پیپلز پارٹی او ر مسلم لیگ ن اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے پر متفق نظر آتی ہیں
کسی بھی فرد کو کوئی ابہام تھا تو اب دور کر لے،پاکستان پیپلزپارٹی ہی نہیں‘ مسلم لیگ (ن) بھی موجودہ اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف نے جہاں یہ کہا کہ انتخابات کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں اور عام انتخابات یقیناً ہوں گے ‘اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ موجودہ اسمبلیوں کو اپنی مدت پوری کرنا چاہئے۔ دوسرے معنوں میں عام انتخابات اگر مئی میں ہوتے ہیں تو بھی ان کی شرط پوری ہو جاتی ہے۔ البتہ میاں نواز شریف چاہتے ہیں کہ نگران سیٹ اپ قطعی غیر جانبدار ہو۔ انہوں نے ایک بڑی بات یہ بھی کہی کہ صدر سپریم کورٹ کے سامنے جوابدہ ہے اور انہیں توقع ہے کہ صدر زرداری عدلیہ کا احترام کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق سیاسی سرگرمیاں ترک کر دیں گے۔ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ حکومت (پیپلزپارٹی) کی طرف سے عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کردی گئی ہے‘ اس سلسلے میں رجسٹرار کے دفتر کی طرف سے لگایا جانے والا اعتراض دور کردیا گیا ہے۔ یوں دونوں جماعتوں کے درمیان موقف کا اختلاف اپنی جگہ ہے لیکن دونوں ہی عام انتخابات کے انعقاد اور اسمبلیوں کی میعاد پوری کرنے پر متفق ہیں۔ اور اس امر پر بھی دونوں جماعتوں کے درمیان اپنے اپنے طور پر اتفاق ہے کہ نگران حکومت غیر جانبدار ہونی چاہئے۔ حکومت نے تو اس مقصد کے لئے انتخابی قواعد اور قوانین میں تبدیلی کا بل بھی تیار کرلیا ہے جو قومی اسمبلی سے جلد منظور کرا لیا جائے گا۔
سابق وزیر اعظم نے جس روز عطاءالحق قاسمی کی طرف سے دیئے گئے استقبالیہ میں شریک حضرات سے گفتگو کی اُسی روز صدر زرداری نے خیبر پختون خوا اسمبلی سے خطاب کیا۔ اس خطاب کے دوران انہوں نے کسی کے خلاف کوئی بات نہیں کی مفاہمت ہی کا ذکر کیا البتہ یہ ضرور کہا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے جمہوریت اور پارلیمنٹ کو مضبوط کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے قتل کا بدلہ جمہوری نظام کے استحکام سے لیا ہے۔ صدر زرداری کی پوری تقریر ملکی مسائل اور دہشت گردی کے حوالے سے تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ بھٹو خاندان کی پے درپے اموات کے باوجود وہ اپنے اکلوتے بیٹے بلاول بھٹو کو سیاست میں لے کر آئے ہیں کہ پیپلزپارٹی نے مستقبل کے لئے مفاہمت کی اور جمہوریت کو مضبوط کیا ہے۔
صدر زرداری اور میاں محمد نواز شریف کی تازہ ترین گفتگو ہمارے موقف کی تصدیق کرتی ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں اپنے اپنے مو¿قف کے مطابق اسمبلیوں کی میعاد پوری کرنے کی حامی ہیں کہ جمہوری نظام کا تسلسل برقرار رہے۔ علاقائی جماعتوں کا اپنا اپنا نظام ہے‘ وہ اپنے حلقہ اثر کا فائدہ اٹھا کر بڑی جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لئے کوشاں اور سودا کاری کر رہی ہیں حتیٰ کہ اے این پی کی لیڈر شپ پیپلزپارٹی سے اتحاد برقرار رکھتے ہوئے بھی متحدہ قومی موومنٹ کی طرح اپنے مطالبات پر مصر ہے حتیٰ کہ آئندہ عام انتخابات کے لئے وہ مسلم لیگ (ن) سے بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کو ممکن قرار دیتی ہے۔ اب میاں محمد نواز شریف نے بھی کہا ہے کہ ہم خیال حضرات سے بات ہو چکی جبکہ مسلم لیگ (فنکشنل) اور جماعت اسلامی سے جاری ہے‘ ان تینوں جماعتوں سے انتخابی اتحاد ممکن ہے ۔یوں پیپلزپارٹی کے بعد اب مسلم لیگ (ن) بھی کثیر جماعتی سیاست کے حق میں ہے اور مستقبل کا نقشہ پھر مخلوط حکومت ہی کا نظر آتا ہے۔ عام انتخابات کے بعد بھی جوڑ توڑ ہو گا۔ یوں سیاسی مستقبل اتحادی ہی نظر آتا ہے۔
پیپلزپارٹی/ مسلم لیگ ن