مس بیورو کریسی
بال ایسے جیسے صحرا میں جھاڑیاں، نقشے کی بات ہی کیا، رنگ زرد، کمر خمیدہ، کھڑی ناک پر عینک کے استعمال نے ایک نشان چھوڑا ہے لیکن پھر بھی اس ناک پرمکھی بھی پر نہیں مار سکتی۔ گردن کی اکڑ اور چال کی تمکنت کے کیا کہنے بقول شخصے کھنڈر بتا رہے ہیں کہ عمارت عظیم تھی۔
زبان ایسے چلتی ہے جیسے بریکیں فیل کار سڑک پر دوڑتی ہے۔ دوسروں کے شیروں کوبکریاں اور اپنی بکری کو شیر بنانا ان کے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ دایاں صرف صفائی کیلئے ہے، نظر کمزور ہے اس لئے گھاگ اور جہاندیدہ حکماء کے مشورے کے مطابق ایسا چشمہ استعمال کرتی ہیں جس میں ان کو صرف اپنا مفاد ہی نظر آتا ہے۔
کسی اللہ والے درویش کی ’’سدا اقبال قائم، سدا سردارئیاں، سدا بھاگ لگے رہین‘‘ جیسی دعائیں انہیں لگ گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آمریت ہو یا جمہوریت، نیم جمہوریت ہو یا جمہوریت کے نام پر آمریت، ان کی حکومت سدا رہتی ہے۔
ہم نے ان سے ہر دلعزیز رہنے کا گر پوچھا تو بولیں ’’ میں تو آغا حشر کے نظریے پر عمل کرتے ہوئے اپنی مخفی صلاحیتوں کا بتا سکوں‘‘ لیکن ہمارے مشاہدے میں تو ان کی کامیابی کی وجہ ایک خاص ورد ہے۔ ویسے تو آج کل کے مہنگائی کے دور میں کوئی چیز مفت نہیں لیکن آپ کو مفت یہ گر بتا رہے ہیں، گر کیا ایک وظیفہ ہے۔
اگر ماتحت کا فون یا درخواست ہو تو ’’کیوں‘‘؟ ’’کیسے‘‘؟ ’’ناممکن‘‘؟ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کا الاپ کریں اور اگر بات افسر سے ہو رہی ہو تو ’’جی سر‘‘، ’’بہت خوب‘‘، ’’بہت بہتر‘‘، ’’ واہ کیا کہنے‘‘ مفید ہو گا۔ امید ہے صبح، دوپہر اور شام ان وظائف کا ورد آپ کو بھی مس بیورو کریسی کی طرح سدابہار بنا دے گا۔