سپاٹ فکسنگ۔۔۔شرفاء کا کھیل یا جواریوں کا کلب

سپاٹ فکسنگ۔۔۔شرفاء کا کھیل یا جواریوں کا کلب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سپا ٹ فکسنگ نے پاکستان کرکٹ تباہ کرکے رکھ دی پی سی بی بلند و بانگ دعوؤں کے باوجود بھی اس کاخاتمہ کرنے میں ناکام ثابت ہوا اور ہر مرتبہ دوبارہ سپاٹ فکسنگ نے سر اٹھالیا جس سے پاکستان کرکٹ بورڈ کی نااہلی سامنے آگئی ، کوئی پوچھنے والا نہیں،پاکستان میں سپاٹ فکسنگ کی تاریخ نئی نہیں ہے اب تک بے شمار کرکٹرز جن میں کئی نامور کھلاڑی بھی شامل ہیں اس کا شکار ہوچکے ہیں مگر کاروائی کرنے والے ہمیشہ ہی اپنی سست روی کے باعث اس کا خاتمہ کرنے میں ناکام ثابت ہوئے جس وجہ سے یہ ناسور ختم ہونے کے بجائے دن بدن بڑھتا گیا اور آج بات یہاں پر پہنچ گئی کہ ٹیم کے کئی کھلاڑیوں کا سپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونا عام بات بن گئی ہے ۔اگرماضی کی بات کی جائے تو 1994 ء میں پاکستانی ٹیم کے فاسٹ باؤلر عطاء الرحمان پر پہلی مرتبہ سپاٹ فکسنگ کا الزام عائد کیا گیا تھا مگر پی سی بی اس کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لاسکا جس کی وجہ سے بات دب کر رہ گئی اگر اس وقت ہی اس کے خلاف عملی طورپر کارروائی کرلی جاتی تو شائد آج بات اس حد تک پہنچتی ہی نہیں کہ پوری دنیا میں سپاٹ فکسنگ میں پاکستانی کھلاڑیوں کی وجہ سے بدنامی ہورہی ہے ، عطاء الرحمان نے پہلی مرتبہ 1994 ء میں سپاٹ فکسنگ کی جس کا انکشاف انہوں نے 1998 میں اس وقت کیا جب انہوں نے یہ بیان دیا کہ وسیم اکرم کے کہنے پر یہ کام کیامگر اس کے باوجود وسیم اکرم اور عطا ء الرحمان کافی عرصہ ٹیم کا حصہ رہے اور ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل نہیں لائی گئی جبکہ اس کے بعد 1999 ء میں سابق کپتان اور مایہ ناز بیٹسمین سلیم ملک پر بھی سپاٹ فکسنگ کا الزام عائد ہوا مگر2000 ء میں جسٹس قیوم کی سربراہی میں دونوں کھلاڑیوں پر پابندی عائد کردی گئی عطاء الرحمان پر 2006 اور سلیم ملک پر2008 پر پابندی ہٹا کر ان کو کھیلنے کی اجازت دیدی گئی اس کے بعد 2010 میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے تین کھلاڑی محمد عامر، محمد آصف اور سلمان بٹ انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں سپاٹ فکسنگ میں ملوث پکڑے گئے جس سے قومی ٹیم کو بھاری نقصان اٹھانے کے ساتھ ساتھ ملک کو پوری دنیا میں پاکستان کو بدنامی کا سامنا کرنا پڑا اور اب یہ تینوں کھلاڑی اپنی اپنی سزا پوری کرچکے ہیں محمد پانچ سال کے بعد قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ بن گئے مگر محمد آصف اور سلمان بٹ پابندی ختم ہونے کے باوجود ابھی تک قومی ٹیم میں جگہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں مگر اتنے واقعات کے باوجود بھی سپاٹ فکسنگ کا سلسلہ نہ تھم سکا او رکھلاڑی پیسوں کی لالچ میں سپاٹ فکسنگ میں ملوث رہے پاکستان سپر لیگ کے دوسرے ایڈیشن میں پہلے ہفتہ میں ہی نوجوان کھلاڑی شرجیل خان اورخالد لطیف، شاہ زیب حسن، ناصر جمشید، محمد نواز اور فاسٹ باؤلر محمدعرفان سپاٹ فکسنگ میں ملوث نظر آئے اور اس کے بعد ایک مرتبہ دوبارہ پی ایس ایل جس کا دوسرا ایڈیشن ہی تھا پوری دنیا میں بدنام ہوگیا اور پوری دنیا میں ایک مرتبہ دوبارہ قومی کھلاڑیوں نے پاکستان کی بدنامی کروائی فاسٹ باؤلر محمد عرفان پر فرد جر م ثابت ہونے کے بعد ان کو ایک سال کی سزا سنادی گئی جبکہ دوسری جانب پاکستان کرکٹ ٹیم کے باؤلر محمد نواز جنہوں نے پاکستان کرکٹ بورڈکو سپاٹ فکسنگ میں رابطہ کے حوالے سے دیر سے آگاہ کیا ان پر بھی ایک ماہ کی پابندی عائد کردی گئی ۔کرکٹر محمد نواز پر دورہ آسٹریلیا کے دوران بکی کے رابطہ کرنے پر پی سی بی حکام کو بروقت آگاہ نہ کرنے کا الزام تھا، پی سی بی اینٹی کرپشن یونٹ نے کرکٹر کی جانب سے غلطی تسلیم کرنے پر ان کا سینٹرل کنٹریکٹ معطل کرتے ہوئے ایک ماہ کی پابندی عائد کر دی ہے جس کا اطلاق 16 مئی سے ہو گا جس کے ساتھ انہیں 2 لاکھ روپے بطور جرمانہ بھی جمع کروانے ہوں گے۔محمد نواز کو 6 ماہ زیر نگرانی رکھا جائے گا اور انہیں اس دوران اینٹی کرپشن پروگرامز میں شرکت کرنا ہو گی، پروگرامز میں عدم شرکت یا کسی اور شق کی خلاف ورزی پر مزید ایک ماہ کی معطلی کا سامنا کرنا پڑے گا۔محمد نواز نے پی سی بی اینٹی کرپشن یونٹ کی طرف سے لگائے گئے الزامات کو قبول کیا تھا ۔واضح رہے کہ پاکستان سپر لیگ کے موقع پر سامنے آنے والے اسپاٹ فکسنگ ا سکینڈل میں ا س سے قبل کرکٹر محمد عرفان کو چھ ماہ کی پابندی کی سزا دی جا چکی ہے۔ جبکہ کرکٹرز شرجیل خان ، خالد لطیف اور شاہ زیب حسن کے کیس ٹریبونل کے سامنے ہیں۔پی سی بی اینٹی کرپشن یونٹ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ محمد نواز سے بھی سٹے بازوں سے رابطہ کیا تھا لیکن انہوں نے بھی اس پیشکش کو بروقت رپورٹ نہیں کیا تھا۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے حکام کی جانب سے کہنے پر محمد نواز نے تاخیر سے رپورٹ کی۔پاکستان کرکٹ بورڈ اینٹی کرپشن یونٹ کا کہنا ہے کہ محمد نواز کو سٹے بازوں کی پیشکش کی فوری رپورٹ کرنا چاہیے تھا۔محمد نواز نے پی ایس ایل کے بعد پاکستان ٹیم کے ساتھ ویسٹ انڈیز کا دورہ کیا تھا۔ وہ ون ڈے اور ٹی 20 ٹیم کا حصہ تھے۔پی سی بی کا کہنا ہے کہ محمد نواز کو نوٹس پی سی بی اینٹی کرپشن کوڈ کے کے تحت جاری کیا گیا تھا۔محمد نوازنے پاکستان کی جانب سے 3ٹیسٹ، 9ون ڈے اور 5ٹی ٹونٹی میچز کھیلے ہیں جبکہ پی ایس ایل میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی نمائندگی کرچکے ہیں۔دوسری جانب انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے اینٹی کرپشن یونٹ کے چیئرمین سر رونی فلینیگن نے کہا ہے کہ آئی سی سی اینٹی کرپشن یونٹ کرکٹ میں کرپشن ختم کرنے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کررہا ہے اور اسے آئی سی سی کے ممبر ان کرکٹ بورڈ کا بھرپور تعاون حاصل ہے ، پاکستان سپر لیگ سکینڈل کے سلسلے میں اہم کارروائی پاکستان کرکٹ بورڈ نے کی۔ تاہم اسے اہم نوعیت کی معلومات آئی سی سی نے سپر لیگ کے آغاز سے قبل ہی فراہم کر دی تھیں۔سر رونی فلینیگن لاہور میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے اینٹی کرپشن ٹرائبیونل کے سامنے گواہ کے طور پر پیش ہوئے۔سماعت کے بعد سر رونی فلینیگن کا کہنا تھا کہ پاکستان سپر لیگ سکینڈل کے سلسلے میں اہم کارروائی پاکستان کرکٹ بورڈ کی طرف سے سامنے آئی البتہ آئی سی سی کے اینٹی کرپشن یونٹ کو برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کی طرف سے جو معلومات ملی تھیں وہ اس نے پاکستان کرکٹ بورڈ کو فراہم کیں۔ یہ معلومات پہلے سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے پاس بھی موجود تھیں۔سر رونی فلینیگن نے کہا کہ آئی سی سی کے اینٹی کرپشن یونٹ نے برطانیہ، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ کی پولیس کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کر رکھے ہیں، جس کے تحت اِن ملکوں کے ساتھ اہم معلومات کا تبادلہ رہتا ہے۔ آئی سی سی کا اینٹی کرپشن یونٹ کوشش کر رہا ہے کہ اسی طرح کے انتظامات پاکستان کی پولیس کے ساتھ بھی کیے جا سکیں۔سر رونی فلینیگن نے ٹرائبیونل کی کارروائی پر تبصرہ کرنے سے معذرت کر لی تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اور اس کے اینٹی کرپشن یونٹ نے کھیل کو صاف کرنے کے لیے اس اہم معاملے میں انتہائی پیشہ ورانہ انداز میں کام کیا ہے واضع رہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ آئی سی سی کے اینٹی کرپشن یونٹ کا کوئی سربراہ کسی ملک میں ہونے والی اس طرح کی تحقیقات میں گواہ کیطور پر پیش ہوا ہو۔علاوہ ازیں پی سی بی کے چیئرمین شہر یار خان اور پی سی بی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی نے سپاٹ فکسنگ کیس میں تعاون کرنے پر آئی سی سی کے اینٹی کرپشن یونٹ کے سربراہ کا شکریہ ادا کیا ۔انہوں نے کہاکہ پی سی بی کرکٹ میں کرپشن کو ختم کرنے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرتی رہے گی ۔کرپشن کے معاملے میں پی سی بی کا زیرو ٹالرنس ہے ۔سپاٹ فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں کے خلاف پی سی بی کا کیس مضبوط ہے اور پی سی بی جرم ثابت ہونے پر اس میں ملوث کرکٹرز کے خلاف سخت کاروائی کرے گی ۔دوسری جانب پاکستان کرکٹ ٹیم دورہ ویسٹ انڈیز میں تو سرخرو ہوگئی مگر اب اس کا اگلا امتحا ن یکم جون سے شروع چیمپنز ٹرافی ہے جس میں اس نے اپنا پہلا میچ ہی روائتی حریف بھارت کے ساتھ چار جون کو کھیلنا ہے اس وقت جب ٹیم کے حوصلے بلند ہیں او ر اس نے ویسٹ انڈیز کے خلاف تاریخی کامیابی اپنے نام کی ہوئی ہے بھارت کے خلاف میدان میں اترنا آسان ہوگا مگر اس کے خلاف کامیابی حاصل کرنے کے لئے اس کو بہت محنت کی ضرورت ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ کپتان سرفراز احمد کس طرح سے ٹیم کو ساتھ لیکر چلتے ہیں اور کس طرح سے نہ صرف بھارت کیخلاف کامیابی دلواتے ہیں بلکہ اس کے علاوہ دیگر اپنے میچوں میں بھی کس طرح سے بطور کپتان اور وکٹ کیپر اور بیٹسمین کس طرح سے پرفارم کرتے ہیں ان پر ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے اور اس حوالے سے پاکستانی قوم کی نظریں قومی ٹیم پر مرکوز ہے اور اس وقت پاکستان کرکٹ ٹیم کے لئے سب سے بڑا امتحان بھارت کیخلاف کامیابی حاصل کرنا ہے اس سے قبل بھی پاکستانی ٹیم نے اس ایونٹ میں بھارت کو شکست دی ہوئی ہے اگر پاکستان کی ٹیم بھارتی ٹیم کو شکست دینے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو ایک تو پوری پاکستانی قوم خوش ہوجائے گی اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لئے اس جیت کے بعد اپنی دیگر حریف ٹیموں کو بھی شکست دینا آسان ہوجائے گا اس لئے پاکستانی ٹیم کے لئے بھارت کے خلاف کامیابی حاصل کرنا بہت ضروری ہے اور اس حوالے سے اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹیم کے تما م کھلاڑی کس پلان کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں او ر ان کی پرفارمنس کیسی رہتی ہے۔دوسری جانب کامیابیوں کی لازوال داستان کے اہم کردار مصباح الحق اور یونس خان تالیوں کی گونج ،جذبوں کی رِم جھمِ میں میدان سے رخصت ہوئے۔ گارڈ آف آنر کیساتھ آخری بار فیلڈ میں اترنے پر یونس خان اشکبار،مصباح بھی غمزدہ ،دن بھر شائقین داد تحسین کے پھول نچھاور کرتے رہے۔حسین یادوں کی گٹھڑی اٹھائے دونوں نے ہمیشہ کیلئے میدان چھوڑ دیا۔ ملکی کرکٹ کی تاریخ کے کامیاب ترین ٹیسٹ کپتان کا دوہزار ایک میں آکلینڈ سے شروع ہونے والا سفر ڈومینیکا میں تمام ہوگیا۔مشکل حالات میں قیادت سنبھال کر گرین کیپس کو ورلڈ نمبر ون بنا نا مصباح الحق کا تاریخی کارنامہ قرار دیاگیا۔ پاکستانی کرکٹ کی تاریخ کے کامیاب ترین ٹیسٹ کپتان مصباح الحق اور عہد ساز بیٹسمین یونس خان انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائر ہوگئے۔اپنے انٹر نیشنل کیریئر کے آخری دن دونوں کھلاڑیوں کو گارڈ آف آنر پیش کرکے میدان میں اتارا گیا جبکہ دوران فیلڈ بھی نظریں دونوں کھلاڑیوں پر موجود رہیں۔مصباح اور یونس پر کیمرہ پڑتے ہی شائقین انہیں داد دیتے رہے جبکہ میدان سے رخصتی پر شائقین نے کھڑے ہو کر انہیں بھر پور خراج تحسین پیش کیا۔اس موقع پر مصباح الحق اور یونس خان ساتھی کھلاڑیوں کے حصار میں نظر آئے جبکہ وہ میدان کا چکر لگا کر شائقین کی جانب ہاتھ ہلاتے ہوئے شاندار الوداع کا جواب دیتے رہے۔ دونوں نے عالمی کرکٹ میں بہت نام کمایا اور پاکستان کیلئے بے شمار کامیابیان سمیٹیں۔یونس خان کے ٹیسٹ کیریئر پر نگاہ ڈالی جائے تو انہوں نے 118 میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی اور 52اعشاریہ بارہ رنزکی بیٹنگ اوسط سے 34 سنچریوں اور 33 نصف سنچریوں کی مدد سے 10099رنز اپنے کھاتے میں درج کرائے۔ ان کا بہترین انفرادی اسکور 313 رنز ہے اور یہ اننگز انہوں نے سری لنکا کیخلاف اکیس فروری دوہزار نو میں کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں کھیلی تھی جبکہ پارٹ ٹائم بالر کی حیثیت سے انہوں نے نو وکٹیں بھی حاصل کیں۔ وہ گرین شرٹس کی جانب سے سب سے زیادہ 138کیچز کر کے ریکارڈ بک کا حصہ بھی بنے۔ پاکستانی بیٹنگ لائن کی جان ‘‘خان آف مردان ’’10ہزار ٹیسٹ رنز بنانے والے پہلے پاکستانی ہیں جنہوں نے 33 ٹیسٹ سنچریاں بنانے کیساتھ بطور کپتان 2009 ء میں پاکستان کو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی بھی جتوایا۔مصباح الحق جن کی قیادت میں پاکستان نے سب سے زیادہ ٹیسٹ میچوں میں کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے اپنا انٹر نیشنل سفر 2001 ء میں نیوزی لینڈ کے شہر آکلینڈ میں ٹیسٹ میچ سے شرو ع کیا تھا۔مصباح الحق نے 75 میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی جبکہ ٹیسٹ کیریئرمیں 46.62 کی اوسط سے 10 سنچریوں اور39 نصف سنچریوں کی بدولت5222 رنز بنائے۔ ان کا سب سے زیادہ انفرادی ا سکور 161 رنز ناٹ آؤٹ رہا۔ اپنی سست بیٹنگ سے مسٹر ٹک ٹک کا لقب پانے والے مصباح الحق کا پروفیشنل کیریئر میں بڑا کارنامہ ناکامیوں اور رسوائیوں میں گھری بے گھر ٹیم کو گزشتہ سال آئی سی سی ٹیسٹ رینکنگ میں پہلی مرتبہ نمبر ون بنانا تھا۔دونوں عہد ساز کھلاڑیوں نے میدان پر کئی ریکارڈ ساز پارٹنر شپس بھی قائم کیں۔ ان کی شراکت میں 15سنچریاں اور3213 رنز بنائے گئے۔تیزترین نصف سنچری کے ورلڈ ریکارڈ پر بھی مصباح الحق کا ہی قبضہ ہے۔وہ خدا داد صلاحیتوں کی وجہ سے پاکستان کے کامیاب ترین کپتانوں میں شامل ہوئے۔ ان کا سولہ سالہ کیریئر کئی نشیب وفراز سے گزرا تاہم مرد بحران نے 56ٹیسٹ میچوں میں قومی ٹیم کی قیادت کرتے ہوئے 25میں مقابلوں میں گرین شرٹس کو کامیابی کا ذائقہ چکھایا جس کی بدولت انہیں جاوید میانداد اور عمران خان جیسے لی جنڈز کی صف میں کھڑے ہونے کا موقع ملا۔ وہ 56گیندوں پر سنچری مکمل کرنے والے پاکستان کے واحد بیٹسمین کا اعزاز رکھتے ہیں جبکہ 21گیندوں پر نصف سنچری کے ورلڈ ریکارڈ پر بھی ان کا قبضہ ہے۔دوہزار چودہ میں انہوں نے آسٹریلیا کیخلاف ابوظہبی ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سنچریاں بنانے کا منفرد کارنامہ انجام دیا۔ پاکستان کے عمر رسیدہ کپتان ہونے کا اعزاز بھی 43سالہ مصباح کے پاس ہی ہے۔ وہ دنیا کے پہلے کھلاڑی ہیں جنہوں نے سنچری بنائے بغیر پانچ ہزار سے زائد ون ڈے رنز کا سنگ میل عبور کیا۔ بطور کپتان 42برس کی عمر میں سنچری بنانے کا ورلڈ ریکارڈ بھی مصباح الحق کے پاس ہے جبکہ 11ممالک میں سنچری بنانے کا ورلڈ ریکارڈ یونس خان کے قبضے میں ہے۔

مزید :

ایڈیشن 1 -