پانی کی تقسیم پر اعتراض، مشترکہ مفادات کونسل میں پہلا اتفاق!

پانی کی تقسیم پر اعتراض، مشترکہ مفادات کونسل میں پہلا اتفاق!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


دریائی پانی کی صوبوں میں تقسیم کے حوالے سے تمام تر تحفظات کے باوجود کم از کم اس امر پر تو اتفاق رائے ہو گیا کہ تقسیم کا جو بھی فارمولا ہے یا آئندہ ہوگا اس کے لئے جدید ٹیلی میٹری نظام لازمی استعمال ہو گا۔ ان دنوں سندھ کو تحفظات ہیں اور وزیراعلیٰ سندھ کی طرف سے یہ الزام لگایا گیا تھا کہ صوبے کے حصے کا پانی پورا نہیں ملتا اور پنجاب کو زیادہ مل جاتا ہے۔ اس سے شاید ان کی مراد بھی یہی تھی کہ جو فارمولا طے ہے اس میں سے پنجاب زیادہ پانی لے لیتا ہے۔ اس مقصد کے لئے ٹیلی میٹری نظام کی بات آئی تو بات طے ہو گئی کہ اس نظام کے تحت طے شدہ پانی کی تقسیم میں گڑبڑ نہیں ہو سکے گی۔یہ خوش آئندہ اتفاق رائے وزیراعظم کی صدارت میں ہونے والے مشترکہ مفادات کی کونسل کے اجلاس میں ہو گیا۔ اس اجلاس میں اور بھی کئی فیصلے ہوئے اور سب نے کے پی کے کو بجلی کے خالص منافع میں سے بقایا جات ادا کر دیئے جانے پر بھی اتفاق کر لیا۔مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کی کارروائی کی جو تفصیل میڈیا کو بتائی گئی یہ خوش کن ہے کہ چاروں صوبوں نے اپنے اپنے تحفظات اور مطالبات سے بھی آگاہ کیا اور فیصلے اتفاق رائے سے کئے گئے۔ یہی اس کونسل کے مقاصد ہیں، اب تو وزیراعظم کو بھی یقین ہو گیا ہو گا کہ مشاورتی عمل ہی بہتر ہوتا ہے اور ڈائیلاگ سے معاملات سدھرتے ہیں، سندھ کی طرف سے بار بار شکائت کی گئی حتیٰ کہ خود وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے پانی کی کمی کا ذکر کرکے الزام بھی لگا دیا تھا۔ توقع کرنا چاہیے کہ اس عمل اور اجلاس کو مثال بنا کر دوسرے امور بھی طے کر لئے جائیں گے، اسی اجلاس میں 2017ء کی مردم شماری بھی منظور کر لی گئی حالانکہ اس پر بھی اعتراضات اور تحفظات کا اظہار سندھ ہی کی طرف سے ہوا تھا۔جہاں تک دریائی یا نہری پانی کا تعلق ہے ۔یہ فطرت اور قدرت سے بھی جڑا ہوا ہے۔ اگر پانی کے ذخائر وافر ہوں تو ضرورت کے مطابق بھی پانی دیا جا سکتا ہے اگر ایسا نہ ہو تو پھر تنازعہ ہی کی صورت پیدا ہو گی۔ اس لئے بہتر ہے کہ اب ڈیم بنانے کی مہم چل نکلی ہے تو اسے بھی کامیاب بنایا جائے اور سب مل کر کوشش کریں کہ پانی ذخیرہ کرنے کے یہ وسائل تعمیر ہو کر میسر آجائیں کہ مستقبل کی ضروریات بھی پورا ہوں۔

مزید :

رائے -اداریہ -