پھر وہی تذکرہ کتابوں کا
سوشل میڈیا پر آج کل ایک مہم زوروں پر ہے کہ ”کتاب خرید کر پڑھو“ اس مہم کو معروف شاعر، سفر نامہ نگار اور نقاد آغا سلمان باقر نے متعارف کرایا اور اب ایک ٹاپ ٹرینڈ بنتی جا رہی ہے، مگر یہ کام یکطرفہ طور پر نہیں ہو سکتا، اس کے لئے ضروری ہے کہ کتاب کی قیمت بھی مناسب رکھی جائے۔ جب آپ دو سوصفحات کی کتاب پر قیمت 9 سو روپے لکھ دیں گے تو کون اسے خریدنا چاہے گا۔ تاہم اصولاً یہ بات درست ہے کہ کتاب بکے گی تو زندہ رہے گی۔ کتاب بینی کو آگے بڑھانے کے لئے آج چند نئی کتابوں کا تعارف پیش کیا جا رہا ہے، جو لکھاری دوستوں کی طرف سے موصول ہوئی ہیں....
کراچی سے معروف شاعرہ رضیہ سبحان نے اپنا پانچواں شعری مجموعہ ”آگہی کی منزل پر“ بھیجا ہے۔ رضیہ سبحان ایک کہنہ مشق لکھاری ہی نہیں، منفرد و جدید طرز کی مصور بھی ہیں۔وہ درس و تدریس کے شعبے سے منسلک رہی ہیں اور ایک سرکاری کالج کی پرنسپل کے طور پر ریٹائر ہوئیں۔ ان کا یہ شعری مجموعہ ایک ایسی شاعرہ کے فکر رسا کی تخلیق ہے جو واقعی آگہی کی اعلیٰ منزل پر کھڑی ہے۔ وہ زندگی کو اپنے ذہنی و فکری تجربے کی آنکھ سے دیکھتی ہے۔ اس مجموعے میں نظمیں اور غزلیں شامل ہیں۔ رضیہ سبحان کی غزل فنی و فکری پختگی کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ ان کے مجموعے کا نام آگہی سے عبارت ہے تو ان کی غزل بھی اس کی نمائندہ ہے۔
جس طرح پروین شاکر نے ”خوشبو“ کے بعد شعور و آگہی کو اپنی شاعری کا خمیر بنایا تھا، اسی طرح رضیہ سبحان کے اس پانچویں مجموعے کی شاعری فکر و نظر کے کئی در وا کرتی ہے۔ شاعری کے میدان میں وہی شاعر زندہ رہتا ہے جو ارتقائی سفر پر گامزن رہا ہو۔ جس کے ہاں وقت کی لہریں اپنا نقش ثبت کرتی جا رہی ہوں۔ رضیہ سبحان کے ہاں جمود نہیں، سفر نظر آتا ہے۔ انہوں نے خود کو ہمیشہ روحِ عصر کے ساتھ جوڑا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں بہت تنوع ہے۔
اس پانچویں شعری مجموعے کا فکری افق بلندیوں کی انتہا کو چھو رہا ہے۔ محمود شام لکھتے ہیں: ”مجھے رضیہ سبحان قریشی کی شدت احساس کا اندازہ ہوا کہ اپنے گرد و پیش کا کتنا ادراک رکھتی ہیں زندگی کے اسرار جاننے کے لئے کتنا انہماک ہے“۔ محمود شام نے جس پہلو کی نشاندہی کی ہے، وہ رضیہ سبحان کی شاعری میں ایک زندہ رو کی صورت موجود ہے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
آگہی کی منزل پر جس گھڑی قدم رکھا
پھر تو ہم نے خالق کو اپنے جا بجا پایا
اس قلزم ہستی کا فسوں کتنا عجب ہے
موجود بھی ہوتے ہوئے، موجود بھی کب ہوں
بے گھر تھی میرے دل میں اک گھر بنا دیا
مجھ کو تو ضبطِ غم نے تونگر بنا دیا
سفر حج کو ناصر بشیر نے ”حج بیتی“ کے عنوان سے مبارک سفر کی ایک زندہ روداد بنا دیا ہے۔ حج ایک مذہبی فریضہ ہے، تاہم اسے داخلی سطح پر محسوس کرنا اور اس کی کیفیات میں ڈوب جانا ایک بڑی سعادت ہے۔
کتاب ورثہ نے ناصر بشیر کی اس واردات قلبی پر مبنی روداد کو بڑی خوبصورتی سے شائع کیا ہے، جس کے مدارالمہام مظہر سلیم مجوکہ ہیں۔ اس کتاب کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ناصر بشیر نے دیار مقدس کے سفر میں اپنی ظاہری و باطنی آنکھ بیک وقت کھلی رکھی ہے۔ اپنے آغاز سفر کے معجزوں سے لے کر سفر کی تکمیل تک انہوں نے اتنے گوشے تلاش کئے ہیں کہ ان کی نظر بینا کو داد دینی پڑتی ہے۔ میری نظر سے ایسا مجموعہ سفر حج نہیں گزرا جو اتنی جزئیات کے ساتھ زمین پر بکھری مقدس حقیقتوں کو بیان کرتا ہو۔
اس کتاب کو جتنے خوبصورت عنوانات کے تحت ناصر بشیر نے ترتیب دیا ہے، وہ بذاتِ خود ان کی خلاقیت کو ظاہر کرتے ہیں ایک سیدھی سادی روداد بھی ہو سکتی تھی، مگر انہوں نے تو ذرے ذرے پر نظر رکھی ا ور جو جھکڑ ان کے قلب و نظر میں چلتے رہے، انہیں پوری شدت و محبت سے رقم کر دیا۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ سب کچھ کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کر رہے تھے، جسے بعد میں انہوں نے صفحہ¿ قرطاس پر اتار دیا، حالانکہ ایسا نہیں۔
انہوں نے سب کچھ دل کی نگاہ سے دیکھا اور دِل میں محفوظ کر لیا جو بعد ازاں ان کے قلم سے سرزد ہوا تو ایک شاہکار روحانی فن پارہ بن گیا۔ ناصر بشیر نظم و نثر دونوں میدانوں میں یکساں دسترس رکھتے ہیں۔ یہ سفر نامہ ان کے عمدہ نثر نگار ہونے کی دلیل ہے۔ شاعر تو ہیں ہی با کمال۔ مجیب الرحمن شامی اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں: ”حج کے سفر نامے بہت لکھے گئے اور بہت لکھے جائیں گے، لیکن ناصر بشیر کی ”حج بیتی“ اپنی بے ساختگی کی وجہ سے ہمیشہ یاد رہے گی“۔
اسلام آباد میں مقیم نوجوان شاعرہ یسریٰ وصال کے شعری مجموعے ”وصال یار“ نے خاصی دھوم مچا رکھی ہے۔اس مجموعے کے بارے میں اکثر لوگوں میں حیرت پائی جاتی ہے اور اس کی وجہ اس کے گہرے مطالب، پختہ لب و لہجے اور فکری اپچ پر مبنی شاعری ہے۔ ایک نئی شاعرہ نے آتے ہی اپنی شاعری سے سب کو حیران کر دیا۔ کئی ایک کو تو ”وصال یار“ کی شاعری ایک پختہ کار ہنرمند کی شاہکار نظر آتی ہے۔ یسریٰ وصال پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں، انہیں خود بھی احساس ہے کہ وہ شاعری کے میدان میں نو آموز ہیں،ان کا ایک شعر دیکھئے:
اے شہر سخن خیال رکھنا
آئی ہوں ادھر نئی نئی مَیں
انہوںنے لکھنے کے سفر کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا، پھر ان کی میلان طبع انہیں نثر ی نظم کی طرف لے آئی۔ غزل میں طبع آزمائی کی اور یہ شعری مجموعہ ترتیب پایا۔”وصال یار“ میں نسوانی جذبوں کا بڑی خوبصورتی سے اظہار ہوا ہے، جس طرح پروین شاکر کے پہلے شعری مجموعے ”خوشبو“ میں ایک لڑکی اپنے کومل احساسات اور جذبوں کا اظہار کرتی نظر آتی ہے، اسی طرح یسریٰ وصال کے ہاں بھی ایک لڑکی کے سچے اور کھرے جذبوں کا بے لاگ اظہار ہوا ہے۔جب کوئی نیا شاعر یا شاعرہ بھرپور شعری اوصاف سے لیس ہو کر میدان میں آئے تو شکوک کے تیشے چلانے والے بھی نکل آتے ہیں۔
یہی کچھ پروین شاکر کے ساتھ بھی ہوا تھا، مگر آگے چل کر سب مان گئے کہ ایک منحنی سی لڑکی ہی لمحہ ¿ موجود کی بڑی شاعرہ ہے۔ یسریٰ وصال کو بھی تخلیق کا سفر جاری رکھنا ہوگا۔ جس مضبوط و منفرد لب و لہجے کے ساتھ وہ ”وصال یار“ کی صورت میں سامنے آئی ہے، وہ مستقبل میں اسے ایک بڑی شاعرہ کی مسند تک لے جا سکتا ہے۔
محبت کے سوا کیا ہے یہ اندازِ رفاقت
اکٹھے سیڑھیاں چڑھنے اترنے کی تمنا
حقیقت میں تو یہ قربان ہونے کی ادا ہے
کسی کی زندگی میں رنگ بھرنے کی تمنا
”سبز ہلالی پرچم اپنا“ کہنہ مشق شاعر نجف علی شاہ کی ملی شاعری کا مجموعہ ہے۔
نجف علی شاہ یوں تو ہر فن مولا ہیں، غزل، نظم، مرثیہ، منقبت غرض ہر صف میں یدطولیٰ رکھتے ہیں، تاہم غزل ان کا خاص میدان ہے۔ سفر نامے اور تنقید و تحقیق میں بھی انہوں نے گراں قدر کام کیا ہے۔ بھکر ان کی جنم بھومی ہے اور اسی دور افتادہ شہر میں بیٹھ کر انہوں نے قومی سطح پر اپنی شناخت بنائی ہے۔ ملی شاعری کے حوالے سے ایک مجموعہ کلام سامنے آنا ایک غیر معمولی بات ہے۔ ان کی یہ شاعری ایک محب وطن پاکستانی کی سوچوں کا عکس ہے۔وہ پاکستان سے عشق کرتے ہیں اور اس کی جھلک اس کتاب میں جا بجا نظر آتی ہے۔
نجف بخاری لکھتا رہوں مَیں اپنے وطن کے گیت
دھرتی میرا سرمایہ ہے دھرتی میری میت
سبز ہلالی پرچم اپنا قدرت کا انعام
امن کا مظہر، حسن کا پیکر، وحدت کا پیغام
شاعر نے اس کتاب میں پاک فوج اور کشمیر کے شہداءکو بھی خراج عقیدت پیش کیا ہے:
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو یہ دیکھنا
امن کی راہ میں کھڑی دیوار گرتے دشمنو
میجر عزیز بھٹی شہید، میجر سرور شہید، کرنل شیر خان شہید، میجر شبیر شہید، لالک جان شہید اور دیگر شہدا پر نظمیں خاصے کی چیزیں ہیں.... ”سبز ہلالی پرچم اپنا“ اپنے موضوع کے لحاظ سے ایک منفرد کتاب ہے۔