صفاءی فوج
استاد صاحب نے زین کا رول نمبر
بریک کے بعد جو نہی مس سحر ش کلاس روم میں داخل ہوئیں،دیکھا بہت سی بچیاں انایہ کے اِردگر د کھڑی تھیں۔مِس سحر ش نے پوچھا بچو! خیر تو ہے؟یہ شور وغْل کیسا ہے؟ٹیچر! کسی نے انایہ کے جیو میٹری باکس سے ایک ہزار روپے نکال لئے ہیں۔
”یہ ایک ہزار لائی کیوں تھی؟“مِس سحرش نے پوچھا۔”ٹیچر!میں نے بازار سے جرسی لینی تھی“؛انایہ نے کہا۔ ”چوری کرنا بہت بْرا فعل ہے“؛ مس سحرش نے کہا،”اگر چوری پکڑ لی گئی تو وہ تمام عمر چورنی ہی کہلائے گی۔میں آپکو ایک واقعہ سناتی ہوں،جسے سْن کر شاید اْس لڑکی پر کچھ اثر ہو اور وہ پیسے واپس کردے“۔خلیفہ ہارون الرشید کا نام تو آپ نے سْنا ہی ہو گا،اْن کا ایک دوست بہت عقلمند،ذہین اور دُنیادار بھی تھا۔خلیفہ اْس سے کسی مسئلہ پر مشاورت بھی کرتا
پکارا۔جواب میں کلاس میں خاموشی چھائی رہی۔انھوں نے چونک کر کلاس کی جانب نگاہ دوڑائی:”ہاں بچو!کسی کو معلوم ہے کہ زین تین دن سے کہاں غائب ہے؟“استاد کے لہجے میں گہری تشویش تھی۔
”نہیں سر!کسی کو بھی نہیں معلوم۔“حمزہ نے کھڑے ہو کر جواب دیا۔وہ خود بھی زین کی مسلسل غیر حاضری سے پریشان تھا۔زین اس کا بہترین دوست تھا۔شام کو وہ زین کے گھر کے سامنے تھا۔دستک دینے پر زین نے ہی دروازہ کھولا۔وہ خاصا کمزور نظر آرہا تھا۔
”زین!تم کہاں غائب ہو؟اسکول کیوں نہیں آرہے؟“حمزہ نے دیکھا کہ اسکول کا نام سن کر زین خاصا افسردہ ہو گیا ہے۔
”حمزہ!تمہیں تو معلوم ہے کہ مجھے دھوئیں سے سخت الرجی ہے اور اسکول کے راستے میں کئی لوگ بے وقت کچرا جلاتے ہیں۔ تین روز پہلے آیا تو کچرے سے ہونے والے دھوئیں کے باعث میری طبیعت خاصی خراب ہو گئی۔“
ایک ہفتے بعد زین کی طبیعت ٹھیک ہو چکی تھی۔گرمیوں کی چھٹیاں بھی شروع ہو گئی تھیں۔ایک دن اس نے محلے کے بچوں کو اپنے گھر جمع کیا۔ٹیپو،سراج،قاسم اور حسین اس کے پاس بیٹھے تھے۔
”مجھے تم سب سے بہت اہم کام ہے۔تم سب میرے گہرے دوست ہو۔یقینا تم میرے کام آؤ گے۔ہم اپنے علاقے میں کچرا جمع کریں گے۔اس طرح ہمارا علاقہ صاف ستھرا ہو جائے گا۔یہی نہیں ہم کچرے سے پیسے بھی کمائیں گے۔“زین نے آخری بات کہی تو چاروں بچے حیرت سے اسے دیکھنے لگے۔
”کیا تم ٹھیک کہہ رہے ہو؟“سراج بے یقینی کا شکار تھا۔
”ہاں،میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔“ہم کچرے سے پیسے بھی کمائیں گے اور ماحول بھی صاف ستھرا رکھیں گے۔“زین نے انھیں یقین دلانے کی کوشش کی۔
”تو ٹھیک ہے،پھر ہم سب تمہارے ساتھ ہیں۔“ٹیپو نے جواب دیا۔“
”ہم اپنی ٹیم کا نام صفائی فوج رکھیں گے۔“زین نے کہا۔
”زین!اپنے علاقے کو صاف کرنے کے لئے ہم ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔“قاسم نے کہا تو زین مسکرانے لگا۔“
تو پھر ابھی سے کام شروع کرتے ہیں۔“زین ایک بڑا سا گتا لے آیا۔اس گتے سے انھوں نے بہت سارے چھوٹے چھوٹے کارڈز بنائے۔زین ان پر مارکر سے لکھنے لگا:”کچرا دیں پیسے لیں۔“اپنے گھر کو صاف کریں اور کچرا صفائی فوج کو دے کر پیسے کمائیں۔یاد رکھیں،کچرا جلا کر آپ خود کو اور اپنے ماحول کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
کچرا جمع کروانے کے لئے اس نے اپنے علاقے کے ایک میدان کا پتا لکھا ہے۔اگلے دن صفائی فوج کے بچے گھر گھر کارڈز تقسیم کر رہے تھے۔وہ لوگوں کو کچرے کے بارے میں بتا رہے تھے۔
ٹیپو اور قاسم سب سے پہلے عظمت صاحب کے گھر پہنچے تھے۔عظمت صاحب ان کی بات سن کر چونک اْٹھے:”صاحبزادے!تم کچرے کے پیسے دو گے،جب کہ خاکروب تو اْلٹا ہم سے پیسے لیتا ہے۔“ان کے لہجے میں خاصی حیرانی تھی۔
”جی چاچا جی!ہم آپ کو ضرور پیسے دیں گے۔بس آپ کو چھوٹا سا کام کرنا ہو گا۔گھر کا گیلا کچرا جس میں سبزی اور پھلوں کے چھلکے،استعمال شدہ چائے کی پتی،چاول وغیرہ ہوں،انھیں ایک ساتھ رکھیں۔سوکھی روٹیاں،کاغذ اور گتے ایک ساتھ رکھیں۔مشروبات کے ڈبے،شیشے، پلاسٹک کی بوتلیں اور لوہے کا سامان ایک ساتھ رکھیں۔پھر دیکھیں ہم کیا کمال کرتے ہیں۔“ٹیپو کی بات سن کر وہ بے یقینی سے اسے دیکھتے رہے،پھر گھر کے اندر چلے گئے۔تھوڑی دیر بعد آئے تو اس نے ہاتھ میں تین تھیلیاں تھیں:”تمہارے کہنے پر کچرا اسی طرح دے دیا ہے،مگر مجھے تو اب تک تمہاری بات پر یقین نہیں آیا۔“
”شکریہ چاچا جان!ہم آپ کا نام لکھ لیتے ہیں۔ایک ماہ بعد جب اس کی ادائی ہو گی تب آپ کو ہماری بات پر یقین آئے گا۔“ٹیپو مسکراتے ہوئے بولا۔
ادھر میدان میں زین لوگوں کا بے چینی سے انتظار کر رہا تھا۔اس نے گھر کی پرانی اور بے کار چیزوں کے نام ایک بڑے سے چارٹ پر لکھ لیے تھے۔
کافی دیر بعد سکینہ خالہ کا دروازہ کھلا اور وہ باہر نکلیں۔ان کے ہاتھ میں کچرے کی تھیلی تھی۔زین انھیں ہی دیکھ رہا تھا۔زین کو ان کے ہاتھ میں ماچس کی ڈبیا بھی نظر آئی۔یہ دیکھ کر زین چلا اْٹھا:”خالہ!یہ آپ کیا کر رہی ہیں؟“سکینہ خالہ اسے دیکھنے لگیں۔
”اے لڑکے!دیکھ رہے ہو،کچرے کو آگ لگا رہی ہوں۔انھوں نے جواب دیا۔
”خالہ!کچرا جلانے سے فضا میں آلودگی پھیلتی ہے۔یہ اچھی بات نہیں ہے۔کیا آپ نے وہ کارڈ نہیں پڑھا جو صفائی فوج نے آپ کے گھر میں دیا ہے؟“زین ان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
”صفائی فوج!“خالہ پہلے تو نام سن کر چونکیں،پھر ہنسنے لگیں:”صفائی کی بھی فوج ہوتی ہے بھلا؟“انھوں نے ہنستے ہوئے کہا۔
”ہاں خالہ!اس فوج کا کام صفائی کرنا ہے۔“زین مسکراتے ہوئے بولا۔
”اچھا تو وہ کارڈ تم لوگوں نے دیا تھا،اس کارڈ کو بھی میں نے کچرے میں ڈال دیا ہے۔بھلا مجھے پڑھنا کہاں آتا ہے؟“سکینہ خالہ نے جواب دیا تو زین نے اپنا سر پیٹ لیا۔
”خالہ!ایسا کریں کہ آپ مجھے کچرا دے دیں۔میں اس کے بدلے میں آپ کو پیسے دوں گا۔“وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
”کیا؟کچرے کے پیسے دو گے۔خاکروب تو کچرا اْٹھانے کے پیسے لیتا ہے۔اے لڑکے!کہیں تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا۔یا مجھ سے مذاق کر رہے ہو؟“سکینہ خالہ کو اس کی بات پر یقین نہیں آیا تھا۔
”نہیں خالہ!میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں۔“زین ان کا ہاتھ پکڑ کر میدان میں لے آیا اور رجسٹر پر ان کا نام لکھنے لگا:”ایک مہینے کا کچرا جمع کرنے پر آپ کو سارے پیسے مل جائیں گے۔“خالہ اس کی بات سن کر حیران تھیں اور اسی کیفیت میں وہاں سے چلی گئیں۔
ذرا سی دیر میں پورے محلے میں یہ بات پھیل چکی تھی۔صفائی فوج کے کارڈز نے کمال کر دکھایا تھا۔لوگ اپنے گھروں سے کچرا لا رہے تھے۔ کچھ لوگ ان بچوں پر ہنس بھی رہے تھے،مگر صفائی فوج کو ان کے ہنسنے کی پروا ہی کب تھی۔
ان بچوں نے پہلے ہی دن خاصا کچرا جمع کر لیا تھا۔ اب سارے بچے ماسک اور دستانے پہنے اس کچرے کو ان کی جگہ پر رکھ رہے تھے۔بابر صاحب دفتر سے گھر واپس آئے تو بچوں کو کام کرتے دیکھ کر رک گئے۔زین ان کے دوست کا بیٹا تھا،انھیں زین کا یوں کام کرنا سخت ناگوار گزرا،وہ سیدھے اس کے ابو کے پاس جا پہنچے۔
”بھائی صاحب!آپ کے بیٹے کا تو دماغ چل گیا ہے،وہ میدان میں کچرا جمع کر رہا ہے۔بھلا کچرے کے پاس رہنا کہاں کی عقل مندی ہے؟“ابو ان کی بات سن کر میدان تک چلے آئے۔جہاں زین ہاتھوں پر دستانے چڑھائے پھلوں اور سبزیوں کے چھلکے،باسی چاول، استعمال شدہ پتی ملا رہا تھا۔
اس نے صفائی فوج کی مدد سے ایک گڑھا کھودا اور یہ چیزیں اس میں ڈال کر اسے بند کر دیا۔
”زین!یہ تم کیا کر رہے ہو؟“ابو اسے یہ کام کرتا دیکھ کر حیران تھے۔
”ابو!کھاد تیار کر رہا ہوں۔پھل،سبزیوں اور گھر کے گیلے کچرے سے زمین زیادہ زرخیز ہوتی ہے۔یہ کھاد تیار کرنا میں نے ایک کتاب سے سیکھا ہے۔“زین نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”مگر اس طرح گندگی میں رہنا تو اچھی بات نہیں،صحت کے خلاف بھی ہے۔“
”ابو!اپنا علاقہ صاف کرنا تو ہم سب کا حق ہے۔ویسے بھی ہم نے لوگوں کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ کچرا کس طرح رکھنا ہے؟اس طرح ہمارا کام بھی آسان ہو گیا ہے۔اگر ہم ایسا نہ کریں تو آنے والے وقت میں ہر طرف بیماریاں ہی بیماریاں نظر آئیں گی اور آج ہماری کوششوں سے پورے محلے میں کہیں بھی کچرا نہیں جلایا گیا۔“ابو اس کی بات سن کر خوش ہو گئے۔اپنی مشکل کا حل زین نے خود نکال لیا تھا۔
اگلے روز صفائی فوج کی توقع سے زیادہ لوگ کچرا جمع کروانے آئے تھے۔لوگوں کو پیسوں سے زیادہ اس بات کی خوشی تھی کہ اسی بہانے ان کا کچرا ٹھکانے لگ رہا تھا۔پورا علاقہ برسوں سے کچرے کا ڈھیر بن چکا تھا۔سرکاری خاکروب کبھی کبھار ہی نظر آتے تھے۔
صفائی فوج کا کام آہستہ آہستہ بڑھتا جا رہا تھا۔ان بچوں کو ایک ایسے ادارے کے بارے میں علم ہوا جو بے کار اشیاء کو دوبارہ استعمال کے قابل بناتا تھا،انھوں نے فوراً اس ادارے سے رابطہ کیا۔ایک روز جب صفائی فوج میدان میں اپنا کام کر رہی تھی۔علاقے کے کچھ لوگ بھی کچرا دینے آئے تھے کہ اس ادارے کے لوگ وہاں آگئے۔
”ہم آپ کی پرانی اور بے کار چیزیں دیکھنا چاہتے ہیں۔“زین نے کچرے کے ڈھیر کی طرف اشارہ کیا۔ان لوگوں نے کچرے کے ڈھیر میں سے بیشتر چیزیں خرید لی تھیں۔ان میں گتے،پلاسٹک اور شیشے کی بوتلیں،دانت صاف کرنے کے برش اور دوسری چیزیں شامل تھیں۔ اب وہاں تھوڑا ہی کچرا باقی رہ گیا تھا۔
”چاچا!آپ ان فالتوں چیزوں کا کیا کریں گے؟“ٹیپو نے پوچھا۔
”فالتو!“وہ شخص لفظ فالتو پر زور دیتے ہوئے بولا:”یہ چیزیں فالتو نہیں ہیں بیٹا!سونا ہیں یہ سونا۔اگر لوگوں کو ان کی قدر معلوم ہو گئی تو انھیں کبھی ضائع نہ کریں۔ہم کاغذ،گتے وغیرہ دوبارہ استعمال کے قابل بناتے ہیں۔ان سے نوٹ بک بھی بنائی جاتی ہیں۔باقی چیزیں بھی کام کی ہیں۔ہم ان چیزوں کو استعمال کے قابل بناتے ہیں جو لوگ بے کار سمجھ کر ضائع کر دیتے ہیں۔“میدان میں موجود لوگ حیرانی سے اس شخص کی باتیں سن رہے تھے۔وصول شدہ رقم کچرا دینے والوں میں تقسیم کر دی گئی۔
دن گزرتے رہے۔صفائی فوج کی محنت کی وجہ سے ان کا کام روز بہ روز پھیل رہا تھا۔بچے اب خود بھی کتابوں اور انٹرنیٹ کی مدد سے چیزوں کو دوبارہ قابل استعمال بنانا سیکھ رہے تھے۔گھروں میں پڑے ہوئے بے کار کچرے سے ان بچوں نے خاصے پیسے کما لیے تھے۔زین سوچ رہا تھا کہ گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد وہ دوبارہ اسکول جانا شروع کر دے گا۔
صفائی فوج کی شہرت شہر بھر میں پھیلنے لگی۔ایک دن ان بچوں کا انٹرویو ملک کے بڑے اخبار میں چھپا۔اس انٹرویو کو پڑھ کر ایک سرکاری محکمے کے سربراہ ان کے پاس آئے:”بچو!تم نے ہماری بہت بڑی مشکل آسان کر دی ہے۔سرکاری خاکروب بھی اس علاقے کو صاف کرنے ضرور آئیں گے۔ہم جلد ہی تمہیں ایک بڑی عمارت دیں گے،جہاں پر تم اطمینان سے کام کر سکو گے اور اپنی تعلیم بھی جاری رکھ سکو گے۔تم یہ کام دوسرے نوجوانوں کو بھی سکھا سکتے ہو۔“
زین ان کی بات سن کر بڑا خوش ہوا۔اب تو بابر صاحب بھی صفائی فوج کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے۔اس فوج نے اپنی ذہانت اور محنت کی بدولت نہ صرف علاقے کو صاف ستھرا کر دیا تھا بلکہ کچرے سے آمدنی پیدا کرنے کا طریقہ بھی جان لیا تھا۔آپ بھی ان کی طرح ہمت کرکے ایسے کارنامے انجام دے سکتے ہیں۔