھیں یہ سب کچھ راکس بیری اور لان سنگ جیسا ہی تھا مگر اس سے ہزاروں گنا بڑا، چھوٹے تہہ خانے جنہیں ڈانس ہالز میں بدل دیا گیا تھا جن کے باہر "For Rent" لکھا ہوا تھا۔ لوگ چھوٹے چھوٹے کارڈز کے ذریعے "Rent Raising Parties" کی تشہیر کرتے۔ ایک مرتبہ میں بھی وہاں گیا تیس چالیس کالے چھوٹے سے کمرے میں ٹھساٹھس بھرے ہوئے تھے جو پسینہ میں تر، کھانے پینے ناچنے اور جوئے میں مصروف تھے ریکارڈ پلیئر پوری آواز سے بج رہا تھا۔ تلا ہوا مرغ آلوﺅں کے سلاد وغیرہ کے ساتھ1 ڈالر فی پلیٹ کے حساب سے مل رہا تھا اور بیئر کا ڈبہ یا شراب کا گلاس 50 سینٹ میں ، کالے اور گورے کنویسرز آپ کے ساتھ بیٹھے آپ کو ”ڈیلی ورکر“ خریدنے پر قائل کرتے۔ اس اخبار کے متعلق افواہ تھی کہ اس کا تعلق روس کے ساتھ ہے لیکن میرے بنجر دماغ کے لیے ان دنوں یہ باتیں غیر اہم تھیں۔

 نیویارک میرے لیے جنت اور ہارلم جنت الفردوس تھا بہت جلد علاقے کے شراب خانوں والے مجھے پہچاننے لگے۔ جونہی میں دروازے سے اندر داخل ہوتا تو وہ میری پسندیدہ شراب "Bourbon" گلاس میں ڈالنا شروع کر دیتے۔ انہوں نے مجھے ریڈ کہہ کر بلانا شروع کر دیا جو میرے سرخ بالوں کی وجہ سے تھا۔ اب میں کونک کروانے کے لیے بوسٹن میں ایبٹ اینڈ فوگی نامی دکان پر جاتا تھا جو موسیقی کے شعبے سے وابستہ میرے دوستوں کی رائے میں بہترین کونک شاپ تھی۔

 اب میرے دوستوں میں ”ڈیوک ایلنگٹن“ کے بینڈ کا عظیم ڈرمر ”سونی گریٹر“ اور وائلن کی عظیم شخصیت ”رے نینسی“ شامل تھے اور اسی طرح کے دیگر موسیقار میرے دوست بن گئے۔

 وہ سینڈوچ مین جس کی جگہ میں کام کر رہا تھا واپس آیا تو اسے ایک دوسری ٹرین پر کام دے دیا گیا۔ اس نے سینئر ہونے کا دعویٰ کیا لیکن میرے سیل ریکارڈ نے افسروں کو مجبور کر دیا کہ وہ اس کی شکایت کسی اور طرح دور کر دیں۔ بیرے اور باورچی مجھے سینڈوچ ریڈ کے نام سے بلانے لگے تھے۔ شروع شروع میں وہ آپس میں شرطیں لگایا کرتے تھے کہ میرے جیسا بدزبان، بدتمیز کالا زیادہ دیر نوکری میں نہیں ٹکے گا۔ میں گاہکوں کے علاوہ اپنے ساتھیوں سے بھی گالی گلوچ کرتا تھا۔ ایک بار نشے میں دھت ایک گورے نے میرا راستہ روک کر اونچی آواز میں کہا ”او کالے میں تم سے لڑنا چاہتا ہوں“ میں ہنسا اور اس سے کہا یقیناً میں لڑوںگا لیکن تم نے کپڑے بہت زیادہ پہن رکھے ہیں۔ اس نے بڑا فوجی اوور کوٹ پہن رکھا تھا جو اس نے اتار دیا لیکن میں ہنستا رہا اور یہی کہتا رہا کہ اس نے اب بھی زیادہ کپڑے پہن رکھے ہیں وہ اپنے کپڑے اتارتا گیا حتیٰ کہ پینٹ سے اوپر اس کے جسم پر کوئی کپڑا نہ رہا۔ ساری گاڑی کے لوگوں قہقہے لگا رہے تھے۔ کچھ دوسرے فوجیوں نے اسے میرے راستے سے ہٹا دیا۔ کاش میں اس گورے کو ذہن کے علاوہ جسمانی طور پر بھی سزا دے سکتا، اس زمانے کے وہ باورچی اور بیرے جو”نیوہیون لائنز“ میں کام کرتے تھے آج بھی بوڑھے پیپی کزنز کو نہیں بھولے ہونگے۔ وہ ایک گورا تھا جو وسکی اور ہر شخص سے محبت کرتا تھا حتیٰ کہ مجھ سے بھی۔ بہت سے لوگوں نے اس سے میری شکایت کی مگر اس نے توجہ نہ دی صرف بوڑھے کالے ملازموں سے کہتا اسے سمجھاﺅ“ اسے کوئی نہیں سمجھا سکتا وہ جواباً کہتے۔( جاری ہے )

نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

ادب وثقافت -