پولیس میں احتساب سیل
سید بدر سعید
حضرت علیؓ فرماتے ہیں’’کفر کا نظام چل سکتا ہے لیکن ظلم کا نہیں‘‘۔اس قول حکمت سے عیاں ہوتا ہے کہ وہی معاشرے ترقی کرتے ہیں جہاں احتساب کا عمل تیز ہو ۔ اگر احتساب کا عمل ختم ہو جائے تو پھر بستیاں اجڑ جاتی ہیں اور ریاستوں میں جنگل کا قانون نافذ ہو جاتا ہے ۔ پاکستان میں ایک عرصہ سے سیاسی محاذ پر یہی مہم چل رہی ہے کہ سب کا احتساب کیا جائے ۔ المیہ یہ ہے کہ احتساب کا نعرہ لگانے والے بھی صرف دوسروں کا احتساب چاہتے ہیں لیکن اپنی رسیدیں کوئی نہیں دکھانا چاہتا ۔ احتساب کا نعرہ لگانا جتنا آسان ہے اسے عملی شکل دینا اتنا ہی مشکل ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کسی ادارے کا سربراہ اپنے ادارے میں احتساب کا عمل شروع کرتا بھی ہے تو سب سے پہلے اسے ہی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ بھلا کس ادارے کا سربراہ یہ چاہے گا کہ لوگ اس کے ادارے کو کرپٹ کہیں اور میڈیا اعداد و شمار پیش کرتا نظر آئے کہ فلاں ادارے میں آج اتنے کرپٹ لوگوں کو سزا ہو گئی ۔ اس سال فلاں ادارے میں اتنے لوگ کرپٹ نکلے ۔
اس میں بھی دو رائے نہیں کہ پاکستان کی ترقی کے لئے احتساب کا عمل بہت ضروری ہے ۔احتساب کے حوالے سے گفتگو ہو تو ہم سب سے پہلے سیاست دانوں کے احتساب کی بات کرتے ہیں ۔ اس کے بعد سرکاری محکموں میں کرپشن کی بات ہوتی ہے اور پھر خاص طور پر پولیس کے احتساب کی بات کی جاتی ہے ۔ پولیس اہلکاروں اور افسران سے عام طور پر اختیارات کے ناجائز استعمال ، ڈسپلن کی خلاف ورزی یا فرائض میں لاپروائی برتنے کی شکایات ہوتی ہیں ۔ ان میں سے بھی اکثر شکایات ایسی ہوتی ہیں جو ہمارا تجربہ تو ہو سکتا ہے لیکن عملی طور پر شکایت نہیں ہوتی ۔ مثال کے طور پر ہم کسی کام سے پولیس اسٹیشن جائیں اور وہاں ایس ایچ او موجود نہ ہو تو ہم سب سے پہلے اس کی غیر موجودگی پر تنقید کرتے ہیں ۔ اس وقت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ایس ایچ او کے تھانے آنے کے اوقات کیا ہیں ؟ بحثیت انسان وہ 24 گھنٹے کی ڈیوٹی نہیں دے سکتا ۔ ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ عین ممکن ہے جس ایس ایچ او کے خلاف ہم پولیس اسٹیشن میں نہ ہونے کی شکایت کر رہے ہوں وہ اس وقت علاقہ کے گشت پر ہو یا کسی تفتیش کے سلسلے میں مصروف ہو ۔ اس کے باوجود اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کئی شکایات حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں اورایسے غیر ذمہ دار اہلکاروں اور افسروں کو سزا ملنا ضروری ہے ۔
پولیس کا ذکر اس لئے بھی آ گیا کہ گذشتہ دنوں ایک خبر نظر سے گزری جس کے مطابق آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا نے پولیس میں احتساب کے نظام کو مزید موثر اور بہتر بنانے کے لئے خصوصی سیل بنایا ہے ۔ یہ سیل ایڈیشنل آئی جی ڈسپلن اینڈ انسپیکشن کی سربراہی میں کام کرے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ پولیس کا یہ احتساب سیل انتہائی اعلی سطح کے آفیسرز کی سربراہی میں ہو گا ۔آئی جی آفس کے ذرائع نے بتایا ہے کہ اس سیل میں ایک ڈی آئی جی اور تین اے آئی جیز کے علاوہ ہر ریجن کا ایک ممبر شامل ہو گا جو کم از کم ایس ایس پی کی سطح کا آفیسر ہو گا۔ یہ خصوصی سیل پولیس افسران اور اہلکاروں کے خلاف شکایات پر غیر جانبدارانہ تحقیقات کو ہر صورت یقینی بنائے گا ۔ اگر تحقیقات کے دوران شکایات درست ثابت ہوئیں تو بلا تاخیر ذمہ دار پولیس آفیسر و اہلکار کے خلاف محکمانہ اور قانونی کارروائی کو یقینی بنائے گا۔ اس سلسلے میں امید ظاہر کی گئی ہے کہ ایڈیشنل آئی جی کی سربراہی میں کام کرنے والے اس شعبہ کو اپ گریڈ کرنے سے پولیس کے اندرونی احتساب کا نظام تیزی سے بہتر ہو گا ۔
خوش آئیند بات یہ ہے کہ سینٹرل پولیس آفس لاہور میں ایک اعلی سطحی اجلاس بھی ہوا ہے جس کی سربراہی آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا نے کی تھی ۔ اس اجلا س میں ایڈیشنل آئی جی ویلفئر اینڈ فنانس سہیل خان ، ایڈیشنل آئی جی آپریشنز / انویسٹی گیشن پنجاب کیپٹن (ر) عارف نواز ، ایڈیشنل آئی جی اسٹیبلشمنٹ پنجاب ڈاکٹر عارف مشتاق ، ڈی آئی جی آئی ٹی شاہد حنیف ، ڈی آئی جی آپریشنز پنجاب عامر ذوالفقار خان ، ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر بی اے ناصر ، ڈی آئی جی آر اینڈ ڈی احمد اسحاق جہانگیر ، ڈی آئی جی ویلفئر وسیم سیال اور ڈی آئی جی ایس پی یوآغا محمد یوسف کے ساتھ ساتھ دیگر افسران بھی شریک ہوئے ۔ اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ شہدا اور دوران سروس وفات پانے والے پولیس اہلکاروں کی بیواؤں کو جاری کئے گئے گذارہ الاؤنس اے ٹی ایم کارڈ کی مانیٹرنگ کے نظام کو بھی مزید بہتر بنایا جائے اور جہیز فنڈ ، سکالر شپس اور تجہیز و تدفین کے فنڈکی تفصیلات کو بھی اس اکاؤنٹ کے ساتھ کمپیوٹرائز کیا جائے گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ویلفر کے ان شعبوں میں کہیں کوئی غلط انٹری نہ ہو ۔ اسی طرح آئی جی پنجاب نے یہ ہدایات بھی جاری کر دیں کہ صوبہ بھر میں پولیس کی گاڑیوں میں ٹریکر لگوانے کے پراجیکٹ پر جاری کام کی رفتار مزید تیز کر دی جائے۔ اس سلسلے میں معلوم ہوا ہے کہ آئی جی پنجاب نے 15 دسمبر 2016 تک کی ڈیڈ لائن دے دی ہے ۔ ان ٹریکر کا مقصد پولیس کی گاڑیوں کے ناجائز استعمال نہ ہونے کو یقینی بنانا ہے ۔ ٹریکر کی بدولت اعلی افسران کو علم ہو گا کہ کونسی گاڑی گشت پر ہے اور کس روٹ سے گزر رہی ہے ۔ اسی طرح گاڑی کے مقام ، اس کی پیٹرولنگ اور دیگر استعمال کا بھی فوری علم ہو سکے گا۔ یہ ٹریکر سسٹم پولیس کو مزید متحرک کر دے گا اور کسی کے لئے بھی یہ ممکن نہ رہے گا کہ وہ ڈیوٹی سے غفلت برت سکے ۔
پنجاب پولیس کے خلاف شکایات کے لئے تو سینٹرل پولیس آفس میں پہلے ہی 8787 کمپلینٹ سیل قائم کیا جا چکا ہے جس پر کسی بھی پولیس اہلکار و افسر کی شکایت درج کروائی جا سکتی ہے ۔اس کے علاوہ تھانوں میں قائم فرنٹ ڈیسک پر بیٹھنے والے افسران کو بھی کیمروں کے ذریعے سینٹرل پولیس آفس میں مانیٹر کیا جا رہا ہے تاکہ ایف آئی آر درج کروانے کے لئے تھانے آنے والے شہری کو اچھا ماحول مل سکے ۔ ان مانیٹرنگ اور کمپلینٹ سیل کے بعد احتساب کے اس سلسلے کو مزید آگے بڑھایا جا رہا ہے ۔ آئی جی پنجاب کا محکمہ پولیس میں اعلی سطحی احتساب سیل قائم کرنے کا یہ فیصلہ یقیناًقابل تحسین ہے ۔ امید کی جاتی ہے کہ پولیس میں اعلی سطحی احتساب سیل عام شہریوں کی مشکلات دور کرنے کا باعث بنے گا ۔ دوسری جانب اس سطح پر سیل بننے سے پولیس اہلکاروں اور افسران کو بھی احتساب کو خوف رہے گا ۔ ماضی میں ایسے احتساب سیل عموماً ایس ایس پی سطح تک بنتے رہے ہیں لیکن اس بار ایڈیشنل آئی جی کی زیر نگرانی ایک طاقتور سیل بننے سے امید کی جا رہی ہے کہ کسی شکایت کی صورت میں پولیس افسر و اہلکار کے خلاف ہونے والی تحقیقات میں کسی قسم کا دباؤ نہیں ڈالا جا سکے گا اور نہ ہی کسی کے مجرم ثابت ہونے کی صورت میں کسی دباؤ کے تحت اسے بچایا جا سکے گا ۔ پنجاب پولیس میں اس طاقتور احتساب سیل کا قیام پاکستان میں احتساب کے عمل کو آگے بڑھانے کے لئے ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دیگر سرکاری محکموں اور سیاسی جماعتوں میں بھی اندرونی طور پر ایسا احتساب سیل از خود قائم کیا جائے ۔ یہ لازم نہیں کہ ہم ہر کام عدالتوں کے سپرد کر دیں ۔ ترقی یافتہ ممالک میں اسی طرح اندرونی احتساب سیل قائم ہوتے ہیں ۔ اگر کسی کو ایسے احتساب سیل کے کسی فیصلے سے شکایت ہو تب ہی وہ عدالتوں کا رخ کرتا ہے ۔ اس کے برعکس ہمارے یہاں سیاسی جماعتیں اور ادارے اندرونی احتساب پر خاص توجہ نہیں دیتے جس کی وجہ سے عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار ہے اور سارا نظام سست ہو چکا ہے ۔ ایسے موقع پر آئی جی پنجاب کی طرف سے ایک طاقتور احتساب سیل کا قیام حوصلہ افزا قدم ہے جس کی دیگر محکموں کو بھی تقلید کرنی چاہئے۔