شکاری۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... قسط نمبر 13
ایک آدم خود شیر ..... نلگنڈے کے جنگل میں اسی طرح صرف دو فٹ کے فاصلے پر ہلاک کیا ..... وہ یوں کہ میں نے اس علاقے میں کوئی ایسا بڑا درخت نہیں پایا جس پر میں چڑھ سکوں تنا ور درخت بکثرت تھے ..... لیکن میں شکاری جوتے پہنے ..... پشت پر تھیلا ..... ہاتھ میں رائفل ..... درخت پر اس حالت میں چڑھنا ممکن نہیں تھا ..... چنانچہ میں ایک چھوٹے درخت پر چڑھ کر کھڑا ہوا .....
شیر آیا ..... اور پشت کی طرف سے درخت پر بلند ہوا اگلے پنجے سے مجھ کو نوچا ..... کہ میرا پتلون دائیں جانب ران سے پنڈلی تک صاف پھٹ گیا ..... ناخن کی ایک ہی ضرب سے ..... بہرحال میں نے اس کی ناک پر فائر کیا ..... گولی ناک کے قریب گھسی اور سر کے پچھلے حصے کو توڑ پھوڑ کر گردن میں چلی گئی شیروہیں گرکرفنا ہو گیا .....
شکاری۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... قسط نمبر 12 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں نے شکاریات کو ادب کا مقام عطا کیا ..... زبان ‘ بیان ‘ فن ‘ فضاحت‘ بلاغت ‘ طریقہ اظہار ..... مسائل اور مناظر کی وضاحت ..... ہر اعتبار سے میری کتب شکاریات میں اعلیٰ ادب کی حامل ہیں ..... بے شمار ایسے بھی قلمکار ہیں جن کی ادبی تحریر میں بالعموم نہایت ادنیٰ ادبی حیثیت رکھتی ہے ..... میرے سوا اس موضوع پر لکھنے والا بھی شاید ہی کوئی ہو ..... میں واجد بقید حیات پاکستانی شکاری ہوں جو بحمداللہ تعالیٰ سبحانہ ابھی تک اس شاہانہ کام میں سرگرم عمل ہے ..... اور ساتھ ہی ساتھ تصنیف و تالیف میں بھی مشغول ہے ..... اور اللہ تعالیٰ سبحانہ کے کرم سے توقع ہے کہ میں اپنی ذہنی اور جسمانی صحت و طاقت کے پیش نظر آئندہ کئی سال کا سلسلہ جاری رکھ سکتا ہوں .....
میری مصروفیات متنوع ہیں ..... میں شکار کرتا ہوں ..... جو میرا سب سے اہم کام ہے ..... شعر کہتا ہوں اور مشاعروں میں شرکت کرتا ہوں ..... علمی ‘ ادبی ‘ تاریخی اور مذہبی کتب تالیف کرتا ہوں ..... علمی مجالس میں مختلف مواقع پر شرکت کر کے حدیث نبویؐ اور تفسیر قرآن پاک بیان کرنے کے علاوہ تقاریر کرتا ہوں ..... اور کچھ نہیں کرتا اللہ تعالیٰ سبحانہ نے مجھے طلب مال کی ہوس سے آزاد کیا ہے..... کسب معاش کی فکر سے بے نیاز کیا ہے ..... اور ان ساری نعمتوں سے سرفراز فرمایا ہے جس کی کوئی معقول شخص توقع کر سکتا ہے..... میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ ہوں ..... جس قدر میری استطاعت ہے اتنا اس کا شکر ادا کرتا ہوں ..... عبادت کرتا ہوں ..... اطاعت کرتا ہوں ..... اور اسی سے وہ سب کچھ مانگتا ہوں جو مجھے درکار ہو ..... اور وہی باری تعالیٰ مجھے میرے ضرورت سے زائد عطا فرماتا ہے..... الحمداللہ .....
پاکستان اور ہندوستان میں بے شمار ایسے لوگ ابھی بقید حیات ہیں جو میرے شکار کے کارناموں کے چشم دید گواہ ہیں ..... ان میں سے بہت لوگ ایسے ہیں جو کسی نہ کسی نوعیت کے شکار میں میرے شاتھ رہے ہیں ..... ان میں سے کچھ عمر میں مجھ سے کمتر ..... کچھ مجھ سے بزرگ ..... کچھ لوگ مجھے یاد ہیں ..... کچھ ایسے ہیں کہ ان کے نام یاد نہیں رہے ..... لیکن وہ ساری لوگ جو میرے ساتھ شکار میں رہے خو دبھی کامیاب شکاری تھے۔ الا ان چند نام نہاد بندوقچیوں کے جو نہایت قلیل مدت کے لیے نجانے کیسے میرے ساتھ شکارمیں رہے اور اپنی نا خوشگوار یاد یں میرے ذہن میں چھوڑ گئے ..... ان کے علاوہ اور جو لوگ جس حیثیت میں بھی میرے ساتھ رہے میں ان سے خوش رہا اور وہ لوگ بھی خوش رہے .....
بر ما میں ..... میں رنگوں کے قریب بہادر شاہ ظفر آخری تاجدار دہلی کے مزار پر فاتحہ پڑھنے گیا ..... اور فاتحے کے بعد بیٹھا مقبرے کی خستہ خالی ..... دنیا کے بے ثبانی اور ہندوستان میں مغلوں کی پر شکوہ حکومت کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ ایک شخص میرے پاس آکر رک گیا .....
میں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا رہا تھا ..... اوریکبارگی مجھے بھی اس کا نام ..... اس کی شکل اور اس کی رفاقت یاد آگئی .....
’’پونو..... ‘‘ میں نے اٹھتے ہوئے کہا
’’قمر ..... ‘‘
اس نے نہایت پرجوش مصافحہ کیا ..... اور بغلگیر ہوگیا ..... تم اچھے تو ہو ..... پونو ..... ؟‘‘
یقینا..... تم کو دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ..... کتنے سال ہوگئے ..... آٹھ سال..... ؟
’’ہاں ..... آٹھ سال ..... مگر تم تو اللہ کے فضل سے ویسے ہی ہو جیسے پہلے تھے ..... ‘‘
’’تم میری ہمت افزائی کر رہے ہو ..... ‘‘ وہ خالص انگریزی لہجے میں انگریزی بولتا تھا ..... ورنہ میں تو اب بوڑھا ہو رہا ہوں ..... خیر یہاں کیا کر رہے ہو ..... ؟ ‘‘
میں نے مقبرے ٰ کی طرف اشارہ کیا..... ’’اس فانی دنیا کے بارے میں غور ..... ‘‘
’’میں تو کہوں گا تم کسی شیر کے شکار کا منصوبہ ننا رہے ہو ..... ‘‘
’’میں یہاں آیا تو اسی ارادے سے ..... ‘‘
ہم وہاں سے اس کار میں ہی واپس ہوئے .....
دراصل وہ کسی کام سے نزدیک ہی ایک فرم میں گیا تھا ..... گزرتے ہوئے نجانے کب اس نے پہچان لیا .....
اس روز ہم لوگ ساتھ رہے اور رنگون سے ڈیڑھ سو میل شمال میں ’’شولور‘‘ کے انتہائی خطرناک جنگل میں شیر کے شکار کی باتیں کرتے رہے..... پونو اس شکار میں میرے ساتھ رہا تھا ..... یہ 1974ء کا واقعہ ہے .....
غرضیکہ ..... اب تو یہ دنیا اس قدر چھوٹی ہوگئی ہے کہ مختلف علاقوں میں جاتے کبھی کبھی کوئی صورت آشنا مل ہی جاتا ہے ..... حتیٰ کہ گذشتہ سال نومبر1994ء میں کراچی سے پیرس آیا ..... پیرس سے نیویارک جانا تھا ..... میں لاؤنج ٹہل رہا تھا کہ ایک صاحب نے قریب آکر مجھے مخاطب کیا .....
’’مسٹر نقوی..... ؟‘‘
’’ہاں ..... ‘‘ وہ صورت آشنا تھا ..... مگر مجھے یاد نہیں آیا..... نیپالی ..... گورکھا خدوخال ..... گھٹا ہوا جسم چمکتی آنکھیں.....
’’آئی ایم ہرپال ..... ‘‘
نیپال میں شیر کے شکار میں ہاتھی پر میرے ساتھ ہرپال بٹھایا گیا تھا ..... اور جو تلخ تجربہ ہاتھی پر بیٹھنے کا ہوا تھا ہم دونوں اس وقت اس کی یاد کر کے خوب ہی ہنسے ..... وہ لندن میں رہتا تھا ..... اور اسی روز لندن سے ایرانڈیا کی فلائٹ پر دہلی جا رہا تھا جہاں سے کھٹمنڈو جانا تھا ..... یہ وہ لوگ تھے جو بیرون ممالک میں مجھ سے آشنا ہیں ..... لاہور میں ان لوگوں کو سب جانتے ہیں جو میرے ساتھ شکار میں رہ چکے ہیں .....
اور اب ..... امریکہ میں بھی میرے جاننے والوں کی تعداد خاصی ہے ..... ٹلسا ..... ڈلس ..... ڈنور ..... مانٹینا ..... یوٹا ..... نارتھ ڈکوٹا ..... الاسکا ..... بحمداللہ میں جہاں بھی شکار کے لیے گیا وہاں اپنی یاد میں ایک باوقار اور مہذب شکاری کی حیثیت میں چھوڑ آیا..... خوشگوار تاثر چھوڑا ..... اور شکار میں کامیاب رہ کر یہ بھی دکھادیا کہ صرف برائے نام شکاری نہیں ہوں ..... !
شکار اب روز بروز دشوار ہوتا جا رہا ہے اور اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں ..... اس سال اکتوبر میں کولوریڈو میں (COLORADO) میں مجھے ELK کے شکار پر جانا ہے ..... کولوریڈو کا ٹلسا سے بارہ سو میل کاہی فاصلہ ہے ..... امریکہ میں ہی ہے .....لیکن ابھی تک تخمینہ تقریباً دو ہزار ڈالر خرچ کا ہے اس کے فوراً بعد مجھے نیو میکسیکو جانا ہے ..... اور یہ سلسلہ فروری1996 تک چلتا..... اس کے بعد صرف مقامی شکار رہ جائے گیا ..... ہر سال یہی ہوتا ہے .....
لیکن ..... جو مواقع مجھے اب میسر ہیں شاید وہ اکثر لوگوں کو میسر نہ ہوں ..... ہر سال ہر قسم کے لائسنس کی فیس بڑھتی جاتی ہے..... امریکہ کے سوا دنیا کے ہر ملک میں شکار کم ہوتا جا رہا ہے قابل شکار جانور مفقود ہونے کی حدود میں داخل ہونے لگے ہیں ..... اور اس قبیلے میں جانور آیا اس کا شکار بند ہوجاتا ہے شیر کے سلسلے میں بھی ہندوستان میں یہی ہوا ..... ان کی تعداد اب اتنی کم ہے ..... اور زمانہ اس قدر ترقی کر گیا ہے کہ جانوروں کی حفاظت اور مساعی بقا کی اہمیت سب ہی پر روشن ہے ..... اور خواہ وہ کسی ملک کے ارباب اختیار ہوں..... یا شکاری..... سب کی خواہش یہی ہے کہ قابل شکار جانوروں کی نسل کسی نہ کسی طرح باقی رہے .....
میں بھی قابل شکار جانوروں کی بقا کا حامی ہوں ..... ان کی نگہداشت نگرانی اور حفاظت کو ضروری خیال کرتا ہوں اس لیے کہ ان کی حفاظت و بقا کے ساتھ ہی شکار وابستہ ہے اگر جانور نابودہوں گے تو ہر سال ان کی ایک مقررہ تعداد کے شکار کی اجازت ملے گی..... وہ کتنی ہی گراں قیمت کیوں نہ ہو ..... جو لوگ صاحبان استطاعت ہیں وہ قیمت ادا کرکے شکار تو کریں گے ..... اگر جانور ناموجود ہوں گے تو پھر کوئی بھی قیمت ان کوواپس نہیں لاسکتی ..... انسان ایٹم اور ہائیڈروجن بم بے شک بنا لے ..... لیکن ایک ہرن پیدا نہیں کر سکتا ..... تخلیق کا کام اس خالق کون و مکاں کا ہی رہے گا ..... !
میں جب تک بقید حیات ہوں ..... تب تک تو انشاء اللہ شکار قائم رہے گا ..... لیکن میں چاہتا ہوں میرے بعد آنے والی نسلیں بھی شیر وں چیتوں اور ریچھوں کو دیکھیں پھر میری کتابیں پڑھیں اور حیرت زدہ رہ جائیں کہ ان حسین درندوں کا شکار کس طرح کیا جاتا تھا اور کیسے کیسے خطرات پیش آیا کرتے تھے ..... جن سے دو چار ہونے کی آئندہ نسلوں کو نہ ضرورت ہوگی نہ مواقع ہوں گے ..... میں سمجھتا ہوں دن بیس سال بعد شیر اور چیتوں کا شکار قطعاً بند ہی ہو جائے گا ..... اب بھی بند ہی ہے ..... آئندہ اور سختیاں ہوں گی ..... !
امریکہ میں جو حیات حیوانی ہے ان کے حفاظت اور بقا کی ضمانت دی جا سکتی ہے ..... امریکہ میں قابل شکار جانوروں کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ..... ان کی اتنی حفاظت کی جاتی ہے کہ بعض ایسے جانور جو تقریباً ختم ہونے کو تھے ..... جیسے جنگلی بھینسا ..... ان کی تعداد اب خاصی قابل ذکر ہوگئی ہے ..... اور اس تعداد میں برابر اضافہ ہو رہا ہے ..... اسی طرح ایک نہایت چھوٹی چڑیا بہ نام (LEAST TERN) مٹنے کو ہوگئی ..... اس کو ENDANGEKED SPECIES قرار دے کر نسل افزائی کی کوشش کی گئی اب ان کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے ..... امریکہ کی گنجی چیل (BALD EAGLE) جو نہایت خوبصورت جسیم پرندہ ہے ..... امریکہ کی گنجی چیل (BALD EAGLE) جو نہایت خوبصورت جسیم پرندہ ہے ..... نابود ہونے کوتھی ..... لیکن اب سینکڑوں کی تعداد ہوگئی ہے ..... پاکستان میں دو تین ہی قابل شکار جانور تھے .....
ہڑیال ..... MOUNTAIN SHEEP
ہرن ..... DEER (GAZEL)
پاڑا ..... HOG DEER
غزال ..... چکارا اور دوسری قسم کے جانور ..... چترال ‘ گلگتُ اسکردو ‘ حنزہ کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں ..... ان کو بظاہر زیادہ خطرہ نہیں ہے ..... اس لیے کہ جہاں یہ جانور ملتے ہیں وہاں ہرکس و ناکس نہیں پہنچ سکتے ..... لہٰذا ہڑیال‘ پاڑااور ہرن ..... میں جانتا ہوں ختم ہو چکے ہوں گے ..... ہرن میرے علم میں دو مقامات پر پایا جاتا تھا ..... گڑھ مہاراجہ ..... فتچور ..... اورپہاولپور میں ..... دونوں جگہ تیس سال پہلے جس بیدردی سے ان کو تباہ کای گیا ..... اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ بہاولپور میں رات کے وقت جیپ کے ذریعے ان کا تعاقب کر کے بیس بیس ہرن بیک وقت ہلاک کیے گئے ہیں ..... یہ شکار نہیں ..... قصابی ہے ..... یہ ملک دشمنی ہے .....
میں یہ واقعہ تیس سال پہلے کا بیان کر رہا ہوں جبکہ میں لاہور میں رہتا تھا اور قصابوں کے قصے مصدقہ طور پر بتائے جاتے تھے ..... اب تک تو میدانوں میں نہ ہرن رہا ہوگا نہ چولستان کے علاقے میں کوئی اور جانور ہوگا۔
اس طرح ہڑیال اور پاڑا.....
دو تین سال پہلے میں پاکستان گیا تو جا بجا بڑے بڑے پوسٹر لگے تھے جن پر لکھا تھا ..... ’’ خدا کے لیے پاڑے پر رحم کیجئے ..... خدا کے لیے پاڑے مٹ ماڑیئے..... ‘‘حکومت اور قانون کا یہ طریقہ نہیں لوگوں کی خوشامد کرنے سے کام نہیں بن سکتا تھا ..... دشواری یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت کی مشنری کسی دولت مند ‘ بااثر ‘ با سورخ شخص زمیندار ..... جاگیردار ..... کسی کو جرم کرنے سے روکنے کی اہلیت نہیں رکھتی ..... پاکستان میں جو شخص صاحب ثروت ہے ..... زمیندار یا جاگیردار ہے ..... اس کو اپنے علاقے میں بادشاہانہ اختیارات ہیں ..... نہ پولیس ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہے نہ حکومت ..... صرف غریب بے اثر لوگ پھنستے ہیں اور قانون ان کو اذیت پہنچا کر خوش ہو لیتا ہے .....(جاری ہے )
شکاری۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... قسط نمبر 14 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں