ارشد بٹ: ایک روشن خیال نظریاتی صحافی کا درد ناک انجام

ملتان پریس کلب میں کوئی ایک تو ایسا ہوتا تھا جس کے نظریاتی ہونے کا ہمیں آنکھیں بند کر کے یقین تھا۔ جیسے ہمیں خود پر یقین ہوتا ہے اور کبھی کبھی توخود پر بھی اب یقین نہیں ہوتا کہ ہمیں کبھی کبھی زمانہ ساز ہونا پڑ جاتا ہے۔ کوئی ایک تو ایسا تھا جس کے بارے میں ہم اتنا ضرور جانتے تھے کہ جب ہم پریس کلب میں اس کے سا تھ بیٹھیں گے تو وہ ہمارے ساتھ ڈھنگ کی بات کرے گا۔ کبھی کبھار ہی سہی لیکن ہم وہاں اس لیے بھی جاتے تھے کہ کوئی ایسا شخص وہاں موجود ہو گا جس کو تاریخ کا علم ہوگا، جس کو سیاست کے اتار چڑھاؤ کا علم ہوگا۔ جس نے بہت سی کتابیں پڑھ ر رکھی ہیں۔ جس نے سیاسی تحریکوں میں حصہ لیا، طالب علموں کے جلسوں اور جلوسوں میں ایشیاء سرخ ہے کے نعرے لگائے جماعت اسلامی کے کارکنوں کا مقابلہ کیا۔جو این ایس ایف کا حصہ رہا۔ حبیب اللہ شاکر صاحب کے ساتھ جس کی دوستی تھی۔ اور جو پیپلز پارٹی سے کچھ حاصل کیے بغیر اس کے نعرے لگاتا تھا۔ جو بلاول اور بینظیر بھٹو کو اپنا لیڈر مانتا تھا۔ہم ان کے ہوتے یہ سوچ کر بھی پریس کلب جاتے تھے کہ وہاں کوئی توایسا ہوگا جو ہمیں ترقی پسند سیاست کے ماضی سے روشناس کرائے گا۔ہمیں یہ سب کچھ ارشد بٹ صاحب بتاتے تھے۔۔ گورا چٹا رنگ سر پر مخصوص کیپ پہنے ہوئے وہ کنٹین کے باہر کبھی تنہا اور کبھی دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوتے تھے۔ وہ ملتان پریس کلب کے مستقل اراکین میں شامل تھے۔ ہجوم میں وہ رہتے نہیں تھے کہ ان کی باتیں سمجھنے والے بھی کم تھے۔ کارکن صحافی تھے۔ مشکل وقت ہی کاٹا انہوں نے لیکن کبھی دست سوال دراز نہ کیا۔ وہ ایک روشن خیال اورنظریاتی دوست تھے۔ وہ بہت اچھے رپورٹر تھے۔ مختلف سرکاری اداروں اور محکموں میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ میرا ان کے ساتھ نذر عباس بلوچ اور غضنفر شاہی صاحب کے حوالے سے بھی محبت اور دوستی کا رشتہ تھا۔ انہوں نے خود داری کے ساتھ ساتھ ستھری سیاست کی اوراسی لیے کسمپرسی کا شکار رہے۔ پریس کلب کے الیکشن کے دنوں میں وہ انتخابی مہم میں ہمارے ساتھ چلتے تھے شاہی صاحب اور نذر بلوچ کے ساتھ ان کی دوستی کی بنیاد بھی این ایس ایف اور ترقی پسندی تھی۔۔۔ بعض اوقات ہمیں پتا ہوتا تھا کہ ہم نے شکست کھانی، ہم نے ہار جانا ہے لیکن پھر بھی ہم میدان میں آ جاتے۔ پھر جب بٹ صاحب ساتھ ہوتے تھے تو ہمیں حوصلہ ہوتا تھا بٹ صاحب اپنی وضع کے انسان تھے سچے کھرے نفع نقصان کے بغیر بات کرنے والے بات سننے والے۔ وہ بعض سیاست دانوں کے بارے میں کھل کر بات کرتے تھے آمریت سے نفرت اور جمہوری رویوں سے محبت کرنے والے۔ لے پالک سیاست دانوں کے مخالف۔ ارشد بٹ 13 مارچ 1960ء کو ملتان میں پیدا ہوئے اور اپنے جنم دن پر ہی انہوں نے اس دنیا کو خیر باد کہا وہ گزشتہ تین ماہ سے پھیپھڑوں، گردوں کے امراض میں مبتلا تھے۔ مرحوم ارشد بٹ مرحوم روزنامہ نیادور،روزنامہ اوصاف،روزنامہ جہان پاکستان سمیت ملتان کے مختلف قومی و مقامی اخبارات میں بطور سینئر رپورٹر خدمات سر انجام دیتے رہے۔ زمانہ طالب علمی میں وہ این ایس ایف اور دیگر ترقی پسند جماعتوں کے ساتھ وابستہ رہے۔ نظریاتی طور پر وہ پیپلز پارٹی کے جیالے تھے۔ 1996ء میں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق جج حبیب اللہ شاکر جب ایم پی اے کے امیدوار تھے تو اس موقع پر ارشد بٹ ان کی انتخابی مہم بھر پور انداز میں چلاتے رہے تھے۔ سابق وزیر اعظم اور چیئر پرسن پاکستان پیپلز پارٹی محترمہ بے نظیر بھٹو جب بھی ملتان کے دورے پر آتیں، ارشد بٹ سے ملاقات کرتی تھیں۔
13 مارچ کو صرف ارشد بٹ صاحب نہیں گئے ایک اور روشن خیال اپنے ساتھ بہت سی روشنی بھی لے گیا۔وہ اپنے ساتھ بہت سے دکھ اور اذیت کے کئی عشرے بھی لے گئے اور اصولوں پر ڈٹے رہنے والوں کو یہ درس بھی دے گئے کہ روشن خیالی سے پیٹ نہیں بھرتا۔ ایک دوست نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو مطلع کریں کہ ان کا جیالا اور قلم کا مزدور چلا گیا ہے اس کی زندگی میں تو انہوں نے کچھ نہ کیا اب اس کے جانے کے بعد ہی اس کی خدمات کا اعتراف کر لیں۔ اب میں کیا جواب دیتا اپنے اس دوست کو۔ بس یہی کہہ سکا کہ زندگی بھر دکھ جھیلنے والے ارشد بٹ کے جانے کے بعد ہمیں حکمرانوں کو متوجہ کر کے بٹ صاحب کو مزید دکھ نہیں دینا چاہیے۔ہاں البتہ جیالوں کو یہ خبر ہو کہ ایک روشن خیال، نظریاتی صحافی درد ناک انجام کو پہنچا۔تیرہ مارچ تیرہ شبی میں اضافہ کر گیا۔