عمران خان اور بلاول زرداری ایک صفحے پر؟
جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں میرے لئے عمران خان کا تاریخی ملتانی جلسہ، ملتانی سوہن حلوے سے بھی زیادہ ’لذیذ‘ ہو گیا ہے۔ میں حیران ہوں کہ یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کا سارا جنگل ہرا ہو گیا ہے۔ یہ جلسہ اب سے صرف چار گھنٹے کی زمانی مسافت پر ہے لیکن موجودہ حکومت نے 10اپریل (2022ء) کو جو چار دن مانگ کر لئے تھے، ان کا خاتمہ اتنا قریب آ لگا ہے کہ ابھی آرزو کے دو دن بھی پورے نہیں ہوئے اور انتظار کے باقی دو دن بھی گویا قوم کو دے دیئے گئے ہیں!…… کہا جا رہا ہے کہ عمران خان اسلام آباد آنے کی کال دینے میں دو دن سے زیادہ انتظار نہیں کروائیں گے!
میں اس حکومت کے نوخیز و نو عمر وزیر خارجہ کو داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انہوں نے امریکہ میں بیٹھ کر امریکہ کو آئنہ دکھا دیا ہے کہ پاکستانی قوم دنیا کی دوسری اقوام سے یکسر مختلف ہے۔ ہم کالج میں تھے تو کہا جاتا تھا کہ پاکستان تو اپنے ہاں سلائی مشین کی سوئی تک نہیں بنا سکتا لیکن جب وہ بنانے پر آیا تو ایٹم بم بنا دیا! کہاں سوئی تک نہ بنا سکنا اور کہاں جوہری وار ہیڈز اور میزائل بنا کر ساری دنیا کو ششدر کر دینا!…… ہم پاکستانی بھی باکمال قوم ہیں اور لاجواب پرواز میں ماہر ہیں۔
آصف زرداری کو ’بیماری‘ کہنے والے عمران خان کو سوچنا پڑے گا کہ اس بیمار زرداری کا سٹرٹیجک ویژن کس قدر وسیع و عریض اور عمیق و دقیق ہے۔ انہوں نے اپنے صاحبزادے کو امریکہ بھیج کر یہ پیغام دیا ہے کہ ان کی پیپلزپارٹی اور عمران خان کی پی ٹی آئی ایک صفحے پر ہیں۔ جمعرات (19مئی) کو جب بلاول زرداری نیویارک میں جا کر یہ کہہ رہے تھے کہ عمران کا 24 فروری (2022ء) کا دورۂ ماسکو دراصل پاکستان کی خارجہ پالیسی کے عین مطابق تھا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ عمران خان کے پاس کوئی چھٹی حس نہیں تھی کہ انہیں بتاتی کہ جس روز وہ ماسکو پہنچے ہیں اسی روز روسی ٹروپس ”سپیشل آپریشن“ میں یوکرائن کی سرحد پار کرکے اس کے دارالحکومت (کیف) پر حملہ کر رہے ہوں گے۔
نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں ایک نیوز کانفرنس میں ایک امریکی صحافی نے بلاول سے سوال کیا: ”عمران خان نے 24فروری کو روس کا جو دورہ کیا، پاکستان کی نئی (یعنی آپ کی) حکومت اُن ”غلطیوں“ کو کیسے درست کرے گی جو آپ کے ’پیشرو‘ کرتے رہے ہیں؟“…… بلاول زرداری نے بِلاتوقف جواب دیا: ”جہاں تک پاکستان کے سابق وزیراعظم کے دورۂ روس کا تعلق ہے تو میں سابق وزیراعظم کے اس دورے کا Absolutely دفاع کروں گا۔ ان کا یہ دورہ ان کی خارجہ پالیسی کے عین مطابق تھا۔ ان کو پتہ نہیں تھا (اور ہر کسی میں ’چھٹی حس‘ تو براجمان نہیں ہوتی) اور ہم میں سے کسی کو بھی یہ معلوم نہ تھا کہ ان کا (سابق وزیراعظم کا) یہ دورہ اس وقت ہو رہا ہو گا جب روس۔ یوکرائن تنازعہ شروع ہو جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کے ’معصومانہ ایکشن‘ کے لئے پاکستان کو سزا دینا کسی بھی حوالے سے روا نہیں ہے“۔
قارئین کو معلوم ہوگا کہ عین مین یہی تبصرہ تھا جو سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے دورۂ ماسکو کی ”ٹائمنگ“ پر کیا تھا…… بلاول زرداری نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے یہ بھی کہا: ”ہم کسی جنگ کا حصہ نہیں ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ کسی تنازعے (جنگ) کا حصہ بنیں۔ درحقیقت ہم امن کی اہمیت پر زور دینا جاری رکھیں گے۔ ہم اس جنگ کو جلد از جلد ختم کرنے کے لئے ڈائیلاگ پر زور دیں گے اور یقینا ہم کسی جارح فریق کی طرف داری نہیں کریں گے“۔
یاد کیجئے عمران خان نے ماسکو سے واپس آکر عین مین یہی الفاظ دہرائے تھے جو بلاول زرداری نیویارک میں بیٹھ کر امریکی میڈیا کے سامنے بیان کر رہے تھے۔ ہمارے بعض چینل جمعرات کی شب بلاول اور بلنکن کی تصاویر سکرین پر دکھا کر تبصرہ کر رہے تھے کہ: ”بلاول، امریکی وزیر خارجہ بلنکن کے ساتھ ہاتھ ”باندھ“ کر کھڑے ہیں۔ ان کی جھکی جھکی سی نگاہیں اور بندھے ہوئے ہاتھ ان کی ”غلامانہ اداؤں“ کا واشگاف اظہار کر رہے ہیں“…… لیکن بلاول نے بعد میں لنڈ سے گراہم (Lindsey Graham) جن کا تعلق ری پبلکن پارٹی سے ہے اور امریکہ کے سیاسی حلقوں میں جن کا بڑا شہرہ ہے، ان سے بات کرتے ہوئے بلاول نے اس بات کو واضح کیا کہ پاکستان ”ٹریڈ“ پر زور دے گا ”ایڈ“ پر نہیں۔ بلاول کا واضح اشارہ اپنے اتحادی اور موجودہ پاکستانی وزیراعظم شہبازشریف کے اس بیان کی طرف تھا جس میں وزیراعظم نے کہا تھا کہ: ”بھکاریوں کو انتخاب کا حق نہیں ہوتا“۔ بلاول زرداری نے بعد میں اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات میں یہ بات بھی دہرائی کہ جنوبی ایشیا میں اس وقت تک امن کا قیام ایک واہمہ بنا رہے گا جب تک جموں اور کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری مسلمانوں کی امنگوں کے مطابق حل نہیں ہو جاتا“۔
بلاول جب CNN پر کرسٹینا امان پور کو انٹرویو دے رہے تھے تو میں بڑے غور سے ان کو سن رہا تھا۔ انہوں نے افغانستان اور پاکستان کے تعلق پر وہی کچھ کہا جو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اصولی موقف ہے اور جس پر سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بارہا میڈیا پر آکر تبصرہ کرتے رہے تھے…… اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی جن ستونوں پر عمران خان کے عہد میں استوار تھی، اب بھی انہی بنیادوں پر قائم ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف کے ”بھکاریوں“ والے بیان کا ابطال جو عمران خان بڑے زور و شور سے اپنے جلسوں میں کرتے رہے ہیں، وہی کچھ بلاول نے کیا اور کہا ہے۔ عمران خان اپنے جلسوں میں بہ تسلسل یہ کہتے رہے ہیں کہ بلاول، امریکہ جا کر ”مالی امداد“ طلب کریں گے لیکن بلاول نے ہرگز ایسا نہیں کیا اور جو کچھ کہا ہے وہ پاکستانی قوم کی امنگوں کے عین مطابق ہے۔ لیگی حکومت اب یہ سوچ رہی ہو گی کہ اس نے پیپلزپارٹی کو وزارتِ خارجہ کا قلمدان دے کر اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی چلائی ہے اور عمران خان کے ہاتھ مضبوط کئے ہیں۔
میرا خیال یہ بھی ہے کہ آصف زرداری خواہ اوپر سے یہ مطالبہ کر رہے ہوں کہ وہ اگست 2023ء تک موجودہ حکومتی سیٹ اپ کا تسلسل چاہتے ہیں لیکن اندر سے وہ بھی ہل کے رہ گئے ہیں۔ ان کو معلوم ہو چکا ہے کہ آئندہ الیکشن جلد ہونے والے ہیں اور ان میں عمران خان کا بیانیہ ہی چلے گا۔ چنانچہ بلاول نے امریکی میڈیا کے سامنے دوبار Absolutely کا لفظ استعمال کرکے خان صاحب کی پیروی کی ہے اور کہا ہے کہ سابق وزیراعظم کا دورۂ ماسکو بالکل ٹھیک اور مبنی بر اصول و ضوابطِ روابطِ خارجہء پاکستان تھا اور عمران نے پاکستان کی خارجہ پالیسی پر عمل کیا…… ہاں البتہ جو بات بلاول نے کھل کر نہیں کہی وہ یہ تھی کہ پاکستان، امریکہ کی غلامی قبول نہیں کرے گا۔ ان کے بیان میں کہیں ”آزاد خارجہ پالیسی“ کے الفاط اگرچہ نہیں کہے گئے لیکن ”واقعاتی شہادت“ یہی ہے کہ پی پی پی عمران کی پی ٹی آئی کا یہ نعرہ قبول کر چکی ہے کہ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے اس لئے وہ ایک آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی کا علمبردار ہے۔