ملک میں آب و ہوا بدلنے سے جانور اور فصلوں کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے

ملک میں آب و ہوا بدلنے سے جانور اور فصلوں کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے
ملک میں آب و ہوا بدلنے سے جانور اور فصلوں کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سرگودھا(رپورٹ :امتیازاحمد )پاکستان میں بدلتے موسموں سے اجناس اور جانوروں پر بہت برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔آب و ہوا کا تعلق براہ راست زراعت پر ہے۔ اس میں تبدیلی آنے سے فصلوں اور جانوروں کی پیداوار میں تبدیلی آرہی ہے۔ آب و ہوامیں تبدیلی آنے کا انحصار درجہ حرارت ، نمی اور بارش پر ہے ،ہماری آب و ہوا میں تبدیلی زیادہ تر درجہ حرارت بڑھنے سے آرہی ہے۔ ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے زیادہ ہونے سے درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ساتھ دوسرے زہر یلے مادے جو فیکٹریوں اور گاڑیوں کے دھواں سے نکلتے ہیں جو ہمارے ماحول کو خراب کرنے کے ساتھ ساتھ درجہ حرارت میں تبدیلی کا سبب بن رہے ہیں۔ اسطرح ریفریجریٹر سے نکلنے والی گیس کلوروفلور کاربنز ہے جوکہ انتہائی نقصان دہ گیس ہے ۔یہ اوزون تہہ کو کمزور کر رہی ہے جس سے سورج کی نقصان دہ شعاعیں زمین پر پہنچ رہی ہیں۔جس سے گرمی میں اضافہ ہورہا ہے. اس درجہ حرارت میں اضافہ سے آب و ہوا میں تبدیلی آرہی ہے ۔اس تبدیلی کا اثر ہماری فصلوں پر آرہاہے۔

اس کے ساتھ ساتھ نئی بیماریوں اور نئے کیڑوں کا اضافہ ہورہا ہے جو زراعت کو نقصان پہچاتے ہیں کیونکہ مختلف فصلوں کو اگنے اور پھل دینے کے لیے مختلف درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے ۔مثال کے طورپر سیب کو اگنے اور اپنا Vegetative ٹائم مکمل کرنے کیلیے کم درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے سردعلاقے میں اگایاجاتاہے لیکن سردی کادورانیہ کم ہورہاہے. جس سے سیب اگنے کے بعد جلد ہی لائف ٹائم مکمل کر کے پھل کی طرف چلا جاتا ہے اور Immaturity کا سبب بن جاتا ہے جس سے پیداوار اور کوالٹی میں کمی آرہی ہے۔ اسطرح درجہ حرارت بڑھنے سے ہماری سب سے اہم فصلیں گندم ، مکی۔ چاول۔ کپاس کی پیداوار کمی آرہی ہے۔ ان فصلوں کو ضرورت سے زیادہ درجہ حرارت ملنے کی وجہ سے یہ اپنا لائف ٹائم جلد مکمل کر لیتی ہیں۔ جس سے پیداوار میں کمی آرہی ہے ۔

اگر ہم گند م کی مثال لیں جو ہماری Stapleخوراک ہے، اسکو مارچ میں 20سے 25 سینٹی گریڈ درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن یہ درجہ حرارت مارچ کے دور ان 25سے 30 سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتاہے۔ جو کہ گندم کے لیے مناسب نہیں ہوتا ہے ۔اس لیے وہ پیداوار جو ہم حاصل کرناچاہتے ہیں وہ حاصل نہیں کرسکتے ۔اس کیساتھ ان کیڑوں میں اضافہ ہورہاہے جو فصل کو نقصان پہنچاتے ہیں کیونکہ اکثر کیڑوں کے لیے 30 سے 40 کے درمیان درجہ حرارت مناسب ہوتا ہے ۔اس لیے آب وہوا میں تبدیلی سے نقصان دہ کیڑوں میں اضافہ ہورہاہے اور بیماریوں میں اضافہ ہورہا ہے جس سے پیداوار میں کمی آرہی ہے۔ ان کو روکنے کے لیے ہمیں نئی ٹیکنالوجی کواستعمال کرنا پڑتا ہے۔ یعنی سپرے وغیرہ جس سے ماحول بھی متاثر ہوتا ہے اور زیر زمین پانی جو پینے کے لیے استعمال ہوتا ہے وہ بھی خراب ہورہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان جڑی بوٹیوں کااضافہ ہورہا ہے جو فصل کو بے حد تک متاثر کرتی ہیں اور کیڑوں کی خوراک کا ذریعہ بن رہی ہیں ۔یہ سب آب و ہوا میں تبدیلی آنے سے ہور ہاہے۔

گوشت اوردودھ دینے والے جانوروں پر آب وہوا کی تبدیلی کا بہت اثر ہوتا ہے۔ جتنی بھی اچھی نسل کی گائے جو ہمیں دودھ کی ایک اچھی پیداوار دیتی ہیں ،مثال کے طورپر جرسی ، فریزن اور آسٹریلین نسل کی گائے کو 20 سے 30 درجے حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جونہی درجہ حرارت 30 درجہ سے زیادہ ہوتاہے تو دودھ کی پیداوار میں کمی آنا شروع ہوجاتی ہے۔ یہاں تک کہ درجہ حرارت زیادہ ہونے سے ان کی اموات ہوجاتی ہیں۔اس لیے ہر سال ان نسل کی گائے کی اموات پاکستان میں گرمیوں میں زیادہ ہوتی ہیں ۔اس لیے ہمیں آب وہوا کی اس تبدیلی کو روکنا ہوگا۔ فیکٹریوں سے نکلنے والے دھواں کو جدید آلات کے ذریعے صاف کر کے ہوا میں داخل کرنا ہوگا اور گاڑیوں کا استعمال کم کرکے پبلک ٹرانسپورٹ کااستعمال کرنا ہوگا۔ گھروں میں کم ریفریجرٹرز استعمال کرکے اوران کے ساتھ ہمیں گھروں اور سڑکوں پہ درخت لگانے ہوں گے جن سے ہمارا گھراور ماحول صاف اور ٹھنڈا رہے کیونکہ درختوں کی وجہ سے بارشیں زیادہ ہوگی۔ اور موسممیں ٹھنڈکرہے گی ۔