ارض حرمین اک بار پھر نشانے پر

ارض حرمین اک بار پھر نشانے پر
ارض حرمین اک بار پھر نشانے پر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

رمضان المبارک کی پرکیف ساعتیں چل رہیں ہیں ، اسی دوران انتہائی کرب ناک خبر ملی کہ حوثی باغیوں نے اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کی لئے ایک مرتبہ پھر ارض حرم پر میزائل حملے کئے ہیں۔پیر  اور منگل(کل اور آج) کے روز مملکت سعودی عرب کی ائر ڈیفنس فورس نے داغے گئے چار بیلسٹک میزائل فضا ہی میں ناکارہ بنا کر مکہ مکرمہ اور جدہ شہروں کو بڑی تباہی سے بچا لیا۔جب سے یہ خبر سنی تو دماغ ماؤف ،جگر پھٹنے اور کلیجہ منہ کو آنے لگا۔دل شدت غم سے یوں دھڑکا کہ سینے سے نکل کر باہر آنے کو تھا۔بد بختوں نے اس مبارک مقام کو نشانے بنانے کی کوشش کر ڈالی ۔یہ تو وہ مقام تھا جس کے بارے میں خود رب کائنات کا فرمان ہے کہ جس نے اس مقام پر بلند آواز سے بھی بات کی میں اس کے نامہ اعمال ضائع کر دوں گا۔یہ تو وہ شہر تھا جس کے بارے میں نبی مکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ ”خدا کی قسم!تو اللہ کی زمین میں سب سے بہتر جگہ ہے اور اللہ کی نگاہ میں سب سے زیادہ محبوب ہے اور اگر مجھے یہاں سے نکلنے اور ہجرت کرنے پر مجبور نہ کیا گیا ہوتا،تو میں ہر گز تجھے چھوڑکر نا جاتا“۔

جس کے بارے میں آپ ﷺ کا فرمان تھا کہ” میری امت جب تک اس حرم مقدس کا پورا احترام کرتی رہے گی اور اس کی حرمت و تعظیم کا حق ادا کرے گی، خیریت سے رہے گی اور جب اس میں یہ بات باقی نہ رہے گی برباد ہو جائے گی“۔جہاں قتل و غارت گری تک حرام قرار دیا گیا۔جہاں جانوروں تک اماں حاصل ہو،گھاس تک کاٹنے کی ممانعت ہو۔ہر اس اقدام یا عمل کو حرام قرار دیا گیا جو اس مقدس جگہ کے ادب و احترام کے خلاف ہو۔سوچتا ہوں کائنات کی کس رذیل ترین سوچ اور نظریات رکھنے والے افراد نے اس مقام کو کیسے نشانہ بنانے کا سوچا یا گوارا کیا ؟ بُرا ہو ان رذیل ترین نظریات اور خصلتوں کے حامل شیطانی آلہ کاروں کا جنہوں نے حرم کی پاکیزہ و بابرکت فضاکوسوگوار کرنے کی مضموم کوشش کی۔انہی باغیوں کے سرپرستوں نے ایسی ہی ایک ناپاک کوشش چند سال قبل مدینہ منورہ میں مسجد نبویﷺ کے باہر بم دھماکے کی صورت میں بھی کی گئی تھی۔

انتہائے عشق کا اندازہ کیجئے کہ مسلمانوں کے لئے دو شہر ہی سب سے زیادہ محبوب ہیں ۔وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوتمام عمر مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ میں مرنے کے امید لئے دنیا سے چلے جاتا ہے۔مدینہ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے خود فرمایا کہ”میں مدینہ کے دونوں پہاڑوں کے کناروں کے درمیان کو حرام(باعظمت)قرار دیتا ہوں لہذا نہ تو اس زمین کے خار دار درخت کاٹے جائیں ،اور نہ اس میں شکار مارا جائے ۔ایک اور مقام پر حضور ﷺ نے فرمایا ”حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو بزرگی دی اور اس کو ”حرم “قرار دیا اور میں نے مدینہ کو بزرگی دی اور مدینہ کے دونوں کناروں کے درمیان کی بزرگی کا تقاضہ یہ ہے نہ تو اس میں خون ریزی کی جائے اور نہ وہاں جنگ کے لئے ہتھیار اٹھایا جائے اور اس کے درختوں سے پتے جھاڑے جائیں“۔ 
حرمت مدینہ کا صحابہ کرامؓ  بہت خیال فرمایا کرتے تھے۔ایک مرتبہ حضرت سعد بن وقاصؓ  نے ایک شخص کو پکڑا جو ”حرم مدینہ“ کے اطراف میں شکار مار رہا تھا، حضرت سعدؓ  نے اس شخض کے کپڑے چھین لئے ، اس شخص کے مالک آئے تو انہوں نے آپؓ سے اس بارے میں گفتگو کی۔حضرت سعدؓ نے ان سے کہا کہ حضورﷺ نے فرمایا ہے”اگر کوئی شخص کسی ایسے آدمی کو پکڑ لے جو(مدینہ کے اندر ) شکار مار رہا ہو تو وہ اس کا سامان چھین لے“۔
اسی طرح ایک مرتبہ امیر المومنین سیدنا عمرؓ  نے ایک شخص کو دیکھا جو روضہ رسول ﷺ کے قریب کیل ٹھونک رہا ہے جس کی وجہ سے شور کی آواز پیدا ہو رہی تھی۔آپؓ نے اس کو پکڑ کر سزا دینا چاہی لیکن جب معلوم ہوا کہ وہ وہاں کا رہنے والا نہیں ہے تو اسے چھوڑ دیا۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان مبارکہ ہے کہ” میری امت کے لوگوں کو چاہئے کہ وہ میرے ہمسایوں یعنی اہل مدینہ کے احترام کو ہمیشہ ملحوظ رکھیں ، ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتا ہی نہ کریں ،ان سے اگر کوئی لغزش ہو جائے تو اس پر مواخذہ نہ کریں۔جو شخص ان کے احترام و حرمت کو ہمیشہ ملحوظ رکھے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کرنے والا ہوں گا۔جو شخص اہل مدینہ کے احترام و حرمت کو ملحوظ نہیں رکھے گا اسے دوزخ کے حوض سے پیپ اور لہو پلایا جائے گا“۔
ایک دن حضورﷺ نے دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے اور یوں فرمایا !اے اللہ جو میرے شہر والوں کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے اسے جلد ہلاک کر دے۔ایک اور فرمان مبارکہ ﷺ ہے کہ ”جس شخص نے اہل مدینہ کو ڈرایا گویا اس نے مجھے ڈرایا“۔امام نسائی روایت کرتے ہیں کہ ”جس شخص نے اہل مدینہ کو اپنے ظلم اور خوف میں مبتلا کیا اس کو اللہ تعالی خوف میں مبتلا کرے گا اور اس پر اللہ کی ،فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہوگی“۔یقیناوہ لوگ ،وہ نظریہ، وہ ملک لعنت کا مستحق ہے جو حرمین شریفین کی طرف برائی کا ارادہ رکھتا ہو۔
عاشقان رسول ﷺ کے لئے تمام اعمال سے ارض حرمین الشریفین کا تحفظ بالخصوص روضہ اطہرﷺ و مقدسات کا تحفظ ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ شیطانی حزب یا کوئی بھی گروہ امت مسلمہ انکے کے مذموم ارادوں کو خاک میں ملانے کے لئے امت مسلمہ جسد واحد کی مانند سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوگی۔مشہور کہاوت ہے کہ جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے۔بیت اللہ کے تحفظ پر ہمارا نظریہ و اعتقاد وہی ہے۔ جو حضرت عبدالمطلب نے ابرہہ کو جواب کی صورت میں دیا تھااور کعبے کی حفاظت کے لئے اللہ تعالی نے اپنی ایک حقیر سی مخلوق کو بھیج کر طاقت کے نشے میں مخمور لشکر ملیا میٹ کر دیا تھا۔

اسی طرح مدینے کی حفاظت کا ذمہ بھی خود اللہ رب العزت نے لیا ہے۔قرب قیامت دجال مکہ مکرمہ اور بالخصوص مدینۃ الرسول ﷺ میں کسی بھی صورت داخل نہ ہو سکے گا۔عالم اسلام کا بچہ بچہ حرمین کا تحفظ حضرت طلحہؓ و سعدؓ کی طرزپر کرنا جانتا ہے۔امت مسلمہ کے لئے نور الدین زنگیؒ کا کردار و عمل مشعل راہ ہو گا کیونکہ سرزمین حرمین ہماری محبتوں کا محور و مرکز ہے،وہاں بیت اللہ شریف ہے،مقام ابراہیمؑ ہے،ملتزم ہے،وہاں نبی مکرم ﷺ کا بچپن گزرا،جوانی گزری،وہاں حضورﷺ کا مقام ہجرت ہے،حضورﷺ کا مقام سکونت ہے، حضورﷺ کا روضہ انور ہے،مسجد نبوی شریف ہے، حضور ﷺ کا منبرو محراب ہے،حضورﷺ کا محبوب ترین شہر ہے، حرم نبوی ﷺ ہے، حضورﷺ کا روضہ مبارک ہے۔
انسانیت کی بقا کے لئے جو قوتیں کام کر رہی ہیں ان سے درد مندانہ درخواست ہے کہ وہ اس فتنے کو روکیں،ورنہ اس فتنے کی چنگاریوں سے عالمی امن تباہ و برباد ہونے کے خدشات جنم لیں گے۔

مسلمان ممالک کو چاہئے کہ ان حوثی باغیوں اور ان کے سرپرستوں کو مستقل سد باب کرنے کے لئے جامع حکمت عملی ترتیب دیں۔یہ کسی فرقے ، گروہ ، مسلک یا ملک کا معاملہ نہیں ہے بلکہ کروڑں مسلمانوں کے جذبات کو ابھارنے اور ٹھیس پہنچانے کی مذموم جسارت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ جس طرح دنیا کے دوسرے مقامات پر ہونے والی دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں اسی طرح ارض حرمین الشریفین پر ہونے والی دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کریں۔اہل قلم ، اینکر حضرات، وکلا ، تاجر ، ڈاکٹر، علما،اور امن کے لئے کام کرنے والے جتنے بھی ادارے ہیں وہ اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے فعال کردار ادا کریں ۔کہیں ہمیں روز محشر ساقی کوثرﷺ کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے ۔

پاکستانی قوم ہمیشہ کی طرح اس مشکل وقت میں بھی متولی و خادم الحرمین الشریفین کے تمام حفاظتی اقدامات کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو بھی چاہئے کہ آپس میں دست و گریباں ہونے اور کرسی کی کھینچا تانی چھوڑ کر ان سازشوں کا ادراک کرتے ہوئے قوم کے جذبات کی حقیقی ترجمانی کریں۔حکومت اور دفاعی ادارے ارض حرمین کے لئے جو بھی اقدام کریں گے قوم کو اپنے ساتھ کھڑا پائیں گے۔

نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں 

مزید :

بلاگ -