بپھرے ہوئے بلوچستان کو بکھرنے سے بچائیں
سپریم کورٹ نے بلوچستان کے حالات اور واقعات کے بارے میں از خود نوٹس لیا ہے اور بلوچستان کے انسپکٹر جنرل پولیس اور ڈی جی ایف آئی اے کو اس وضاحت کے لئے طلب کیا ہے بلوچستان میں قتل و غارت گری کے واقعات کی روک تھا م کے لئے کیا اقدامات کئے جارہے ہیں۔
ایک روز پندرہ محنت کشوں کے قتل، دوسرے روز پا نچ افراد کے قتل ، اس سے قبل ڈی ایس پی اور ان کے اہل خانہ کا قتل اور اس سے قبل ڈی آئی جی پولیس پر حملہ اور قتل کے پے در پے سنگین نوعیت کے واقعات رونما ہونے پر ملک کی عدالت عظمی کا از خود نوٹس لینا ایک فطری عمل ہے۔
بلوچستان پر بہت کچھ لکھا جارہا ہے، لیکن حالات ہیں کہ سنگین سے سنگین تر ہوتے جا رہے ہیں۔ نقب زنی کرنے والے اور شب خون مارنے والے قانون اور قانون نافذ کرنے والوں سے ماوراء نظر آتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بلوچستان میں وقت تیزی سے ہاتھ سے نکل رہا ہے اور پاکستان کو نقصان پہنچانے والے عناصر بھی تیز رفتاری سے اپنے کام میں مصروف ہیں۔ بلوچستان جن حالات سے دوچار ہے اس پر فوری توجہ دینا نہایت ضروری ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ معلومات اکٹھا کرنے والے خفیہ اداروں کے ذمہ داران اپنا کام کرنے میں کسی کمزوری یا کوتاہی کا شکار ہو رہے ہیں۔ ویسے بھی نقب زنی کی روک تھام اور شب خون مارنے والوں کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھنا اس وقت بلوچستان کی ضرورت ہے۔
روزنامہ پاکستان کے شمارے 19 جولائی 2012ء کے کالم تماش گاہ میں میں لکھا گیا تھا کہ ’’ بلوچستان پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ملک کے اس حصے میں پاکستان کے انتہائی قیمتی قدرتی وسائل کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔
سونا، تانبہ، مختلف پتھر، گیس ، تیل کے ذخائر کا ایک ایسا انبار وہاں موجود ہے ، جس سے دنیا کے کئی ممالک محروم ہیں۔ وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومت، سرکاری اداروں کے لوگ ہوں یا غیر سرکاری تنظیموں کے لوگ، دانشور ہوں یا دانش مند، ادیب و شاعر اور صحافی ، سب ہی ایک بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ بلوچستان میں احساس محرومی ہے۔ بلوچستان میں عام آدمی ثمرات سے محروم ہے، اس لئے حالات خراب ہیں۔ حالات کس قدر خراب ہیں، اس کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ کوئٹہ اور اس کے اطراف کو چھوڑ کر پورے صوبے میں امن و امان کے سلسلے میں صوبائی حکومت کا عملاً کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر صوبائی حکومت کا عمل دخل نہیں ہے تو پھر ایف سی یا فوج کا عمل دخل ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے۔ ایف سی اور فوج جہاں جانا چاہے جا سکتی ہے، لیکن احتیاط کے تمام تقاضے پورے کرنے کے بعد، وگر نہ انسانی جانوں کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔
پاکستان جس خطے میں واقع ہے، وہ خطہ اپنی تاریخ کے ایک ایسے دور سے گزر رہا ہے، جہاں خطے کے ممالک سمیت امریکہ بھی موجود ہے۔ ایک ایسا کھیل جاری ہے، جسے کوئی گریٹ گیم کا نام دیتا ہے اور کوئی اسے اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کا نام دیتا ہے ‘‘
اس کالم کی اگلی قسط 20 جولائی 2012ء کو شائع ہوئی تھی ۔ ’’بلوچستان میں گزرنے والا ہر لمحہ پاکستان کو عدم استحکام کی جانب گامزن کر رہا ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو حالت جنگ میں سمجھنا چاہئے۔ ہمارے پاس ان غلطیوں کا دہرانے کا وقت ہے اور نہ ہی قوت جو ہم سے مشرقی پاکستان میں سر زد ہوئیں اور جس کا خمیازہ ہم تمام زندگی بھگتے رہیں گے ۔
مملکت پاکستان کے صدر اور حکومت کے وزیر آعظم اور حزب اختلاف کے قائد کو چاہئے کہ کم از کم تین کمیٹیاں قائم کریں ۔۔۔ دوسری کمیٹی مدیران اخبارات اور دانشوروں پر مشتمل ہو جو جائزہ لے کہ بلوچستان کے عوام کے احساس محرومی کے خاتمے کے لئے کیا کیا اقدامات پہلی، دوسری اور تیسری ترجیح کی بنیا پر ضروری ہیں ۔ تیسری کمیٹی سندھ اور پختون خوا (پنجاب نہیں ) کی یونی ورسٹیوں کے نوجوانوں پر مشتمل ہونا چاہئے جو تین ماہ تک بلوچستان کے مختلف شہروں میں رہ کر جائزہ لیں کہ کشت و خون ، قتل و غارت گری اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے پس پشت کیا مقاصد ہیں اور کون کارفرما ہے ۔
ایک اورکمیٹی کار آمد ثابت ہو سکتی ہے جو سندھ کے قبائلی سرداروں پر مشتمل ہو جو بلوچستان کے سرداروں سے ملاقات کرکے انہیں قائل کرے کہ دہشت گردی، قتل و غارت گری سے مسائل الجھیں گے اور پاکستان کے دشمنوں کو ہی فائدہ پہنچے گا اس لئے وہ اپنے اپنے قبیلے کے نوجوانوں کو قائل کریں کہ وہ ایسی کارروائیوں سے کنارہ کشی اختیار کریں اور معاملات کو مذاکرات کے ذریئے حل کرنے کی ابتدا کریں۔
ایک اور کمیٹی نہایت اہمیت کی حامل ہو سکتی ہے کہ وہ ان جائزوں کے بعد دنیا بھر کو بھارت کے عزائم سے آگاہ کرنے کے لئے موثر کارروائی کرے۔ یہ تمام کمیٹیاں سرکار بنائے، سہولتیں فراہم کرے، لیکن اعلیٰ سرکاری افسراں کی افسری سے دور رکھا جائے ۔
یہ افسران قواعد اور ضابطوں کے نام پر کام کم اورسست رفتاری سے کرتے ہیں جو وقت کا ضیاع ثابت ہوتا ہے ۔ وقت کی ڈور ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے اور ہماری دوڑ وقت کے مقابل ہے اور وقت ہے کہ جو ہمارے ہاتھوں سے مکھن لگی رسی کی طرح نکلا جارہا ہے ‘‘
22 اگست 2016 کے کالم تماش گاہ میں لکھا تھا کہ ’’ میں تماش گاہ میں اپنے کالموں میں اکثر لکھتا رہا ہوں کہ بلوچستان میں بھارت موجود ہے ۔ اسے افغانستان کی صورت میں ایسا کولکتہ مل گیا ہے جہاں سے پاکستان میں آسانی کے ساتھ در اندازی اور مداخلت کی جاسکتی ہے ۔ ۔۔ بھارت کے لئے افغانستان کے راستے بلوچستان میں کارروائیاں کرنا کسی طرح بھی مشکل نہیں رہا۔ بلوچستان اسی سلسلے کی ایک واضح علامت اور کڑی ہے
بلوچستان میں بھارت کے عمل دخل کے بارے میں حقائق کی چھان بین کی جائے تو پس پشت بھارت نکلے گا۔ اغواء، قتل، اور لاشوں کو مسخ کرکے پھینک دینا ، دو طرفہ کارروائی کا حصہ ہیں۔ بلوچستان میں، جس طرح کی کارروائیاں ہو رہی ہیں، ان میں احساس محرومی کے شکار لوگوں کے ملوث ہونے کا امکان معدوم نہیں، بلکہ بھارت کے ایجنٹ کے طور پر کام کرنے والے گمراہ لوگوں کا ملوث ہونا نظر آتا ہے۔
(کل بھوشن کی گرفتاری کے بعد کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں رہی ہے) پاکستان کوئٹہ، کراچی اور خیبر پختون خوا میں ایک ایسی ان دیکھی جنگ میں پھنس گیا ہے، جس سے نکلے کے لئے پاکستان کو عقل و فہم سے عاری نہیں، بلکہ اخلاص و قربانی کے جذبے سے معمور جنگی بنیادوں پر فیصلہ کرنے وال قیادت اور حکمران طبقے کے ساتھ ساتھ ان ہی خصوصیات کے حامل عوامی نمائندوں کی شدید ضرورت ہے‘‘ ۔
سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا ہے، وہ اس سے زیادہ کیا کر سکتی ہے۔ یہ تو بلوچستان میں اقدامات کرنے کا معاملہ ہے جس میں وفاقی حکومت، صوبائی حکومت، سیکیورٹی کے ذمہ دار ادارے اپنا کردار ادا کرنے کے لئے حکمت عملی بنا سکتے ہیں۔
یہاں یہ کہنا مقصود نہیں ہے کہ حکمت عملی نہیں بنی ہوگی، اس پر عمل نہیں کیا جارہا ہوگا، لیکن جو نتائج سامنے آرہے ہیں، وہ کسی طور پر بھی تسلی بخش نہیں ہیں۔
شائد کچھ زیادہ اقدامات خصوصاً سیاسی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ناراض اور گمراہ عناصر سے غیر مشروط مذاکرات کرنا کوئی معیوب بات نہیں ہے، بلکہ کسی انتظار کے بغیر پہل کرنے کی ضرورت ہے۔
آنا کانی، اگر مگر ، چوں کہ، چناچہ کرنے کی بجائے مذاکرات کرنا وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے ۔ جتنا جلدی ہوگا اتنا ہی بہتر ہوگا ،کیونکہ ہماری اہم ترین ترجیح بپھرے ہوئے بلوچستان کو بکھرنے سے بچانا ہونا چاہئے۔