اِک زندگی مستعار…………
خواتین وحضرات ملک اور دنیا بھر میں کو رونا وائرس نے جو وحشت اور دہشت پھیلا ئی ہے اس نے انسانی صحت اور زندگی کے لئے ایک چیلنج پیدا کر دیا ہے۔ ہر طرف خوف کے سا ئے ہیں۔ ہم تو اس جینے کے ہا تھو ں مر چلے۔تا ہم اس وبا ء نے انسا نی ذہن کے بہت سے بند دریچے کھول دیئے ہیں۔سو چ و عمل کی نئی راہیں سجھا دی ہیں۔ انہی پریشانیوں اور اندیشوں سے ایک نئے کلچرنے جنم بھی لیا ہے،جس طرح جنگ عظیم اول و دوم کے بعد ان کی تما م تر ہو لنا کیوں کے با وجو د ایک نئی دنیا اور نئی سو چو ں کا ظہو ر ہو ااور اس سے متعلق مختلف مو ضوعات پر نا ول، کہانیاں، افسا نے، ڈرا مے اور فلمو ں نے جنم لیا،اسی طرح کو رو نا کے بعد بھی اس کی تبا ہ کا ریوں کو مو ضو ع فلم بنا یا جا ئے گا۔کا لموں، رپو رٹوں اور مضامین کے تو انبار لگ گئے ہیں۔ اس بیما ری کا ایک خاص پہلو یہ ہے، جو دیگر وبا ؤں اور بیما ر یو ں سے مختلف کر تا ہے کہ لو گ اپنے آپ کو گو شہ نشین کر لیں۔خو د کو گھروں میں قید کرلیں ……قید تنہائی…… خلوت نظر بند وغیرہ۔اس گو شہ نشینی سے لکھنے پڑھنے وا لوں نے خو ب فائدہ اٹھا یا ہے۔ ان میں یہ خا کسا ر بھی شا مل ہے۔ہمیں بھی بہت سا وقت میسر آگیا کہ اپنی من پسند کتا بیں پڑھ سکیں۔ التوء میں پڑھے کا لم اور مضا مین لکھ سکیں اور ایک قدیم عرصہ سے تیا ر فلمو ں کی لسٹ کے مطا بق یہ فلمیں دیکھ سکیں۔یہ سب اسی کو رونا کی وجہ سے ہی ممکن ہو پا یا جس کو رونا کا رونا دنیا رو رہی ہے۔
بقول میر تقی میر:
میر تو جو کرے ہے جی کا زیاں
فائدہ اس زیاں میں کچھ ہے
لیجیے خو اتین و حضرات ہم بھی کچھ پڑھنے، کچھ لکھنے اور کچھ دیکھنے بیٹھ گئے۔ پہلے ایک رف سی لسٹ بنا ئی کہ کیا پڑھا جا ئے کیا دیکھا جا ئے۔لسٹ کا بنا نا تھا کہ د ما غ چکرا گیا اور ایک نیا مسئلہ ایک نیا خیا ل دامن گیر ہوا۔یہ دنیا بہت وسیع ہے اور اس دنیا میں پڑھنے اور دیکھنے کہ لئے اتنا کچھ ہے، ہمیں پہلی مر تبہ احساس ہو ا کہ یا خدا، تو نے محض ایک زندگی عطا کی ہے جو اگرہوش و حوا س کے ساتھ ایک سو سا ل تک بھی محدود ہو تب بھی دیکھنے، گھومنے، پڑھنے اور تیری دنیا کو exploreکر نے لئے ہما رے سا منے سمندروں جتنا مو اد اور مو اقع مو جو د ہیں۔ ان سب کا مو ں کے لئے ایک زندگی تو بہت نا کا فی ہے،وہ بھی مستعا ر زندگی۔
علا مہ اقبا ل نے کیا درست فر ما یا ہے……
کیا عشق ایک زندگی مستعار کا
کیا عشق پائیدار سے ناپائیدار کا
میری بساط کیا ہے تب و تاب یک نفس
شعلے سے بے محل ہے الجھنا شرار کا
کتا بیں پڑھنے کی ٹھا نی تو سو چا کہاں سے شروع کریں کہاں ختم کریں۔اخبا رات کے میگزین، ڈائجسٹ، نقوش کے ضخیم نمبر، ناول، افسا نے، شا عر ی کی کتا بیں، کتا بو ں کے تراجم، پہلی اور دوسری عالمی جنگو ں پر کتا بیں اور نا ول، تا ریخی کتا بیں، سیا سی اور معا شر تی موضو عا ت پر مو اد، دینی اور نفسیا تی علوم۔ جغرا فیہ اور دنیا کے ملک و شہر، پیشے اور ہنر مندیا ں، آپ بیتی اور جگ بیتی پر مضامین اور کتابیں، ہفت روزہ رسالے اور ماہنامے، سفر نامے اور سیاحت (ایک مستنصر حسین تارڑ ہی کا فی ہیں)اور نوبل انعام یافتہ کتابیں اور ان کے مصنفین کے حالات……اف میرے خدا،یہ سب کچھ جو ابھی محض سمندر کا ایک قطرہ ہے۔اگر میرے جیسے کسی کتابی کیڑے کو یہ سب پڑھنا مطلوب ہو تو کیا یہ ایک زندگی نا کافی نہیں۔آخر یہ سب کچھ پڑھنے کے لئے ہی لکھا گیا ہے۔ اتنی طو یل عمر اور فرصت کہا ں سے لائیں۔
وہ جو فیض نے فر ما یا ہے……
اک فرصتِ گناہ ملی وہ بھی چا ر دن
دیکھے ہیں ہم نے حو صلے پروردگا ر کے
پھر یہ پرو گرا م تر ک کر دیااور سو چا کہ چلوٹیلی ویژن پر فلمیں اور دیگر پروگرا م ہی دیکھتے ہیں۔ یہاں بھی ایک گہر ا سمندر موجیں مار رہا تھا۔ دوسو سے زیادہ چینلز اور ایک سے بڑھ کر ایک دلچسپ معلوماتی۔ہسٹری چینل،آگے اس کے کئی ذیلی چینلز، ڈسکو ری چینلز، نیشنل جغرافک، اینمل پلا نیٹ، بی بی سی ارتھ، عالمی نیوز چینلز، فیچر فلمو ں کے چینلز جن پر دن را ت مختلف فلمیں چل رہی ہیں۔ وہی عالمی جنگ عظیم کی فلمیں، تاریخی فلمیں، دنیا کے ممالک، شہر، پرندے، جانور، لوگ، ثقا فت، معاشرت، مذاہب، تاریخ، سیاست، کھیلیں،تماشے، موسیقی، ڈرا مے، دستاویزی فلمیں، اسلامیات (صرف ڈا کٹر ذاکر نائیک کا پیس ٹی وی ہی بہت کافی ہے) نوبل انعام یا فتہ مو اد پر فلمیں، آسکر ایوارڈ یا فتہ فلمیں،”دنیا کی سو بہترین فلمیں“
دنیا کی ایجادات اور انقلاب پر فلمیں، چارلی چیلن کی تیار کردہ فلمیں ……اور اس پر یہ ستم کہ
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکون
اس خیا ل کو بھی تر ک کر دیا۔ پھر سو چا کہ گو روں نے کمپیو ٹر اور لیپ ٹا پ کس لئے ایجا د کیا ہے۔ اس سے فائدہ اٹھا ؤں۔ لیپ ٹا پ کھو لا تو یہاں بھی ایک جنگل بے لگا م دیکھا۔
فیس بک،گوگل،ٹویٹر، یو ٹیو ب جس پر دنیا جہان کی فلمیں، مو سیقی،کھیل،دستاویزی فلمیں، مذہبی پرو گرا م، ڈرا مے اور ہر وہ شے جو آپ دیکھنا چا ہیں، ایک گو گل ہی مان نہیں۔ اس پر علم و ہنر پر مو اد دیکھنے کے لئے ناکا فی ہے۔ ای میل پر بیٹھیں تو دنیا بھر کے لو گو ں سے را بطہ کر لیں۔ ہم نے سو چا یہ اپنے بس کی با ت نہیں۔ اپنا مو با ئل فون کھو لا کہ اس کو استعما ل کریں۔لیکن یہاں بھی ایک دنیا، ایک لا محدود رابطے اور وہ تما م کچھ موجود تھا جو ٹیلی ویژن اور کمپیو ٹر پر دیکھا سنا جا سکتا تھا۔ اس کے علاوہ پیغامات کی بھرمار۔ جو اب دیتے دیتے عمر بیت جائے۔ ہمیں خط لکھنے کا زما نہ بہت بھلا لگا۔ایک خط لکھو۔ہفتہ بعد جو ب آتا تھا اب اِدھر ٹیکسٹ کرو، ادھرجوا ب اور تبصروں کی لا ئن لگ جا تی ہے۔ ان سب سے ہٹ کراپنے پسندیدہ ترین میڈیم ریڈیو کی طر ف آیا،جو میری تنہا ئیوں کا سا تھی ہے۔ جسے میں کا م کرتے ہو ئے، لکھتے پڑھتے ہو ئے، نا شتہ کر تے ہو ئے، را ت کو بستر کے سر ہا نے اور حتیٰ کہ شیو بنا تے منہ دھو تے بھی سنتا ہو ں۔ اس میں کچھ پنا ہ ملی، سکو ن ملا، لیکن یہاں بھی ایف ایم چینلز کی بھر ما ر نے ایک مر تبہ پھر پر یشا ن کر دیا۔
خو اتین وحضرا ت بہت زیا دہ چو ائس بھی ایک مسئلہ بن جا تی ہے۔ مثلاً آپ کھا نے پینے کی طر ف آئیں تو خدا کی نعمتوں کی بھر مار پر اس کا شکر ادا کرتے نہیں تھکتے۔ پھل، مشروب، سبزیاں، بیکر ی کی اشیا ء،گو شت، مچھلی، مر غی اور پھر ان سب کی مدد سے تیا ر کر دہ انواع و اقسا م کی خو ردو نو ش، تنو ع کے سا تھ۔ یہاں بھی ایک زندگی، ان کو انجو ائے کر نے کے لئے نا کا فی لگی۔ ان سب سے بڑھ کر اللہ تعا لیٰ کی اس دھر تی اور کر ہ ارض کو دیکھنا، شہر، ممالک، گا ؤں، سمندر، با غا ت، قدرتی نظا رے،لو گ، ان کی مخصو ص معا شرت اور ثقا فت۔ ایک بر صغیر کو دیکھنے کے لئے کم از کم چا ر زندگیا ں درکا ر ہیں۔ اس کے علا وہ بھی بہت کچھ ہے جو ہما ری سو چوں سے ما ورا اور نظروں سے او جھل ہے۔ ہم تو بس اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ…… بقول علا مہ اقبال
تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی