پیپلزپارٹی کا معروضی حالات میں مستقبل؟

پاکستان پیپلزپارٹی کی مرکزی عاملہ کا اجلاس کراچی میں ہوا، دیر بعد ہونے والے اس اجلاس کے بارے میں مجھے تجسس تھا لیکن ایسا احساس ہوا کہ یہ مجھ تک ہی محدود رہا اور میرے صحافتی دوستوں نے اس کے بارے میں کچھ زیادہ توجہ نہیں دی۔ میں نے اس کے حوالے سے خبروں کو چھانا لیکن مایوسی ہوئی، صرف ایک قرارداد کا ذکر آیا ہے جو 9مئی کے واقعات کے حوالے سے ہے اس کے علاوہ اور کوئی مسئلہ زیر غور نہیں آیا حالانکہ میرے خیال میں اہم ترین معاملہ تنظیمی امور سے متعلق ہے کہ چند روز قبل ایک خبر نظر سے گزری تھی کہ پیپلزلائرز فورم کی تمام تنظیمیں توڑ دی گئی ہیں اور اب نئے انتخابات کرائے جائیں گے۔ یہ اہم معاملہ ہے اوراس پر غور کیا جانا چاہیے تھا کیونکہ پیپلزلائرز کی تنظیم کا مسئلہ اس وقت سامنے آیا تھا جب پنجاب کے سابق گورنر سردار لطیف کھوسہ کو ان کے بیان کی وجہ سے قیادت سے ہٹادیا گیا تھا، اس حوالے سے جماعت کے اندر بھی بات ہو رہی تھی، اب اس ایشو کو تنظیمیں توڑ کر حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اصولی طور پر اس فیصلے کی توثیق ہونا چاہیے تھی لیکن ایسا کچھ نظر نہیں آیا، اس کے علاوہ ملک کے سیاسی اور معاشی حالات کے بارے میں بھی کوئی بات نہیں کی گئی، اس سے یہ احساس ہوا کہ اس اجلاس میں بوجوہ 9مئی کے واقعات کے حوالے سے سرکاری / ایسٹیبلشمنٹ کے موقف کی تائید مقصود تھی۔ میرے لئے یہ عجیب بات ہے، البتہ شیری رحمن کی اس بات سے اطمینان ہوا کہ بلاول بھٹو ہر معاملے میں جماعت سے مشورہ کرتے ہیں بہرحال میں اس سے خود بھی گریز کرتا ہوں تاہم اس حوالے سے ضرور غور کروں گا کہ کیا واقعی پارٹی میں محترمہ بے نظیر بھٹو والا رویہ پایا جاتا ہے، بے نظیر بھٹو تو اپنی خودساختہ یا مبینہ مسلط کردہ جلاوطنی میں بھی یہ اجلاس بلاتی رہی ہیں حتیٰ کہ اسی ”جلاوطنی“ کے دور میں لندن میں بھی اجلاس ہوا اور پاکستان سے اراکین نے بھی شرکت کی۔ لندن کے ایک اجلاس کے حوالے سے شرکاء کے رویے کے حوالے سے ایک صاحب نے مجھے سنایا کہ محترمہ نے شرکاء کا موقف بہت غور سے سنا اور سب کو اظہار خیال کا موقع دیا، حتی کہ خود پر تنقید بھی برداشت کی تھی اس اجلاس کے حوالے سے اس رہنما نے اپنے طور پر بتایا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو ہر ایک نے ”بی بی“ کہہ کر مخاطب کیا، لیکن ہمارے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی واحدہ رکن تھے جو مخاطب ہوتے وقت کہتے ”محترمہ چیئرپرسن صاحبہ“ اور یوں دوسروں سے الگ رویہ اپنائے ہوئے تھے۔ بی بی دراصل انگریزی کے ابتدائی الفاظ سے لیا گیا جس کا مطلب بے نظیر بھٹو بنتا ہے لیکن پارٹی رہنماؤں نے اسے ملکی احترام بنایااور بی بی پکارتے ہوئے مقامی احترام دیتے تھے، بہرحال بتانا یہ تھا کہ مجلس عاملہ کے اجلاس ایجنڈے کے مطابق ہوا کرتے تھے اس میں ایجنڈا بھی نہیں بتایا گیا، نہ ہی میں نے کسی اخبار یا الیکٹرونک میڈیا کے توسط سے یہ پڑھایا سنا کہ کون کون شریک ہوا اور کون کون غیر حاضر تھا، البتہ اپنے ذرائع سے علم ضرور ہوا کہ حاضری کم تھی، صدارت تو بہرحال والد اور صاحبزادے نے کی۔ آصف علی زرداری اور بلاول ہی میر مجلس تھے۔ شیری رحمن نے اپنی پریس کانفرنس میں پاکستان کھپے کے حوالے سے آصف علی زرداری اور حسن سلوک اور مشکلات کے حوالے سے بلاول کی بہت تعریف کی۔ اس اجلاس میں تحریک انصاف کے خلاف جماعت کو کالعدم قرار دینے کی مہم کا کوئی اثر نہیں لیا گیا۔ شیری رحمن کے مطابق شرکاء کے لئے یہ غیر ضروری موضوع تھا۔ بہرحال بلاول بھٹو زرداری کہہ چکے ہوئے ہیں کہ وہ ملک اور سیاسی جماعت کے آخری شخص ہوں گے جو کسی سیاسی قیادت کو کالعدم قرار دینے کی حمایت کریں گے۔
اب سوال یہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی جو سندھ میں کئی برسوں سے برسراقتدار ہے، کیا اس میں سب اچھا ہے اگر ایسا ہے تو پھر کراچی اور حیدرآباد کے لئے میئر کے امیدواروں کے حوالے سے اختلاف کیوں سامنے آیا۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی پریس کانفرنس کے حوالے سے خبر باہر آئی کہ کراچی اور حیدرآباد کے لئے میئر کے امیدواروں کا فیصلہ کر لیا گیا ہے لیکن اسی شام فریال تالپور کا بیان سامنے آیا کہ تاحال میئر کے امیدواروں کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں ہوا، بات اس سے آگے نہ چلی کہ حالات کچھ اور ہیں اور یہ شاید بے معنی ذکر تھا، بہرحال کراچی کے لئے مرتضیٰ وہاب پر اتفاق ہوگا کہ وہ ایڈمنسٹریٹر بھی رہے۔
حالات حاضرہ میں بعض مبصرین کی رائے ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کا حصہ نہ ہوتے ہوئے ایک اتحاد کی حیثیت سے اہم ترین جماعت ہے۔ اس کا اندازہ وزارتوں میں اس کے تناسب اور آصف علی زداری کی اہمیت سے بھی ہوتا ہے کہ ان کے بغیر کوئی عمل نہیں ہوتا، موجودہ صورت حال میں پیپلزپارٹی مجموعی طور پر بھی تحریک انصاف کو کالعدم قرار دینے کے حق میں نہیں بلکہ میاں رضا ربانی جیسے متعدد بھاری بھرکم رہنما ملٹری کورٹس کے قیام سے بھی اتفاق نہیں کرتے، تاہم حالات کے مطابق اگر یہ سب ہوتا ہے تو پیپلزپارٹی کو قبول کرنا ہوگا لیکن جواز ہوگا کہ ہم تو مخالف تھے، آصف علی زرداری ایک سے زیادہ بار کہہ چکے کہ آئندہ عام انتخابات میں ان کی جماعت حیران کن نتائج دے گی تاہم ابھی تک کوئی تیاری تو نظر نہیں آتی۔ ماسوا اس اقدام کے کہ پیپلزپارٹی نے 14مئی کے لئے پنجاب کے الیکشن کو بھی مانا اور اپنے امیدوار نامزدکئے اور کاغذات نامزدگی بھی داخل کرائے گئے۔
موجودہ حالات میں لوگ عام انتخابات کے حوالے سے پرجوش ہونا تو کجا وہ جوش بھی نہیں ہیں، البتہ بات ضرور ہوتی ہے۔9مئی سے پہلے تک کہا جاتا اور دعویٰ کیا جاتا تھا کہ تحریک انصاف کلین سویپ کرے گی لیکن اب صورت حال مختلف ہے جو الیکٹ ایبلز شامل کرائے گئے وہ بوجوہ علیحدگی اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں اور یہ تاثر بھی دیا جا رہا ہے کہ قومی اسمبلی میں بیٹھے باغیوں کے بعد اب ایک اور فارورڈ بلاک کی تیاری ہے جو مستعفی اراکین میں سے ہوگا۔گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ سے ریاض فتیانہ کی درخواست پر تحریک انصاف کے 72مستعفی اراکین کی رکنیت ختم کرنے کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا گیا اور سپیکر قومی اسمبلی کو ہدایت کی گئی کہ وہ اراکین کو سن کر پھر سے فیصلہ کریں۔ سینیٹر علی ظفر اور درخواست دہندہ ریاض فتیانہ نے توقع ظاہر کر دی کہ رکنیت کی بحالی والے اراکین کو خوش آمدید کہا جائے گا اور یہ وہاں جا کر ماحول بہتر بنائیں گے۔ سوال تو پھر یہ ہے کہ معاملہ سپیکر کے پاس جا کر وضاحت کا ہے اورہر رکن کو ملنا ہوگا، یہ سلسلہ اس وقت کام نہیں آیا تھا جب سپیکر نے خود تاریخیں متعین کرکے اراکین کو بلایا اور وہ حاضر نہ ہوئے البتہ وفود ملتے رہے لہٰذا ادھر انتخابات قریب تر ہیں اور موجودہ اسمبلیاں بھی اپنی مدت تین ساڑھے تین ماہ تک پوری کر لیں گی۔ میں تو مثبت سوچ کا حامل ہوں اور توقع رکھتا ہوں کہ ویسا ہو جائے گاجیسا علی ظفر کہتے ہیں۔
بات پیپلزپارٹی کی تھی جو ادھر چلی آئی، پنجاب میں تاحال تنظیم مکمل نہیں ہوئی، صدر سپیکر بن گئے، نئے صدر کا تقرر نہیں ہوا، قائم مقام صدر کام چلا رہے ہیں، یہاں کوئی سرگرمی نظر نہیں آتی۔ لاہور کا درجہ صوبائی ہے، یہاں کے صدر چودھری اسلم گل پرانے جیالے اور جہانگیر بدر (مرحوم) کے قریب تر دوستوں میں سے ہیں۔ معذرت سے عرض ہے کہ تنظیمی حالت لاہور کی بھی بہتر نہیں، ایسے میں مستقبل کی حکومت اور بلاول کے وزیراعظم ہونے کا خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے۔