غزہ میں بہنے والا خون

تین روزسے غزہ پر اسرائیل کی بمباری کی خبریں طبیعت میں دُکھ اور ملال کے ساتھ ساتھ ایک سوال بھی مسلسل اُٹھارہی ہیں۔پروردگار! مسلمانوں کی یہ بے حِسی کب ختم ہوگی؟کب میرے پروردگار؟
پہلی جنگِ عظیم کے بعد سے ہی برطانیہ اور اس کے حواری ٹولوں نے مشرق وسطیٰ کی چیر پھاڑ اور عرب قومیت کا فتنہ جگا کر فلسطینی مسلمانوں کے سینے میں صہیونیت کا بیج بوکر اسے دوسری جنگ عظیم تک ایک تن آور درخت بنانے کی جو جو شازشیں کیں وہ کِسی سے ڈھکی چُھپی نہیں۔1946ءمیں فلسطینی سرزمین میں یہ یہودی شمالی اور شمال مغربی پٹی جو بحیرئہ روم کے ساتھ ساتھ چلتی ہے، چاول کے دانوں کی طرح کہیںکہیں بکھرے ہوئے تھے۔صرف ایک سال بعد 1947ءمیں بیرشیبا سے نیچے جنوب اور ساحلی پٹی کا حصّہ تل ابیب سے حیفہ، عکہ سب اسرائیل نے کہیں خریداریوں سے اور کہیںظلم و ستم کی داستانیں رقم کرتے ہوئے حاصل کر لیا تھا۔یروشلم اور تل ابیب کے درمیان کا علاقہ جو دیرو یاسین کہلاتا تھا، اُسے حاصل کرنے کے لئے جس انداز میں اُس پر بلڈوزر چلائے گئے،راتوں رات حگانا،اسٹرن اور لیہہ جیسے دہشت گرد ٹولوں نے، جنہیں حکومتی افراد کی حمایت حاصل تھی، جس طرح خون ریزی کی،گھروں کے گھر جن میں سوتے لوگ،بچے اور عورتیں سب اس ظلم کی بھینٹ چڑھے،اس کی مثال صرف نازیوں کے ہاں ملتی ہے، جس ظلم کا شکار یہ یہودی کل جرمن نازیوں کے ہاتھوں ہوئے تھے، اُسی تاریخ کو انہوں نے دیرویاسین میں دہرایا تھا۔1949ءسے 1967ءتک یروشلم سمیت مزید حصے ہتھیالئے گئے اور 2010ءمیں فلسطینیوں کی وہ حالت تھی جو 1946ءمیں یہودیوں کی تھی۔
غزہ کا علاقہ ایک چھوٹی سی مستطیل پٹی کی صورت میں بحیرئہ روم کے ساتھ جڑا ہوا ہے، جس کا چھوٹا سا رابطہ صحرائے سینا کے ساتھ ہے۔ گو اس پر بھی اسرائیل قابض رہتا ہے۔ غزہ کی آبادی تقریباََ ایک ملین افراد پر مشتمل ہے، اس میں مہاجروں کی اکثریت ہے۔ غزہ میں یہ مہاجر خیمہ بستیوں میں رہتے ہیں،یہ وہی بدقسمت لوگ ہیں جنہیں ان کے گھروں سے سنگینوں کے بل بوتے پر نکال دیا گیا۔جن کے بچوں کے لئے سکول نہیں ،جن کے پاس روزگار نہیں۔جو اپنی زمینوں سے محروم ہو کر دیہاڑی دار مزور بن گئے ہیں۔ہرروز صبح شناخت کے مرحلوں سے خود کو گزار کر یروشلم اور دیگر شہروں میں داخل ہوتے ہیں اور اگر اِن مرحلوں سے گزرنے میں لیٹ ہو جائیں تو دیہاڑی گُل کر بیٹھتے ہیں۔یہ وہ زندگی ہے جس میں ایک فلسطینی اپنے روز و شب گزار رہا ہے اور ان کی زمینوں پر یورپ سے آئے ہوئے یہودیوں کے لئے زرعی فارم اور بستیاں بنائی گئیں، جہاں بہترین پھل پیدا کئے جا رہے ہیں اور جن کی یورپ کے مُلکوں کوبرآمد ہوتی ہے۔
فلسطینیوں کے پاس دوسرا علاقہ ویسٹ بنک ہے۔ویسٹ بنک میں بیت المقدس کا مشرقی علاقہ بیت اللحم،ہیبرون،راملہ اور وادی اُردن کا کچھ علاقہ ہے۔ قدیم تہذیبی تاریخ میں یہی جگہ سمیریاSamariaاور جودیاJudeaہے جو اسرائیلوں کے لئے انتہائی اہم ہے اور جسے حاصل کرنے کے وہ اب درپے ہیں۔ بڑی طاقتوں کی ریشہ دوانیاں تو اپنی جگہ، لیکن اگر مسلمان اپنے آپ کو عمل کی کسوٹی پر پرکھیں تو حقائق سامنے آتے ہیں۔ ہمارے ہاں آج کل کیا ہو رہا ہے؟بیان بازیاں،اسرائیلی اور امریکی پرچم کا جلانا،کہیں کہیں ٹُٹے بھجے جلوس اور نعرہ بازیاں۔
بھئی آپ جلاتے رہیںان کے پرچم،نعرے لگاتے رہیں،اس کا فائدہ؟ جب عمل نہیں کرنا،نہ اپنی اصلاح، نہ قوم کا خیال۔ جو بندہ جہاں اور جس حال میں ہے، صرف اور صرف اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہے۔سارے دعوے، سارے نعرے کھوکھلے۔قدرت کے فیصلے ہمیشہ میرٹ پر ہوتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل کی پُشت پناہی امریکہ کر رہا ہے۔یہ اس کی محبوبہ ہے، کیونکہ امریکہ کے طاقتور اور بااثر ترین یہودی اسرائیل کی پُشت پر ہیں۔اِس کی ایک مثال اس واقعے سے سمجھی جا سکتی ہے کہ 1973ءکی جنگ میں ایڈمرل تھامس مورر جائنٹ چیف آف سٹاف اور اسرائیلی ملٹری اتاشی مورڈیکائی گور کے درمیان ایک تلخ مکالمہ ہوا۔گور کا مطالبہ تھا کہ امریکہ اسرائیل کو فضا سے زمین پر مار کرنے والے میورکMaverickٹینک شکن میزائل سے آراستہ جنگی ہوائی جہاز فراہم کرے۔مورر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے پاس ایسے ہوائی جہازوں کا صرف ایک ہی سکواڈرن ہے اور اگر یہ بھی دے دیاگیا تو کانگرس میں طوفان اُٹھ کھڑا ہوگا۔مورر کا کہنا تھا کہ گور نے کہا: ”تم جہازوں کا بندوبست کرو!کانگرس کو مَیں سنبھال لوں گا“.... مورر کا کہنا ہے کہ اس نے ایسا ہی کرد کھایا:”مَیں نے آج تک کوئی بھی صدر، چاہے وہ کوئی بھی تھا!ایسا نہیں دیکھا، جو اسرائیل کے خلاف جا سکے!وہ جو بھی چاہتے ہیں، ہمیشہ حاصل کر لیتے ہیں“!
اب ذرا اپنے لوگوں کے کردار دیکھئے۔سعودی عرب،کویت،اُردن،کیا یہ اِس قابل نہیں کہ وہ امریکہ پر کِسی نہ کِسی انداز میں اثر انداز ہوں کہ اسرائیل اپنی اِس آئے دن کی جارحیت سے باز آئے۔جب اور جس وقت اس کا جی چاہتا ہے بمباری شروع کر دیتا ہے۔ سکولوں، شفا خانوںکو ٹارگٹ کرتا ہے۔معصوم بچوں کو خون میں نہلا دیتا ہے، مگر افسوس اُسے کِسی کا ڈر خوف نہیں۔عرب لیگ کے اجلاس میں قراردادیں منظور ہو رہی ہیں، کیا کر لیں گی یہ قراردادیں؟کچھ بھی نہیں۔ مسلمان جب تک اپنی اغراض کے پھندوں میں جکڑے رہیں گے اور متحد نہیں ہوں گے، تب تک اُن کے ساتھ یہی کچھ ہوتا رہے گا اور اُن کا خون ایسے ہی بہتا رہے گا۔ ٭