ایڈولف ہٹلر:حیران کن عروج اور عبرت ناک زوال

ایڈولف ہٹلر:حیران کن عروج اور عبرت ناک زوال
 ایڈولف ہٹلر:حیران کن عروج اور عبرت ناک زوال

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جنگِ عظیم اول (1914-18ء) کو ’’تمام جنگوں کے خاتمے کی جنگ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ جنگ28جون1914ء میں آسٹریا کے ایک شہزادے آرچ ڈیوک فرینز فرڈیننڈ کے ایک سرب دہشت گرد باشندے کے ہاتھوں قتل کے نتیجے میں شروع ہوئی۔جرمنی کے قیصر ولیم نے آسٹریا کو سربیا کے خلاف اعلانِ جنگ کرنے پر آمادہ کیا۔ روس نے آسٹریا کے خلاف اپنی فوجیں روانہ کر دیں،جرمنی روس کے خلاف چل نکلا۔اس کے ساتھ ساتھ برطانیہ عظمیٰ اور فرانس نے بھی جرمنی کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔یورپی اور برطانوی نوجوان اِس جنگ میں شریک ہونے لگے۔انہوں نے وطنیت اور قومیت کے جذبات کے تحت اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کرنا شروع کر دیں، انہیں توقع تھی کہ جنگ قلیل مدتی ہو گی،لیکن عملاً ایسا نہ ہو سکا۔اِس جنگ میں کروڑوں سپاہی ہلاک ہوئے،جوانوں کی ایک پوری نسل صفحۂ ہستی سے مٹ گئی۔اس جنگ میں یورپی بادشاہوں اور اشرافیہ کی حکمرانی کا خاتمہ ہو گیا اور ان کے بنائے ہوئے ضوابط اخلاق و معاش زمین بوس ہو گئے۔

اس جنگ میں جہازوں، توپوں، ٹینکوں، مشین گنوں اور ہلاکت خیز گیسوں اور نئی نئی دریافت کردہ ٹیکنالوجیز کا دِل کھول کر استعمال کیا گیا، خندقوں کی طویل قطاروں اور قلعہ بندیوں کے باعث جنگ نے طوالت پکڑی،ہلاکت خیز وسائل کا بے دریغ استعمال کیا گیا، فرانس سے لے کر جرمنی کے سار دریا تک قلعہ بندیوں کے باعث پورا یورپ جنگ کی ہلاکت خیزیوں کا شکار ہوا۔ یورپ نے ایسی ہلاکت خیزی پہلے نہیں دیکھی تھی۔اِسی دور میں ایک نوجوان ایڈولف ہٹلر بھی رضا کار فوجی کے طور پر اپنے وطن، اپنی قوم کی فتح کے لئے جنگ میں شریک ہوا۔ یہ جنگ اس کے لئے ایک مقدس فریضہ تھی۔ایڈولف ہٹلر آسٹریا میں پیدا ہوا۔اس کا باب آسٹرو، جرمن بارڈر پر کلرک تھا، ماں ہاؤس کیپر تھی، وہ آرٹسٹ بننا چاہتا تھا،13سال کی عمر میں اُس کا باپ مر گیا،17سال کی عمر میں اُس کی ماں مر گئی، وہ17سال کی عمر میں ویانا آ گیا۔ یہاں اس کو سپورٹ کرنے والا کوئی نہیں تھا، قومی جذبات کے تحت اس کی دلچسپی سیاست میں ہوئی ،یہیں یہودی مخالفت خیالات بھی پیدا ہوئے۔1914ء میں اس نے سرحد پار کر کے جرمنی کی سولہویں بوارین ریزرو انفنٹری رجمنٹ میں شمولیت اختیار کر لی۔ یہ مغربی محاذ جنگ پر شریک ہوا، دادِ شجاعت دی اور اسے آئرن کراس سے نوازا گیا۔


1918ء میں ایک گیس حملے میں وہ عارضی طور پر اندھا ہو گیا،جس کے باعث اسے محاذِ جنگ سے واپس بُلا لیا گیا،جرمنی جنگ ہار گیا۔معاہدہ ورسائی پر دستخط کر کے جرمنی کو ذلت کا سامنا کرنا پڑا، اڈولف ہٹلر اس معاہدے پر دستخط کرنے پر ویلمر حکومت کو تنقیدکا نشانہ بنانے لگا اور جرمنی کے قیصر ولیم کے دور کے لوٹ آنے کی باتیں کرنے لگا۔ جنگ کے بعد بھی وہ فوج میں رہا اور شعبہ انٹیلی جنس میں تعینات کیا گیا، یہاں اس کے روابط اینٹون ڈریکسلر کی جرمن ورکر پارٹی سے قائم ہوئے۔ پارٹی کے نظریات سے متاثر ہو کر 1919ء میں اس نے پارٹی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کر لی۔ ڈریکسلر ہٹلر کی اَن تھک شخصیت سے متاثر ہوا اور اسے پارٹی کے سیاسی اور پروپیگنڈہ ونگ کا انچارج بنا دیا گیا۔1920ء میں پارٹی نے قوم کی بہتری کے لئے25 نکاتی پروگرام کا اعلان کیا اور پارٹی کو نیشنل سوشلسٹ جرمن ورکر پارٹی کا نیا نام دیا گیا۔ 1921ء میں ہٹلر نازی پارٹی کا لیڈر منتخب ہو گیا۔ ہٹلر فکری اور نظری (نازی پارٹی) طور پر ہی نہیں، عملاً بھی ایک اَن تھک قوم پرست نوجوان تھا، اس کی تقریروں اور جوش بھری باتوں نے یورپ کی انتہائی ترقی یافتہ قوم کو اس کا اسیر بنا دیا۔ہٹلر کے مخالفین اس کے جلسوں کو تہس نہس کرنے کے در پے رہتے تھے، اِس لئے ہٹلر نے ایک ’’طوفانی دستہ‘‘ تشکیل دیا، جو اس کے جلسوں کی حفاظت پر مامور ہوتا تھا۔ اس دور میں نازی پارٹی کی ممبر شپ بہت زیادہ نہیں تھی،لیکن ہٹلر کی تقریروں نے پارٹی کی حیثیت کو چار چاند لگا دیئے۔1924ء میں ہٹلر نے حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کی، جس کے باعث اس کی پارٹی پر پابندی لگی اور اسے قید کر دیا گیا۔یہاں جیل میں ہٹلر کو اپنے خیالات مجتمع کرنے اور تبدیلی کا ایک منظم منصوبہ بنانے کا وقت ملا۔اُس نے یہاں بیٹھ کر ’’میری جدوجہد‘‘ نامی کتاب لکھی۔1925ء میں اس کتاب کی پہلی جلد،جبکہ1926ء میں دوسری جلد شائع ہوئی۔اپنی اِس کتاب میں ہٹلر نے جرمنوں کی ’’تیسری عظیم سلطنت‘‘ کے قیام کے خدوخال بیان کئے۔


یہودیوں کے بارے میں جو خیالات اس نے 100سال پہلے اپنی کتاب میں بیان کئے، وہ آج حرفِ بحرف سچ ثابت ہو رہے ہیں۔ ہٹلر کے بقول یہودی سازش کے ذریعے عالمی غلبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس نے یہودیوں کو ایک ’’خطرہ‘‘ قرار دیا۔ اُس نے اپنی کتاب میں بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا کہ یورپ کی معاشی و معاشرتی اور سیاسی بدحالی اور کسمپرسی کے پس پردہ ’’یہودی سازش‘‘ کار فرما ہے ۔یورپی اقوام کی اخلاق باختگی کو بھی یہودی سازش سے منسلک کیا۔ کہا جاتا ہے کہ یورپ میں چلنے والے عصمت فروشی کے اڈے یہودی منظم کرتے ہیں، اقوام مغرب میں پھیلنے والی اخلاق باختگی، خاندانی نظام کی تباہی اور ہم جنس پرستی کے فروغ میں یہودی ذہن کارفرما ہے۔ ہٹلر نے بڑی صراحت کے ساتھ یہودی سازش کو بیان کیا اور پھر جرمن قوم کو ان سازشوں سے بچانے کے لئے ’’یہودی تطہیری عمل‘‘ کا حل تجویز کیا۔ایڈولف ہٹلر نے کمیونزم اور یہودیت کو ’’عالمی برائی‘‘ قرار دیا۔ اگر ہم کمیونزم کی تفصیلات میں جائیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ کمیونزم بھی یہودی ذہن کی تخلیق ہے، روس میں اشتراکی انقلاب یہودی ذہن کی کارستانی ہے۔ ہٹلر نے جرمنوں کو احساس دلایا کہ وہ ’’قیادت اور حکمرانی‘‘ کے لئے پیدا کئے گئے ہیں، انہیں زندہ رہنے اور حکمرانی کے لئے ’’اور زمین‘‘ کی ضرورت ہے،جہاں انسان بستے ہوں، جن پر حکمرانی کی جا سکے۔یہ بھی نازی ازم کا نعرہ تھا، جس کی بنیاد پر نازی جرمنی نے توسیعی جنگ شروع کی اور ’’تیسری جرمن سلطنت‘‘ کے قیام کی کاوشیں کیں۔


ایڈولف ہٹلر جب 5 سالہ قید کاٹ کر رہا ہوا تو دُنیا نے سمجھا کہ اب وہ بھولی بسری داستان بن گیا ہو گا، لیکن ایسا نہیں ہوا، اسی دوران عالمی کساد بازاری کا دور شروع ہوا۔ معاشی معاملات مزید دِگرگوں ہونے لگے، ہٹلر نے اپنے جوشیلے خطابات کے ساتھ جرمنوں کو ان کی عظمتِ رفتہ کے حوالے دے کر جگایا، منظم کیا اور 1932ء کے انتخابات میں کود پڑا۔ اس نے نہایت شاندار مہم چلائی۔ یورپ میں ایسی تاریخ ساز اتخابی معرکہ آرائی کسی نے پہلے نہیں دیکھی تھی، ہٹلر کی نازی پارٹی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر اُبھری، لیکن اسے واضح اکثریت حاصل نہ ہو سکی، 30 جنوری 1933ء کو اڈولف ہٹلر کو جرمنی کا چانسلر نامزد کر دیا گیا، ایک مہینے بعد (27 فروری) پارلیمینٹ میں آگ لگ گئی، ہٹلر نے کمیونسٹ پارٹی پر اس آگ کی سازش میں ملوث ہونے کا الزام لگایا اور اس پر پابندی عائد کر دی۔ اس طرح نازی جماعت کو پارلیمان میں واضح اکثریت حاصل ہو گئی۔ 23مارچ 1933ء میں ہٹلر نے ایک ایکٹ کے ذریعے چار سال تک بغیر پارلیمان کی منظوری کے قانون سازی کے اختیارات حاصل کر لئے۔ اگلے 4 ماہ کے اندر اندر ہٹلر نے اقتدار پر مکمل قبضہ کر لیا ۔ہٹلر ایک سچا قوم پرست تھا،جنگِ عظیم اول میں جرمن قوم کی شکست پر بہت رنجیدہ تھا

،اس کے خیال میں ’’کیونکہ سول حکمرانوں نے فوج کی مکمل طور پر تائید و نصرت نہیں کی،اِس لئے وہ شکست کھا گئی‘‘۔ ایڈولف ہٹلر نے عوامی تائید سے الیکشن جیتا، اقتدار میں آیا،حکومت سنبھالی اور پارلیمان کے ذریعے ہی مکمل اختیارات حاصل کئے تاکہ قوم کی بھلائی اور بہتری کے لئے کچھ ایسا کر سکے، جس کا وعدہ اُس نے الیکشن مہم کے دوران اور اس سے قبل اپنی قوم سے کیا تھا۔ جب 1933ء میں ایڈولف ہٹلر نے جرمنی کی قیادت سنبھالی تو قومی اقتصادیات کی حالت انتہائی دِگرگوں تھی۔ ایک ڈالر کے لئے7500 جرمن مارک دینے پڑتے تھے، 70فیصد نوجوان بے روزگار تھے، اخلاقی حالت بھی دِگرگوں تھی،ایسے حالات میں ایڈولف ہٹلر نے اپنے وعدوں کے مطابق قومی تعمیر و ترقی کا کام جنگی بنیادوں پر شروع کیا۔ قوم ایک سیسہ پلائی دیوار بننے لگی۔


نیور نبرگ لاء کے ذریعے ہٹلر نے جرمنوں کی آریائی نسل کی شہریت کو مستحکم کیا اور یہودیوں پر کوئی بھی سرکاری عہدہ رکھنے پر پابندی عائد کر دی۔ ہٹلر نے ورسائی معاہدے کے برخلاف جرمن آرمی کی تعمیر شروع کر دی۔ دشمنوں کے قبضے سے جرمنی علاقے چھڑانے کی کاوشوں کے آغاز کے طور پر رہائن لینڈ پر قبضہ کر لیا۔ برطانیہ اور فرانس کو اس مہم جوئی کی مخالفت کی جرأت نہ ہو سکی۔1938ء کے موسم بہار میں آسٹریا کے ساتھ واقع انشلش اور خزاں میں چیکو سلواکیہ سے متصل سوڈٹینڈ لینڈ پر قبضہ کر لیا۔ ہٹلر نے میونخ معاہدے میں اس بات کا اقرار کیا کہ وہ اب مزید قبضے نہیں کرے گا،لیکن مارچ1939ء میں ہٹلر نے چیکو سلواکیہ پر قبضہ کیا۔ اس نے یکم ستمبر1939ء میں پولینڈ میں فوجیں داخل کر دیں اور اس پر مکمل قبضہ کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہو گیا۔ہٹلر نے بڑی سرعت کے ساتھ قبضے جاری رکھے، مئی 1940ء تک مغربی یورپ میں صرف برطانیہ ہی واحد مُلک تھا،جہاں ہٹلر قبضہ نہیں کر سکا تھا۔ برطانیہ کی لڑائی میں ناکامی کے باعث ہٹلر برطانیہ پر چڑھ دوڑنے سے باز رہا اور اس طرح اس کی توجہ روس کی طرف مبذول ہوئی، جہاں اس نے قبضہ کرنے کا پروگرام بنایا۔ایڈولف ہٹلر ایک لیڈر اور ملٹری کا نابغہ تھا۔ دوسری جنگِ عظیم میں اس نے جو فوجی چالیں چلیں،جس انداز میں دشمنوں پر برق رفتاری سے حملے کئے،فتوحات کیں وہ اپنی مثال آپ ہیں، دُنیا کی کئی ملٹری اکیڈمیز میں فوجی لیڈروں کو ان چالوں کا سبق پڑھایا جاتا ہے۔

کیا یہ حیران کن بات نہیں ہے کہ یورپی ومغربی دنیا اس کے خلاف صف آرا ہو گئی تھی، ہٹلر کے ساتھ صرف اٹلی اور جاپان تھے۔ اٹلی کے حکمران مسولینی کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا تھا، دوران جنگ ہی ہٹلر نے اٹلی کو آزاد کرایا اور مسولینی کو دوبارہ حکمران بنایا۔ایڈولف ہٹلر ایک سیاسی رہنما تھا، قوم پرست تھا،اپنی قوم کی عظمتِ رفتہ کی بازیابی کا داعی تھا۔ اس نے قوم کی ذہنی تطہیر کی، تربیت کی، انہیں آمادہ کیا، تبدیلی کے لئے تیار کیا، ووٹ کی طاقت سے نااہل لیڈروں کا مقابلہ کیا۔ جرمن عوام نے اسے ایوان اقتدار تک پہنچایا، پھر اس نے ایک بھی لمحہ ضائع کئے بغیر تبدیلی کا عمل شروع کر دیا۔ پارلیمینٹ کے ذریعے وہ طاقت حاصل کی، جو تبدیلی کے لئے درکار تھی۔ اس نے اپنی قوم کی عظمتِ رفتہ کی بحالی کے لئے ’’بُلٹ‘‘ کا سہارا لیا۔


’’طاقت کا قانون‘‘ ہی اقوام عالم میں سکہ رائج الوقت گنا جاتا ہے، اس نے چھ سال کے قلیل عرصے میں ایک شکست خوردہ قوم کو کھڑا کیا، متحد کیا، ایک مقصد کے حصول کے لئے آمادہ کیا، آمادہ پیکار کیا، ایک ہاری ہوئی فوج کو ازسرِ نو منظم کیا، مسلح کیا، وارمشین میں تبدیل کیا اور پھر طے کردہ، اعلان کردہ مقاصد کے حصول کے لئے میدانِ جنگ میں جھونک دیا۔ جرمن قوم ہٹلر کی قیادت میں تبدیلی کے عمل میں لگ گئی، جبکہ جرمن فوج میدانِ جنگ میں لگ گئی، پھر دُنیا نے دیکھا فتوحات ہی فتوحات ان کا مقدر بنیں۔تاہم ہٹلر کا روس پر حملہ کرنے کا فیصلہ اس کے لئے جان لیوا ثابت ہوا، ہٹلر کے بڑھتے ہوئے قدم یہاں روسی برف زاروں میں آکر رک گئے۔ ہٹلر نے یہاں حملہ کرنے سے پہلے روس میں برف باری کے متعلق ڈیٹا کا مطالعہ کیا، تجزیہ کیا اور پھر معلومات کی بنیاد پر حملے کا پروگرام بنایا، طے شدہ منصوبے سے مطابق حملہ کیا گیا۔ نتائج نکلنے شروع ہوئے، طے شدہ وقت کے مطابق ہٹلر کی افواج لینن گراڈ کے دروازے تک پہنچ گئیں،

آخری حملے کے نتیجے میں شہر پر قبضہ ہونا باقی تھا کہ وقت سے پہلے برف باری شروع ہوگئی، ہٹلر کے منصوبے کے مطابق قبضے کے بعد اس کی افواج نے یہاں قیام کرنا تھا اور یہاں سے ہی رسد حاصل کرنا تھی۔ روسیوں نے واپس ہٹتے ہوئے شہر کی ہر شے جلاکر راکھ بنا ڈالی،پل توڑ دیئے، جب ہٹلر کی افواج یہاں قابض ہوئیں تو انہیں کچھ بھی نہ ملا۔ رسد نہ مل سکی اور اس طرح تباہی و بربادی کا آغاز ہوا۔ 16لاکھ جرمن افواج تہس نہس ہوگئیں۔ دشمن کے ہاتھوں نہیں،بلکہ قدرت کے قہر کے باعث یہاں ہٹلر کو شکست ہو گئی اور پھر فتوحات شکست میں بدلنے لگیں۔ انجام کار جرمن افواج المناک انجام کا شکار ہوئیں،امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گرا کر جنگ کو فیصلہ کن بنایا اور جرمن، جاپان اور اٹلی کا اتحاد جنگ ہار گیا، لیکن ہٹلر نے اپنی قوم کو عظمت اقتدار کی بحالی کا جو خواب دکھایا تھا، اس کے لئے جرمن قوم نے قربانی دی اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ جرمن قوم ایک عظیم قوم کے طور پر عالمی منظر پر اپنا آپ منوا رہی ہے۔ ہٹلر کے بارے میں کچھ بھی کہنے، لکھنے پر پابندی ہے، کیوں؟ ذرا سوچئے۔

مزید :

رائے -کالم -