سندھ اسمبلی میں الزام تراشی اور ’’جوتا دکھائی‘‘
سندھ اسمبلی میں دورانِ اجلاس حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی خواتین ارکان کے مابین ہاتھا پائی ہوئی، نصرت سحر عباسی(مسلم لیگ ف) نے ڈپٹی سپیکر شہلا رضا کو،جو اجلاس کی صدارت کر رہی تھیں،جوتا دکھا دیا جس کے بعد ڈپٹی سپیکر نے پیپلزپارٹی کے ارکان کو ہدایت کی کہ وہ اپوزیشن کے اعتراض کا بھرپور جواب دیں،کیونکہ ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں رہا۔ اجلاس میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے ایک دوسرے پر الزام تراشی کی، ہنگامہ اُس وقت شروع ہوا جب صوبائی وزیر ممتاز جاکھرانی نے نصرت سحر عباسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اِس ایوان میں موجود ایک خاتون کو ٹی وی پر آ کر پیپلزپارٹی پر نکتہ چینی کرنے کا بہت شوق ہے، اُن کو کوئی شرم و حیا نہیں، جس پر قائد حزبِ اختلاف خواجہ اظہار نے کہا کہ ایک خاتون رُکن کی ذات پر حملہ کیا گیا، خاتون سے متعلق ریمارکس کارروائی سے حذف کئے جائیں، ڈپٹی سپیکر نے نصرت سحر عباسی کے حوالے سے کہا کہ بجٹ انہوں نے پڑھا نہیں ہے، یہ شور کریں گی، مریضوں کی آخری وقت میں کیا کیفیت ہوتی ہے پتہ ہے، ڈپٹی سپیکر کے ریمارکس پر اپوزیشن ارکان نے بہت شور شرابہ کیا تو انہوں نے ارکان کو تنبیہہ کی کہ مَیں سارجنٹ ایٹ آرمز کو زحمت دے سکتی ہوں۔انہوں نے نصرت سحر عباسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ مجھے جوتے دکھا رہی ہیں، جو اپنے جوتے ہاتھ میں لے کر سپیکر ڈائس کے قریب پہنچ گئی تھیں یہ ڈرامے بند کئے جائیں، آپ کو وارننگ دے رہی ہوں، خاتون کارڈ بہت کھیلا جا چکا ہے،انہوں نے جوتے دکھانے اور نامناسب طرزِ عمل پر نصرت سحر عباسی کو ایک روز کے لئے ایوان سے نکال دیا۔
شاید یہ انتخابی مہم کی اس گرما گرمی کا اثر ہے، جو مُلک بھر میں جاری ہے کہ اس کے اثرات ٹھنڈے ٹھار ایوانوں میں بھی محسوس کئے جا رہے ہیں، چند روز قبل پنجاب اسمبلی میں اِس سے ملتے جلتے مناظر نظر آئے۔ اب سندھ اسمبلی میں بھی ہاتھا پائی کے ساتھ ’’جوتا دکھائی‘‘ بھی ہونے لگی، حالانکہ یہ اسمبلی کا الوداعی اجلاس ہے، دس دن بعد اسمبلی(اور حکومت) ختم ہو رہی ہے، امکان ہے کہ جولائی کے آخری ہفتے میں نئے الیکشن ہوں گے، جس کے لئے نئی نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں، سیاسی اتحاد بن رہے ہیں، جوڑ توڑ بھی ہو رہے ہیں، کچھ نہیں کہا جا سکتا اب کی بار سندھ اسمبلی کی ہیتِ ترکیبی کیا ہو، ارکان میں سے بہت سے چہرے ایوان کے رُکن نہ رہیں اور عین ممکن ہے بنچوں کی ترتیب بھی بدل جائے، جو اِس وقت سرکاری بنچوں پر بیٹھے ہیں وہ اپوزیشن کی جانب نظر آئیں اور جو اپوزیشن بنچوں پر رونق افروز ہیں اُن میں سے کچھ سرکاری بنچوں پر نظر آئیں،کیونکہ جو سیاسی اور غیر سیاسی جوڑ توڑ اسمبلی سے باہر ہو رہے ہیں وہ اِسی مقصد کے لئے تو ہو رہے ہیں ایسے حالات میں ارکان کو تحمل اور روا داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا اور ایسی مثالیں چھوڑ کر جانی چاہئے تھیں کہ آنے والوں کے لئے قابلِ اتباع ہوتیں،لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا،ایوان میں ہنگامہ آرائیاں، الزام تراشیاں وغیرہ تو پہلے بھی ہوتی رہی ہیں اور اب بھی جاری ہیں،لیکن یہ جوتا دکھائی کی مہم شاید نئی ہے، اسمبلی سے باہر چونکہ سیاسی رہنماؤں پر جوتے پھینکنے، سیاہی کی پچکاریاں مارنے، حتیٰ کہ فائرنگ تک کے واقعات ہو رہے ہیں اِس لئے ایوان کے اندر والوں نے سوچا کہ وہ اگر جوتا پھینک نہیں سکتے، دکھا تو سکتے ہیں،لیکن یہ سب کچھ بہت ہی افسوسناک ہے۔
کوئی رُکن اگر کسی چینل پر آ کر اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے تو یہ اس کا حق ہے، چینلوں پر جواب دینے والے بھی بیٹھے ہوتے ہیں، وہ اپنا جوابی حق اسی وقت استعمال کر لیتے ہیں،اِس لئے اگر کسی رُکن نے کسی چینل پر کسی جماعت پر تنقید کر دی تھی تو اس لڑائی کو کھینچ کرایوان میں لانے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ چینل تک ہی رہتی تو اچھا تھا، وہاں اس کا جواب بھی دیا جا سکتا ہے،بلکہ لازماً دے بھی دیا گیا ہو گا،کیونکہ ٹاک شوز کا فارمیٹ ایسا بن کر رہ گیا ہے کہ اس میں الزام تراشی اور جوابی الزام تراشی معمول کی بات ہے، اِسی لئے بعض اوقات اینکرز کو مداخلت کر کے یہ سلسلہ رکوانا پڑتا ہے،لیکن اس میں بھی جزوی کامیابی ہی ہوتی ہے، شرکا جب ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں تو وہ جو مُنہ میں آتا ہے کہتے چلے جاتے ہیں، اِس لئے یہ ٹاک شوز کسی سنجیدہ بحث کی بجائے باہمی الزام تراشیوں کے لئے مختص ہو گئے ہیں، اس وجہ سے بعض اینکروں پر پابندیاں بھی لگ چکی ہیں۔ بعض شوز کے شرکا بائیکاٹ کرکے بھی چلے جاتے ہیں،اِس لئے اگر کسی رکن نے کسی شو میں کوئی ایسی بات کر دی تھی تو اس کا جواب ٹی وی پر ہی مناسب تھا ایوان اس کی بہتر جگہ نہیں تھی۔
جن جن اسمبلیوں میں بجٹ پیش ہوئے ہیں۔ وہیں وہیں ہم نے تقریباً یکساں مناظر دیکھے ہیں، ڈپٹی سپیکر سندھ اسمبلی نے تو کہا کہ نصرت سحر عباسی نے بجٹ پڑھا نہیں ہو گا،لیکن یہ بات زیادہ تر ارکان کے بارے میں کہی جا سکتی ہے، اس کا ثبوت وہ بحث ہے جو اسمبلی کے اندر کی جاتی ہے، اگر ارکان نے بجٹ پڑھا ہو تو بحث کا معیار وہ تو نہ ہو جو نظر آتا ہے، اب اگر کسی رکن کے پاس ٹھوس گفتگو کے لئے مواد ہی نہیں ہے تو اس نے اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے ہی وقت گذارنا ہوتا ہے اِسی لئے ہمیں اسمبلیوں میں ایسے مناظر نظر آتے ہیں، کیا ہی اچھا ہو کہ ارکانِ اسمبلی اپنے اپنے حلقوں کی درست نمائندگی کا حق ادا کریں، عوام کے مسائل کو پیشِ نظر رکھیں اور ان کے حل کی تجویزیں دیں تاکہ ووٹ دینے والے بھی محسوس کریں کہ ان کا منتخب کیا ہوا نمائندہ حقِ نمائندگی ادا کر رہا ہے۔۔۔ نئے انتخابات کا ڈول ڈالا جانے والا ہے،انتخابات لڑنے والوں کو دوبارہ اپنے ووٹروں کے پاس جانا ہو گا، وہ اُن کی کارکردگی کا جائزہ لے کر ہی ووٹ دیں گے،لیکن جن ارکان کے دامن میں لایعنی حرکتوں کے سوا کچھ نہیں ہے، وہ کس کارکردگی کی بنا پر ووٹ مانگیں گے۔ یہی حال سیاسی جماعتوں کا ہے جو پانچ برس تک دوسروں کی ٹانگیں کھینچنے کے سوا کچھ نہ کر سکیں، انہیں کس کارکردگی کی بنا پر دوبارہ منتخب کیا جائے گا؟ ووٹروں کا فرض ہے کہ وہ ہر پہلو سے جانچ کر اپنے نمائندے منتخب کریں اور بھیڑ چال کی روش اختیار نہ کریں، ایسے ہوا تو نتیجہ بھی اُنہیں ہی بھگتنا ہوگا اور پھر اسمبلیوں میں ایسے ہی مناظر نظر آئیں گے۔