بڑھتی ہوئی دہشت گردی: چند مشورے

  بڑھتی ہوئی دہشت گردی: چند مشورے
  بڑھتی ہوئی دہشت گردی: چند مشورے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں یوں تو کبھی کم نہیں ہوئیں، لیکن حالیہ چند مہینوں میں ایسے واقعات اور سانحات کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا ہے اور پچھلے کچھ عرصے کے دوران جعفر ایکسپریس کو اغوا کرنا دہشت گردی کی بڑی وارداتوں میں سے ایک ہے۔ اس سانحہ کے تناظر میں پہلے شنیدتھی کہ آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے گی لیکن پھر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلا لیا گیا۔ اس اجلاس میں کیے گئے فیصلے بلا شبہ بہت اچھے ہیں اور دور رس اثرات و نتائج کے حامل ہو سکتے ہیں، شرط ایک ہی ہے کہ ان فیصلوں پر ان کی روح کے مطابق عمل کیا جائے

میرے خیال میں پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی میں کیے گئے فیصلے بالکل ٹھیک ہیں اور ان پر حقیقی طور پر عملدرآمد یقینی بنا لیا جائے تو یہ بات خاصے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہو سکتا ہے، لیکن آگے بڑھنے سے پہلے یہ جائزہ لینا مناسب ہو گا کہ پچھلے 10 برسوں میں نیشنل ایکشن پروگرام یا پلان پر کتنا عمل درآمد کیا اور کتنے نکات پر مناسب پیشرفت نہ کی جا سکی۔ مستقبل میں نیشنل ایکشن پروگرام پر مکمل عمل درآمد کے لئے ان خامیوں، خرابیوں، سقموں اور رکاوٹوں کا جائزہ لینا بھی مناسب ہو گا جن کی وجہ سے اس عرصے میں دہشت گردی کے خلاف بنائے گئے پلان پر پوری طرح عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ سب سے پہلے ان عوامل پر قابو پانا مناسب ہو گا جن کی وجہ سے نیشنل ایکشن پروگرام پر پوری طرح عمل کرنے میں رکاوٹیں پیش آتی رہیں۔

پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے پیچھے کارفرما ایک اور عامل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ عمل یہ ہے کہ دسمبر 1979ء میں سوویت یونین کی جانب سے افغانستان پر حملے کے بعد ہمارے اس ہمسایہ ملک کے لاکھوں افراد کی جانب سے پاکستان اور ایران ہجرت۔ دونوں مسلم ممالک میں اپنے مسلمان بھائیوں اور پڑوسیوں کو کھلے دِل اور دماغ کے ساتھ خوش آمدید کہا گیا تھا۔ یہ بات نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ پاکستان میں دہشت گردی، منشیات اور کلاشنکوف کلچر افغان مہاجرین کی بڑے پیمانے پر اس ہجرت کے بعد ہی آیا۔ ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہوا کہ افغان مہاجرین کو کسی ایک علاقے یا صوبے تک محدود نہ رکھا جا سکا اور وہ نہ صرف پورے ملک میں پھیل گئے،بلکہ انہوں نے یہاں اپنے کاروبار بھی شروع کر لئے اور یہاں اپنی جائیدادیں بھی خرید لیں۔اس کے برعکس ایران نے افغان مہاجرین کو ایک خاص علاقے تک محدود رکھا۔ ایران اور پاکستان میں امن و امان کی صورت حال میں جو فرق پایا جاتا ہے اس کی بنیادی وجہ بھی میرے خیال میں افغان مہاجرین کو محدود رکھنے یا نہ رکھنے کے فیصلوں کی وجہ سے ہے۔

 بہرحال جو ہو چکا سو ہو چکا، اب گزرے ہوئے وقت اور پلوں کے نیچے سے بہہ چکے پانی کو واپس نہیں لایا جا سکتا،لیکن یہ ضرور کیا جا سکتا ہے کہ مزید خرابیوں اور مسائل سے بچا جائے اور اس کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ افغان مہاجرین کو جلد از جلد ان کے وطن واپس بھیج دیا جائے۔ یہ کام دو حوالوں سے ضروری محسوس ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہو چکی ہے اور وہ وہاں کے معاملات کو اپنے مطابق چلا رہی ہے، اس لئے افغان مہاجرین کا واپس جانا ضروری ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ بات اب حکومتی سطح پر پورے وثوق کے ساتھ کی جاتی ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے افغان طالبان کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان کو دی جانے والی حمایت اور امداد کارفرما ہے۔

 پاکستان کی جانب سے افغان حکومت سے بارہا یہ مطالبہ کیا جا چکا ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین پر موجود تحریک طالبان پاکستان کے افراد کو کنٹرول میں رکھے اور اپنی سرزمین سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کو روکے، لیکن دوسری جانب سے ان مطالبات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور ایسا کرتے ہوئے یہ بات پوری طرح نظر انداز کر دی جاتی ہے کہ پاکستان کی جانب سے افغانستان کی متعدد بار بیش قدر مدد کی جاتی رہی ہے، حتیٰ کہ پاکستان پچھلے 45 برسوں سے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے اور لاکھوں افغان مہاجرین کو واپس بھیج دیے جانے کے باوجود پاکستانی سرزمین پر اب بھی مزید لاکھوں افغان مہاجرین موجود ہیں۔پاکستان کے مطالبات کو نظر انداز کرتے ہوئے افغان طالبان کی جانب سے پاکستان کی ان مہربانیوں کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ میرے خیال میں وقت آ گیا ہے کہ افغان مہاجرین کو ان کے وطن واپس بھیجا جائے۔ اس کے دو فائدے ہوں گے:ایک یہ کہ جب یہ لاکھوں افراد واپس افغانستان جائیں گے اور وہاں کی انتظامیہ کو انہیں سنبھالنا پڑے گا اور ان کے اخراجات برداشت کرنا پڑیں گے تو انہیں سمجھ آ جائے گی کہ پاکستان افغانستان اور افغان حکومت کے لئے کیا کر رہا تھا اور کیا کرتا رہا ہے۔ دوسرے یہ بات اب ثابت ہو چکی ہے کہ افغان سرزمین سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں یہاں موجود افغان باشندوں میں سے کچھ سہولت کاری کرتے ہیں۔ جب یہ سب لوگ ان کے اپنے وطن واپس بھیج دیئے جائیں گے تو ظاہر ہے کہ یہ سہولت کاری بھی ختم ہو جائے گی اور اس کا فائدہ پاکستان میں پائیدار امن کے قیام کی صورت میں نکلے گا۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -