جاگتے ضمیر

جاگتے ضمیر
جاگتے ضمیر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان کے بیس بائیس کروڑ لوگوں کو جاگتے ضمیروں کا سلام....
یہ وہ جاگتے ضمیر ہیں جو ساٹھ سال پہلے راتوں رات ری پبلکن بن جاتے تھے، اب انصافین ہو جاتے ہیں۔
جاگتے ضمیر..... جی ہاں! یہ تعداد میں کچھ درجن یا چند سو ہوں گے لیکن ہر پانچ سال بعد ایک دفعہ انگڑائی ضرورلیتے ہیں ۔ کچھ ضمیر کہیں سے ٹیلیفون آنے پر جاگتے ہیں ،کچھ کو جگانے کے لئے ترازو کے پلڑوں میں تولنا پڑتا ہے، لیکن ان میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جو صرف ہوا کا رخ دیکھتے ہی جاگ جاتے اور چمچماتی لینڈ کرورزروں کے قافلوں میں ایک نئے گھر کی طرف چل پڑتے ہیں۔ ا س دفعہ یہ گھر وفاقی دارالحکومت کے مضافات میں تین ساڑھے تین سو کنال رقبہ پر چھوٹی سی پہاڑی پر واقع ہے۔میر ظفراللہ جمالی ان جاگتے ضمیروں میں اس لئے ممتاز ہیں کہ وہ ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ ان کا ضمیر بہت مہینوں سے انگڑائی لے رہا تھا لیکن چونکہ وہ ذرا سست ہیں اس لئے جاگتے جاگتے کئی مہینے لگ گئے اور پھر نئے نئے جاگے ضمیر نے صدا بلند کی کہ اب اس اسمبلی میں نہیں جائیں گے جہاں جھوٹ بولا جاتا ہے۔ غالباً اگلی اسمبلی میں جانے سے پہلے وہ اچھی طرح تسلی کر لیں گے کہ وہاں جھوٹ نہیں بولا جائے گا۔ایک دو صاحبان ایسے ہیں جن کے انتخابی حلقے نئی حلقہ بندیوں میں ختم ہو گئے تو ان کے پاس سوائے اپنے ضمیر جگانے کے کوئی اور چارہ کار نہیں بچا تو وہ بھی بھاگم بھاگ اسلام آباد کی پہاڑیوں میں جا کر گم ہوگئے۔ جب بانس ہی نہیں رہا تو بانسری کیا بجے گی اس لئے یہ والے ضمیر تو گوشۂ گمنامی میں چلے جائیں گے۔


پارلیمانی سیاست کا جنم برطانیہ میں ہوا تھا لیکن اس کے بعد وہ اس میں کوئی ترقی نہیں کر سکے۔ کہتے ہیں ہیرلڈ ولسن نامی لیبر پارٹی کے لیڈر صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیراعظم بنے اور اسی ایک ووٹ کے بل بوتے پر اپنی پانچ سال کی مدت پوری کر گئے۔ کتنی حیرانی کی بات ہے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے کئی سو لوگوں میں ایک بھی بندے کا ضمیر نہیں جاگا۔ دل کرتا ہے ایسی بے ضمیر قوم پر لعنت بھیجی جائے جس کے اراکین پارلیمنٹ کا ضمیر ہمیشہ سویا رہتا ہے۔ برطانیہ اور اس جیسے ملکوں میں شائد خلائی مخلوق بھی نہیں ہوتی اور نہ ہی وہاں کسی کو محب وطن ہونے کے لئے سرٹیفیکیٹ چاہئے ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں تو ضمیر جگائے بغیر یہ سرٹیفیکیٹ نہیں ملتا، جب محترمہ فاطمہ جناح اور حسین شہید سہروردی کو نہیں ملا تھا تو کسی اور کو کیسے مل سکتا ہے۔پاکستان میں ضمیر کے بار بار جاگنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں پاسپورٹ کی طرح حب الوطنی کی بھی ہرپانچ سال بعد تجدید کرانا پڑتی ہے۔ اگر کسی نے سرٹیفیکیٹ لینے میں تساہل سے کام لیا یا معمولی بھول چوک ہوئی تو فورا اس کے ماتھے پر غداری کا لیبل چسپاں کر دیا جاتا ہے۔ہماری تاریخ میں صف اول یا دوئم کا شائد ہی کوئی قابلِ ذکر سیاست دان ایسا بچا ہو جس کے ماتھے پر یہ لیبل یا سینے پر غداری کا تمغہ نہ سجا ہو۔ جب سے سوشل میڈیا عام ہوا ہے، یہ کام اور بھی آسان ہو گیا جہاں گماشتے سارا دن بیٹھ کر بس یہی ایک کام کرتے ہیں۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ ان گماشتوں کی روزی روٹی کا بندوبست کون کرتا ہے جو ان کے پاس سارا دن کمپیوٹر یا موبائل فون پر بیٹھے رہنے کے سوا کوئی کام نہیں۔ اب ان حالات میں لوگوں کے ضمیر نہ جاگیں تو اور کیا کریں۔


اتفاق کی بات ہے میر ظفراللہ جمالی بھی ایک ووٹ کی اکثریت سے ہی وزیراعظم بنے تھے، لیکن یہ ایک ووٹ بنانے کے لئے سیاسی انجینئرز کو طرح طرح کے کمالات دکھانے پڑے تھے۔ مختلف طریقوں سے چار پانچ درجن لوگوں کے ضمیر جگائے گئے، جس کے بعد وہ آنکھیں ملتے ہوئے اسلام آباد کی ایک مشہور مارکیٹ کے پڑوس میں اکٹھے ہوگئے۔ ان میں بڑی سیاسی پارٹی کے دو درجن لوگ پیٹریاٹ (محب وطن) بھی شامل ہوئے جوسب کے سب بعد کے مہینوں میں نمک کی کان میں نمک بن گئے۔ اللہ اللہ خیر صلّا۔ جب تک یہ اکثریت بھاری بھرکم بوٹ تلے دبی رہی، میر ظفراللہ جمالی وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھے رہے اور جیسے ہی یہ بوٹ اٹھا، وہ بھی ایوانِ وزیراعظم سے نکل کر پاکستان ہاکی فیڈریشن چلے گئے۔ کہاں وزیراعظم پاکستان اور کہاں ہاکی فیڈریشن کا صدر، لیکن کہتے ہیں ناں نوکری کی تے نخرہ کی۔ وہاں جا کر میر ظفراللہ جمالی نے پاکستان کے قومی کھیل کا ایسا بیڑہ غرق کیا کہ آج تک دوبارہ اٹھ نہیں سکا۔ خیر پاکستان کی ہاکی نے کیا اٹھنا تھا، اب میر صاحب اپنے ضمیر کی آواز پر خود اٹھ گئے ہیں کیونکہ جھوٹ انہیں برداشت نہیں۔

برطانیہ اور اس طرح کے تمام جمہوری ممالک میں سیاسی انجینئرنگ کا علم پروان نہیں چڑھ سکا۔ ہم نے تو آزادی کے بعد ہی سیاسی انجینئرنگ شروع کر دی تھی اور اب ایسے ایسے کمالات دکھاتے ہیں کہ دنیا شرم کے مارے ڈوب ڈوب جاتی ہے۔سنا ہے مغربی پاکستان میں اسمبلی ایک رات جب سوئی تو وہ مسلم لیگی تھی لیکن اگلی صبح جب بیدار ہوئی تو ری پبلکن بن چکی تھی۔ اس کے بعد پاکستان میں بار بار مارشل لا لگے جن میں فوجی ڈکٹیٹروں نے سیاسی انجینئیرنگ میں کمال مہارت حاصل کی۔ ان کے لئے یہ کوئی اتنا مشکل کام بھی نہیں ہوتا، اس کے لئے صرف ایک عدد آلہ یعنی ٹیلی فون درکار ہوتا ہے، اس کے بعد اس کی گھنٹی سے کئی سو لوگوں کے ضمیر جاگ جاتے ہیں۔ ہاں اگر کسی کی نیند زیادہ گہری ہو تو ٹیلی فون کے علاوہ ایک عدد ترازو بھی استعمال کرنا پڑسکتا ہے۔ پہلے والے فوجی ڈکٹیٹر نے بی ڈی ممبرز کے علاوہ پوری قوم سے ووٹ دینے کا حق چھین لیا۔ دوسرے والے نے الیکشن کا رزلٹ آنے کے بعد جیتنے والے کو اقتدار منتقل کرنے کی بجائے ملک توڑ دیا۔ تیسرے نے unbranded لوگ اسمبلی میں پہنچا کر انہیں مسلم لیگی برانڈ میں تبدیل کر دیا اور چوتھے نے پہلے سب کو تھانے پہنچایا جہاں ایک ڈرائی کلین مشین میں دھو دھا کر اپنے برانڈ سے سب کو اسمبلی میں بھیجا۔ایسی انجینئیرنگ کیا دنیا کے کسی اور ملک میں ممکن ہے؟ واقعی ہمارے سیاسی انجینئیر کمال کے لوگ ہیں۔


جو ممالک ترقی کر گئے ہیں یاکر رہے ہیں ، ان میں بھی پانچ سالہ منصوبے بنتے ہیں لیکن وہ ترقیاتی منصوبے ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں پانچ سالہ منصوبے سیاسی انجینئیرنگ اور ضمیروں کے جگانے کے ہوتے ہیں۔ پہلے کسی علاقہ کے روائتی حریف متحارب پارٹیوں میں ہوتے تھے۔ اب انجینئیرنگ کے کمالات دیکھئے کہ متحارب حریفوں کے ضمیر بھی ایک ساتھ جاگتے ہیں اور سب کے سب بھاگے بھاگے ایک ہی پارٹی میں شامل ہونے لگتے ہیں، چاہے اس پارٹی کو سیاسی بدہضمی ہی کیوں نہ ہو جائے۔کچھ ایسا ہی منظر آنے والے دنوں میں نظر آرہا ہے۔ یہ ایک دلچسپ نظارہ ہو گا کہ کسی ایک حلقے میں تین تین ہیوی ویٹ ایک ہی پارٹی کا ٹکٹ لینے کے لئے ایک دوسرے سے دھینگا مشتی میں مشغول ہوں گے اور جوتیوں میں ایسی دال بٹے گی کہ اللہ کی پناہ۔ بلوچستان اسمبلی میں ہونے والی انجینئیرنگ ہم سب دیکھ چکے ہیں، سینیٹ چئیرمین کے انتخاب کے موقع پر بھی جو کچھ ہوا سب کے سامنے ہے، لیکن یہ سب توفلم سے پہلے چلنے والا ٹریلر ہے۔ اصل فلم تو ابھی دو ہفتے بعد چلے گی جب باقی صوبوں میں بھی لوگوں کے ضمیر جاگنے کی رفتار اور تعداد دونوں میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ سندھ میں ہوا کا رخ بتا رہا ہے کہ ایک اور جام صادق یا ارباب غلام رحیم کی آمد ہو گی، پہلے ایک چھوٹا الائنس جس میں نصف درجن چھوٹی چھوٹی پارٹیاں اکٹھی ہوں گی اور پھر بڑی والی ٹیلی فون پارٹی سے اس کا اتحاد ہو جائے گا۔

جنوبی پنجاب میں یہ جھکڑ پہلے ہی چل چکا ہے جس میں پہلے جنوبی صوبہ محاذ بنا اور پھر وہ پی ٹی آئی میں ضم ہو گیا۔ پختونخوا میں متحدہ مجلس عمل دوبارہ سرگرم ہو چکی ہے اور اگلے ٹیلی فون کا انتظار کر رہی ہے۔ سیاسی انجینئرز کو اصل کمالِ فن پنجاب میں دکھانا ہوگا جہاں میاں نواز شریف کی مقبولیت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ ہمارے آئن سٹائینوں کا خیال تھا کہ انہیں نا اہل کروا کر سیاست سے آؤٹ کر دیں گے، اب نا اہل ہوئے دس ماہ ہونے والے ہیں، لیکن مقبولیت ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے۔ عدالتی وار کارگر نہ ہونے کے بعد اب میاں صاحب پر زہر میں بجھے غداری کے تیر چلائے جا رہے ہیں تاکہ ان کی پارٹی کے امیدوار الیکشن مہم کے دوران اپنے اپنے گھروں میں مقید ہو کر رہ جائیں۔ پچھلے الیکشن میں یہی کام خود کش بمباروں سے پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کے خلاف لیا گیا تھا۔


سیاسی انجینئرز کے تمام کمالاتِ فن اپنی جگہ، لیکن وہ ایک بات بھول جاتے ہیں کہ یہ اکیسویں صدی ہے اور وہ وقت گذر چکا جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ وہ وقت دور نہیں جب پاکستان کا کوئی ہیرلڈ ولسن بھی ایک ووٹ کی اکثریت پر اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرے گا اور کوئی ٹیلی فون کسی کا ضمیر نہیں جگا سکے گا۔

مزید :

رائے -کالم -