فیض احمد فیض اور صحافت (3)

فیض احمد فیض اور صحافت (3)
فیض احمد فیض اور صحافت (3)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سیفٹی ایکٹ کے تحت سب سے پہلے پی پی ایل کے ’’لیل و نہار‘‘ کے سبط حسن اور چار دن بعد ’’امروز‘‘ کے ایڈیٹر احمد ندیم قاسمی کو گرفتار کر لیا گیا ۔

ان دنوں ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کے چیف ایڈیٹر فیض احمد فیضؔ ، حفیظ جالندھری کے ہمراہ ایک ادبی کانفرنس میں شرکت کے لئے تاشقند گئے ہوئے تھے،واپسی پر وہ بھی اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا دیئے گئے ۔

تینوں کو سیکیورٹی ایکٹ کے تحت گرفتار رکھا گیا اور جیل میں سی کلاس دی گئی، پھر جسٹس ایم آر کیانی کے حکم پر اسیر ایڈیٹروں کو فروری 1959ء میں رہا کر دیا گیا ۔ رہائی کے بعد ان کے سامنے روزگار کا مسئلہ آگیا، کیونکہ پہلی بار جیل سے آئے تھے تو ’’پاکستان ٹائمز ‘‘کا ادارہ سلامت تھا، مگر اب مارشل لاء کی حکومت نے اسے قبضے میں لے لیا تھا ۔

حکومت نے انہیں اپنے چکر میں پھنسانا چاہا، مگر وہ جھانسے میں نہ آئے فیض خود کہتے ہیں: ’’جیل سے رہائی کے تیسرے دن میرے ملازم نے بتایا کہ پولیس کی گاڑی آئی ہے ۔مَیں نے کہا پھر آگئے ، دیکھا کہ نذیر رضوی ہیں،پوچھا کیا بات ہے ؟ وہ کہنے لگے کہ مَیں آئی جی ، سی آئی ڈی کی حیثیت سے یہاں نہیں آیا، بلکہ تمہارے دوست کی حیثیت سے آیا ہوں ،مَیں نے کہا بہت اچھی بات ہے، بتاؤ کیا بات ہے؟ نذیر رضوی کہنے لگے وہ جو اخبار سرکار نے لے لیا ہے آپ اس کے چیف ایڈیٹر بن جائیں۔ مَیں نے کہا بھاگ جاؤ‘‘۔۔۔ نذیر رضوی کو بھگانے کے بعد فیض ؔ صاحب نے کافی عرصہ صحافت سے الگ رہ کر گزارا۔

پھر جب یحییٰ خاں کی حکومت کے آغاز میں کراچی سے 22 فروری 1970ء کو ’’لیل و نہار‘‘ دوبارہ جاری ہوا تو فیض صاحب اس کے چیف ایڈیٹر مقرر ہوئے یہ رسالہ ڈیڑھ سال تک نکلتا رہا۔ نئے حالات میں فیض صاحب نے ’’لیل و نہار‘‘ کا نیا مزاج بنایا اور خود اداریے لکھے۔۔۔ سیدہ برجیس بانو کے مطابق: ’’لیل و نہار‘ ‘میں تقریباً 139 اداریے فیض صاحب کے تحریر کردہ ہیں، جن میں ملکی و غیر ملکی اہمیت کے بہت سے مسائل سے بحث کی گئی ہے ۔

1970ء کے انتخابات میں انہوں نے زیادہ تر اداریوں میں الیکشن کی اہمیت ، انتخابی مہم، سیاسی پارٹیوں کا منشور و کردار، مشرقی و مغربی پاکستان کے درمیان سیاسی رنجشیں جیسے مسائل کو موضوع بحث بنایا۔


بھٹو کا دورفیضؔ صاحب کے لئے نسبتاًخوشگوار رہا اور وہ ثقافتی حوالے سے متحرک بھی رہے، تاہم ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد 1978ء میں انہوں نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی اور یہاں سے دہلی پھر ماسکو چلے گئے اور افروایشیائی ادیبوں کی چھٹی کانفرنس میں شرکت کے لئے انگولا گئے، وہیں انہیں LOTUS کا مدیر چن لیا گیا،اس طرح 1979ء میں فیض ؔ صاحب ایلس کے ہمراہ جو ان کی سیکرٹری مقرر ہوئیں،رسالے کے صد ر مقام بیروت چلے گئے ۔

پروفیسر فتح محمد ملک ’’فلسطین اردو ادب میں ‘‘ میں فیض کے حوالے سے رقمطراز ہیں کہ فیض صاحب کا کہنا ہے کہ : 1962-64ء میں ’’ جن دنوں ہم لندن میں مقیم تھے تو مَیں نے اس انجمن کے منتظم کو یہ تجویز لکھ کر بھیجی کہ اس تنظیم کا کوئی رسالہ بھی ہونا چاہئے، جس میں مختلف ایشیائی اور افریقی ممالک کی ادبی تخلیقات کے تراجم چھپ سکیں ۔

اس سلسلے میں سب سے پہلے بیروت اور اس کے بعد بغداد، قاہرہ، الجزائر وغیرہ جانا ہوا، جس کی رپورٹ تو مَیں نے لکھ کر بھیج دی، لیکن یہ تجویز برسوں کھٹائی میں پڑی رہی۔ آخر 1968ء میں قاہرہ سے جو انجمن کا صدر دفتر قرار پایا تھا ، ایک سہ ماہی رسالہ ’’لوٹس‘‘ کے نام سے چھپنا شروع ہوا ۔

اس کے مدیر اعلیٰ ایک مصری ادیب اور صحافی یوسف السباعی چنے گئے جو انجمن کے جنرل سیکرٹری بھی تھے، بعد میں صدر سادات کے وزیر ثقافت اور ان کے مشیر خاص بھی۔جب سادات نے اسرائیل سے پینگیں بڑھانا شروع کیں تو یہ بھی یروشلم ان کے ساتھ گئے، نتیجہ یہ ہوا کہ کسی نے قبرص میں ان کا کام تمام کر دیا۔

اس دوران یہ رسالہ تو چھپتا رہا، لیکن مدیر اعلیٰ کی جگہ خالی رہی، کیونکہ انجمن کی جنرل کونسل کی منظوری لازمی تھی، چنانچہ گزشتہ جون میں یہ اجلاس انگولا میں منعقد ہوا تو ’’قرعہ فال بنام من دیوانہ زدند‘‘ نکلا اور ساتھ ہی طے پایا کہ اس کا عربی ایڈیشن قاہرہ کی بجائے بیروت سے چھپے گا۔ انگولا سے واپسی پر معین نے تجویز کیا کہ بقیہ تفصیلات طے کرنے کے لئے ہم ان کے ساتھ بیروت چلیں‘‘۔


اس طرح فیض صاحب کا نام ’’لوٹس‘‘ کے ایڈیٹر ان چیف کے طور پر چھپنے لگا۔ یہ رسالہ انگریزی کے علاوہ، فرانسیسی اور عربی زبان میں مشرقی جرمنی سے وہاں کی۔۔۔ Solidarity Committee of the German Democratic Republic ۔۔۔ کے زیر اہتمام شائع ہوتا تھا۔ فیض نے ’’لوٹس ‘‘کے لئے بھرپور اداریے لکھے اور ساتھ ہی ساتھ فلسطینی عوام کے مسائل سے گہری ہمدردی بھی ظاہر کی ۔

1982ء میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران ایک گولہ ان کے مکان پر بھی گرا۔ خوش قسمتی سے وہ اور ایلس بچ گئے اور پھر ماسکو چلے گئے، یہاں بھی انہوں نے لوٹس کے مدیر اعلیٰ کا کام کیا ۔ 1983ء میں وہ وطن واپس آگئے۔4 جنوری 1984ء کو ملک بھر میں ایپنک کی اپیل پر ’’یوم آزادی صحافت‘‘ منایا گیا۔

کراچی میں پریس کلب نے ایک تقریب منعقد کی، جس کے مہمان خصوصی فیض احمد فیضؔ تھے۔ پابندیاں عائد کرنے والے قوانین مثلاً سیفٹی ایکٹ کے خلاف صحافی برادری کی مسلسل جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فیض احمد فیضؔ نے کہا کہ یہ جدوجہد پاکستان جتنی ہی پرانی ہے ۔

انہوں نے یاد کیا کہ انہوں نے خود بھی ایسے قوانین کے خلاف آواز اٹھائی تھی اور اس کے نتائج کا سامنا کیا تھا ۔(جاری ہے)


انہوں نے کہا پاکستان کے قیام کے بعد پابند کرنے والے ان قوانین کا نفاذ ہی شاید بیوروکریسی کی جانب سے پہلا غلط اقدام تھا۔ 20 نومبر 1984ء کو فیض صاحبؔ انتقال کر گئے۔ اسی شام ریڈیو پاکستان نے ان کے حوالے سے ایک تعزیتی پروگرام نشر کیا ۔ 22 نومبر کو روزنامہ ’’حریت‘ ‘نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ریڈیو پاکستان نے سات سال سے انہیں بلیک لسٹ کر رکھا تھا۔ فیض ؔ صاحب کو نہ کسی مشاعرے میں دعوت دی جاتی تھی اور نہ ان کی غزلیں ریڈیو اور ٹی وی پر گائی جاتی تھیں۔ پی ٹی وی کے مشہور پروگرام ’’چہرے‘‘ میں جس واحد معروف شخصیت کو شامل نہیں کیا گیا تھا، وہ فیضؔ تھے ۔ 22 نومبر کو کراچی پریس کلب کے یادگاری اجلاس میں ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی اس عظیم شاعر اور صحافی کی موت کی خبر پر اپنے ’’سنگ دلانہ سلوک‘‘ کے باعث شدید تنقید کی زد میں آئے ۔

23نومبر کے روزنامہ ’’ڈان‘‘ کے مطابق پروفیسر کرار حسین ، ہاجرہ مسرور، اور سعیدہ گزدر نے ان کی موت کی خبر کو سرسری انداز میں نشر کرنے پر سرکاری ذرائع ابلاغ کی سخت مذمت کی۔

24 نومبر کے ’’پاکستان ٹائمز‘‘ میں اخبار کے ایک قاری نوازش علی خاں کا ایڈیٹر کی ڈاک میں خط چھپا، جس میں نوازش علی نے لکھا کہ ’’فیض کے انتقال اور تدفین کے بارے میں آپ کے اخبار کی رپورٹنگ مناسب، اگرچہ قدرے محتاط تھی۔ آخر فیض عظیم ترین معاصر شاعر ہونے کے علاوہ ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کے پہلے ایڈیٹر بھی رہے تھے۔ ان کی موت کے موقع پر تھوڑے بہت جذبے کا اظہار ایسی بے محل بات نہ ہوتی‘‘۔


فیض صاحب محض تفننِ طبع کے لئے صحافت نہیں کرتے تھے، بلکہ وہ فن صحافت کو سماجی ترقی کے لئے بروئے کار لانے کے خواہشمند صحافی تھے۔ ان کے صحافتی نظریات کا اظہار روزنامہ ’’امروز ‘‘کے پہلے اداریے میں بھی نمایاں ہوا۔ فیضؔ 4 مارچ 1948ء کو لکھتے ہیں: ’’پاکستان میں اور آسائشوں کی کمی ہو تو ہو اردو اخبارات کی کمی نہیں۔۔۔ ہم نے ان اخبارات کی تعداد میں اضافہ کرنا کیوں ضروری سمجھا؟ ہمیں یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ کوئی ایسا اچھوتا مسئلہ ہمارے پیش نظر نہیں ہے،جو مسائل ہمارے سامنے ہیں، وہی سب کے سامنے ہیں، اگر کوئی بات ہے تو صرف اتنی کہ ہماری قوم اور ہمارے دیس کے لئے ان مسائل کی نوعیت اس نوع کی ہے کہ ان پر بحث اور ذکر و فکر اور محاسبے کی بہت گنجائش باقی ہے اور ہمیشہ باقی رہے گی ‘‘۔۔۔ مزید لکھتے ہیں کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے پڑھنے والے اپنے دیس اور باقی دنیا کے حالات کا صحیح اور بے لاگ اندازہ کر سکیں،اس کے لئے کسی خاص عقیدے یا نقطہ نظر کو ان پر ٹھونسنے کے لئے خبروں میں ملمع کاری اور رنگ سازی سے احتراز کیا جائے۔ ہمیں لازم ہے کہ ہر سیاسی و سماجی یا اقتصادی مسئلے کو ان ہی شاکر او ربے زبان عوام کی نظر سے دیکھیں، جن کے مسائل لا تعداد ہیں۔

پاکستان کی حکومت ہماری قومی حکومت ہے،اِس لئے آج کل سب لکھنے والوں کو ایک دوہری سفارت سپرد ہے، عوام کی سفارت اور حکومت کی سفارت عوام کی مجالس میں ‘‘۔۔۔فیض صاحب کے اداریوں کے رجحان اور میلان سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان کی صحافت بھی ان کی شاعری کی طرح اپنے عہد کی ترجمان ہے۔

عوامی مسائل کی ترجمانی کے ساتھ انہوں نے جماعتی سیاست پر بھی لکھا ۔ان کی تحریروں میں بائیں بازو کی طرف جھکاؤ نظر آتا ہے، تاہم وہ بے جا کسی کی حمایت کرنے کی بجائے ہمیشہ متوازن رائے دیتے ۔ ان کے موضوعات میں تنوع نظر آتا ہے۔

انہوں نے صحافت بالخصوص اردو صحافت کو سنجیدگی اور متانت کے علاوہ وقار و وجاہت بھی عطا کی ،ساتھ ہی ساتھ طنز کی تیکھی کاٹ ان کے اداریوں کے مزے کو دوبالا کر دیتی تھی۔ ان کے اداریے ادبی چاشنی سے بھرپور ہوتے تھے، انہوں نے ادبی علامات و استعارات کو سیاسی و سماجی پس منظر میں استعمال کر کے انہیں نئے معانی سے روشناس کرایا ،اسی لئے وہ اپنے ہمصر مدیروں سے مختلف اور ممتاز ہو جاتے ہیں ۔

1970ء اور 1971ء میں ’’لیل و نہار‘‘ کے اداریوں میں فیض مقتدر قوتوں کو وطن عزیز کے سیاسی بحران کے تناظر میں نوشتہ دیوار پڑھنے کی تنبیہ اور تلقین کرتے رہے، مگر کسی نے ان کی باتوں پر کان نہ دھرے ۔مختصراً یہ کہ فیض صاحب کے اداریے خردافروزی اور تحمل کا درس دیتے ہیں اور آج بھی صورتِ حال سے اتنے ہی متعلق ہیں جتنے کہ اولین اشاعت کے وقت تھے۔


’’فیض کی صحافت کے بارے میں انگریزی صحافت کی اہم شخصیت اور فیض کے ساتھی احمد علی خاں اپنے ایک مضمون ’’فیض ایک صحافی‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’فیض صاحب نے صحافت کے میدان میں اس وقت قدم رکھا جب ملکی صحافت ایک نئے دور میں داخل ہو رہی تھی۔

تقسیم سے سال بھر پہلے تک برصغیر پاک و ہند میں،جہاں کئی کثیر الاشاعت انگریزی روزنامے کانگریس کے ہم نوا تھے، وہاں صرف تین قابل ذکر انگریزی روزنامے تحریک پاکستان کے حامی تھے ۔ ’’ڈان‘‘ دہلی سے نکلتا تھا، جبکہ ’’ اسٹار آف انڈیا‘‘ اور ’’مارننگ نیوز‘‘ کلکتے سے نکلتے تھے ۔

ان دِنوں اس علاقے میں،جواب پاکستان کہلاتا ہے، انگریزی کے چار قابل ذکر روزنامے تھے۔ ’’ٹریبیون‘‘اور’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘لاہور سے شائع ہوتے تھے، جبکہ ’’سندھ آبزرور‘‘ اور ’’ڈیلی گزٹ‘‘کراچی سے نکلتے تھے۔ یہ چاروں اخبار غیر مسلموں کے ہاتھوں میں تھے اور ان میں سے کوئی بھی تحریک پاکستان کا حامی نہیں تھا۔ 1947ء میں میاں افتخار الدین نے ’’پاکستان ٹائمز‘ ‘کی بنیاد ڈالی تو دو کام بیک وقت انجام دیئے ، ایک تو تحریک پاکستان جو نازک موڑ پر پہنچ چکی تھی،اس کو تقویت پہنچائی اور دوسرے نوزائیدہ مملکت کی آئندہ صحافت کی سمت اور معیار کا نشان بھی بنا دیا۔ لفظ پاکستان کے شیدائی پہلے تو اس کے نام پر ہی جھو م اُٹھے، پھر بہت جلد اس اخبار کے صحافتی معیار، وقار اور متین انداز سے متاثر ہونے لگے ۔

فیض صاحب نے جب اس کی ادارت کا بوجھ سنبھالا تو وہ اس کی ذمہ داری کے لئے نئے تھے، لیکن ان میں اس کام کی بنیادی صلاحیتیں موجود تھیں۔ علمی لیاقت ، سیاسی ادراک، تاریخ کا شعور ، معاشرے کے مسائل کا علم ، ادب پر گہری نظر اور اچھی نثر (انگریزی و اردو) کا سلیقہ اور اپنی تمام صلاحیتوں سے انہوں نے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔

ان کے اداریے سلاست ، شگفتگی اور ادبیت کے باعث ابتداء ہی سے مقبول ہوئے۔ملک کے سیاسی مسائل پر فیض صاحب کے اداریے وسیع حلقے میں پڑھے اور پسند کئے جاتے تھے ‘‘۔


ان کے ایک اور دوست اور صحافی حمید اختر اپنے مضمون ’’فیض شخصیت کی چند جھلکیاں‘‘ میں ان کی اداریہ نویسی کے حوالے سے یوں رقمطراز ہیں کہ : ’’وہ اپنے اداریے بالعموم شام کی محفلوں کے اختتام پر پریس میں کمپوزیٹروں کے برابر بیٹھ کر لکھتے تھے۔ موضوع کا انتخاب تو ہمیشہ صبح کو ہی ہوجاتا تھا، لیکن پریس والوں کو اداریہ رات کے دس گیارہ بجے سے قبل کبھی نہیں ملتا تھا ۔ ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کے عملے کا خیال تھا کہ وہ کام کو آخری وقت تک ٹالتے رہتے تھے ۔

میرے خیال میں یہ رائے درست نہیں ۔ اصل میں وہ دن بھر اپنے موضوع کے متعلق سوچتے رہتے تھے اور اس دوران غائب دماغی کے مظاہرے بھی کرتے رہتے تھے ۔ دن بھر یا شام کو ملنے والے یا محفل میں ساتھ بیٹھنے والے انہیں غیر حاضر پاتے تو شاعر سمجھ کر معاف کر دیتے، جبکہ حقیقتاً وہ آخری وقت تک اپنے اداریے کے متعلق سوچتے رہتے تھے‘‘۔۔۔

سید سبط حسن جو دنیائے صحافت میں ان کے رفیق خاص رہے وہ ’’سخن در سخن‘‘ میں فیض صاحب کی صحافتی خدمات کے متعلق یوں بیان کرتے ہیں: ’’فیض صاحب نے دس گیارہ سال اخبار نویسی کی۔

پاکستان کی صحافت کی تاریخ میں ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی، انہوں نے اخبار نویسی بڑی آن بان سے کی ۔ انہوں نے ضمیر کے خلاف کبھی ایک حرف بھی نہ لکھا ، بلکہ امن ، آزادی اور جمہوریت کی ہمیشہ حمایت کی۔ اقتدار کی جانب سے شہری آزادیوں پر جب کبھی حملہ ہوا تو فیض صاحب نے بے دھڑک اس کی مذمت کی اور جس حلقے ، گروہ ، جماعت یا فرد سے بے انصافی کی گئی،انہوں نے اس کی وکالت کی ۔

فیض صاحب کے اداریے اپنی حق گوئی کی ہی بدولت مقبول نہیں تھے، بلکہ وہ نہایت دلچسپ ادبی شہ پارے بھی ہوتے تھے، جن کو دوست اور دشمن سب لطف لے کر پڑھتے تھے ‘‘۔۔۔اپنی بات کوفیض احمد فیض ؔ کی اُردو صحافت نامی کتاب کی صنفہ سیدہ برجیس بانو کے اس تجزیے پر ختم کرتا ہوں کہ ’’فیض صاحب صحافیوں کی اس چھوٹی سی جماعت سے تعلق رکھتے تھے، جس نے ملکی صحافت کا رُخ اور اقدار متعین کرنے ، صحافتی اخلاق کا ایک معیار بنانے اور اس کی ترقی کے لئے راستہ صاف کرنے میں نمایاں خدمات انجام دیں اور مستقبل کا مورخ تاریخِ صحافت مرتب کرتے وقت فیض کا نام آزاد اور با مقصد صحافت کو فروغ دینے والے صحافی کی حیثیت سے نظر انداز نہیں کر سکے گا‘‘۔

مزید :

کالم -