بھیڑیں
بھیڑ، جانوروں کی دنیا میں امن پسند، بے ضرر اور راضی برضا مخلوق ہے۔ آج کی دنیا کا مسئلہ درندوں کی چیر پھاڑ نہیں ہے۔ آج کی دنیا کا مسئلہ بھیڑیں ہیں۔یعنی بھیڑوں کی عدم مزاحمت اور خود سپردگی ہے۔ بھیڑیں جینے کیلئے ریوڑ میں رہتی ہیں۔ محض مل جل کر رہنے سے تحفظ کا جھوٹا احساس پیدا ہوتا ہے۔جدوجہد کی شراکت تحفظ کو جنم دیتی ہے۔ بھیڑوں کی ایک اپنی دنیا ہے۔ ان کی اس دنیا میں باہر سے ایک چرواہا آتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا بھی ہوتا ہے۔ بھیڑوں کو اس کا پتہ نہیں ہوتا کہ یہ کون ہے۔ کہاں سے آتا ہے ، لیکن اسے دیکھ کر بھیڑوں کو ایک تسلی سی رہتی ہے۔ بھیڑوں کو کسی بھیڑ پر یقین نہیں ہوتا ،کیونکہ بھیڑ تو آخربھیڑ ہوتی ہے۔وہ سوچتی ہے کہ یہ باہر سے آنے والا ٹھیک ہے۔ اس کے پاس ڈنڈا بھی ہے۔ یہی ان کی رکھوالی کرے گا۔
بھولی بھالی بھیڑیں تھو تھنی اٹھا کر چرواہے کو دیکھتی ہیں اور خوشی سے ممیاتی ہیں۔ اسے خوش آمدید کہتی ہیں۔ اس حقیقت سے بھی کوئی غرض نہیں ہوتی کہ یہ چرواہا زندگی کا ضامن نہیں، موت کا سہولت کارہے۔ جھاڑیوں میں چھپے ہوئے درندے سے جن کی اندھیرے میں سرخ چمکتی آنکھیں دکھائی دیتی ہیں بھیڑیں ہمیشہ خوفزدہ رہتی ہیں۔ اُن درندوں سے چرواہا بھیڑوں کو بچاسکتا ہے،لیکن بڑے پیار سے یہی چرواہا ایک ایک کر کے انہیں ایک مہذہب خنجر کے نیچے لے آتا ہے۔جب بھی کوئی خونخوار درندہ ریوڑ میں سے ایک بھیڑ کو جھپٹ کر لے جاتا ہے۔باقی بھڑیں اُچٹتی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور پھر اُسی اطمینان سے گھاس چرنے لگتی ہیں کہ شکر ہے اٹھائی جانے والی بھیڑوہ نہیں تھی۔ جب بھی اس طرح کا موت و حیات کا لمحہ آئے تو یہ امن پسند بھیڑیں اپنے محافظ چرواہے کی پناہ کیلئے لپکتی ہیں۔اگر چرواہا موجود نہ ہو تو بھیڑیں اُس خاص لمحے میں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح جڑ جاتی ہیں جیسے ریوڑ ایک وجود ہو، لیکن اُن کا ایک وجود مٰں متحد ہونا بھی لاشعوری،بلکہ اضطراری اور لمحاتی عمل ہوتا ہے۔ ایسا عمل انہیں مزاحمتی قوت میں نہیں ڈھالتا۔ایسا عمل قوت محّرکہ کا موجب نہیں بنتا۔
سچ پوچھئے تو ضعیفی خود وجود کی دشمن ہے۔نہ چرواہا اُسے بچا سکتا ہے اور نہ ہی ضعیفوں کا اتحاد یا بے بسی کا اجتماع تحفظ کی ضمانت دے سکتا ہے۔
ایک موثر فاعل کی فاعلیت نتیجہ خیز ہو سکتی ہے جیسے اکیلے چرواہے کی قوت عمل ہزاروں بھیڑوں کو کنٹرول کرتی ہے، لیکن بھیڑوں کی اجتماعی مفعولیت مرگ اجتماع ہے۔بھیڑیں کثرت میں ہونے کے باوجود ناروا کے خلاف احتجاج نہیں کرتیں۔ اگر ظلم کے خلاف مزاحمت زندگی کی پہچان ہے تو سانس لیتی چلتی پھرتی ممیاتی بھیڑوں کو زندہ نہ سمجھو۔بھیڑیں محض موت کے انتظار میں زندہ رہتی ہیں۔زندگی کو تخلیق و ارتقا کا ذریعہ نہیں سمجھتیں۔دوسری جانب ریوڑ پر حملہ آور اکیلے بھیڑیئے کیلئے بھی فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ اس ریوڑ میں سے کس بھیڑ کا شکار کرے۔ اندھی جارحیت پشیمانی کا باعث بنتی ہے۔ریوڑ میں ہونے کے باوجود بھیڑیں تو ہر بھیڑ کو الگ سمجھ رہی ہوتی ہیں،لیکن بھیڑیا، ریوڑ کو ایک اکائی سمجھ رہا ہوتا ہے۔اس لئے اس شش و پنج سے جان چھڑانے کیلئے بھیڑئیے بھی ایک ریوڑ میں رہنے لگے۔ شاید میں غلط کہہ گیا۔بھیڑئیے ریوڑ نہیں بناتے۔ بھیڑئیے تو ایک دھاک کی صورت حملہ آور ہوتے ہیں`جس میں ہر بھیڑیا خود اپنا فیصلہ کرتا ہے۔ بھیڑوں کیلئے کوئی فیصلہ کرنے والا لیڈر نہیں ہوتا۔اورخود ریوڑ میں فیصلہ کرنے کی اہلیت نہیں ہوتی، بلکہ عجیب بات ہے کہ انہیں فیصلے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔بھیڑوں کی اس بے فکری اور بے اعتنائی کو کیا کہا جائے کہ چرواہے پر انحصار کی وجہ سے اپنے معاملات پر سوچنے اور فیصلہ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتیں۔
کسی سماجی فیصلہ کرنے کیلئے اختیار اور رائے کا ہونا لازمی شرائط ہیں۔ بھیڑوں میں نہ اختیار ہوتا ہے نہ اختیار کی طلب ہوتی ہے۔شایدیہ دونوں انسانی لوازمات ہیں۔جب یہ دونوں شرائط نہ ہوں توکوئی کسی بھی شکل میں ہو بھیڑ ہی ہو گا۔بھیڑوں کی پہچان ہی یہی ہے۔بھیڑ قبولیت اور استغنا کے اُس مقام پر ہوتی ہے جہاں نہ شکایت ہوتی ہے نہ احتجاج۔حالات جیسے بھی ہوں،بھیڑیں ہر حال میں گزارہ کرتی ہیں۔گزارہ کیا ہے؟گزارہ کا مطلب یہ ہے کہ نہ تو معیار زندگی ہو اور نہ ہی زندہ رہنے کے حق کا شعور ہو۔معیار کے تعین کے بغیر زندگی کم از کم گزارے پر گزاری جا رہی ۔جہاں بھی آپ گزارہ کے تصور کی حکمرانی دیکھیں اور پورا گروہ گزارے کی بنیاد پر اپنی زندگی استوار کرنے پر تیار ہو تو ایسا گروہ یقینی طور پر بھیڑوں کا ریوڑ ہو گا۔
دوم یہ کہ فیصلہ کرنے کی اہلیت کیلئے اپنی خود مختار رائے کا ہونا ضروری ہے۔بھیڑوں کی اپنی رائے نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ بھیڑیں اپنی زندگی کے خدوخال متعین نہیں کر سکتیں۔اپنی زندگی میں تبدیلی نہیں لا سکتیں۔نہ راستہ چن سکتی ہیں نہ منزل اور نہ ہی بھیڑوں میں سے اپنی قیادت کا انتخاب کر سکتی ہیں۔چناؤ خود مختاررائے کا اظہار ہوتا ہے۔
اگرکسی کی مرضی یا منشایا رائے کسی دوسرے کی محتاج ہو تو ایسی تابع رائے کا مالک وہ ہو گا جس کے حکم اور اختیار میں وہ رائے مرتب ہو گی۔چونکہ بھیڑ اُس ڈنڈا بردار چرواہا کی مرضی کے تابع ہوتی ہے اس لئے مرضی اور رائے چرواہے کی چلے گی۔جب نہ رائے اُس کی نہ فیصلہ۔۔۔۔ تو زندگی جامد ہو جائے گی ہر بھیڑ اُس ڈنڈے کی جنبش کو اپنا مقدر گرادنتی ہے۔ایسا مقدر جو نہ تبدیل ہو گا اور نہ اُسے تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔
چرواہے کی اتھارٹی صرف اُس کا ڈنڈا ہی نہیں ہوتا ۔کئی دانا چرواہے اپنے آپ کو ریوڑ کی نگرانی کی عرق ریزی سے بچانے کے لیے ایک اضافی مگر موثر اہتمام کر لیتے ہیں۔وہ ایک بڑے ریوڑ کو کنٹرول کرنے کیلئے اور کسی حملہ آور سے ریوڑ کو بچانے کیلئے ایک وفادار اور تربیت یا فتہ کتا پال لیتے ہیں۔کتا ریوڑ کو کنٹرول میں رکھنے کیلئے سخت محنت کرتا ہے۔ ریوڑ کے چاروں طرف دوڑتا رہتا ہے۔چرواہا کی مرضی کے مطابق بھیڑوں کی سمت متعین کرتا ہے۔بھیڑوں کو بیرونی حملوں سے بھی بچاتا ہے۔اپنی کامیاب کارکردگی کے بعد اپنی تھوتھنی کو آسمان کی طرف بلند کر کے لمبی تان لگاتا ہے۔ ایسا اُس وقت کرتا ہے جب وہ درخت کے ساتھ ٹیک لگائے اپنے مطمئن مالک سے اپنی کامیابی کی داد طلب کر رہا ہوتا ہے۔ریوڑبھی پیٹ بھر کر چرنے کے بعد بیٹھ جاتا ہے اور اونگھنے لگتا ہے۔ریوڑ کے اطمینان کے پس منظر میں چرواہا اور اس کا ڈنڈاہوتا ہے۔رہاریوڑ۔۔۔توریوڑ کو تو بس اپنا تحفظ چاہیے،بلکہ تحفظ کا نظام چاھیئے۔ تحفظ اور زندگی کی تار قائم رکھنے کیلئے چارہ بطور گزارہ میسّر ہو تو اور کچھ نہیں چاہیے۔ریوڑ کا سماجی بہبود کاتو کوئی تصور نہیں ہوتا۔دوسری جانب چرواہے کا مفاد صرف اتنا ہوتا ہے کہ ریوڑ جوں کا توں ریوڑ ہی رہے ۔ریوڑ کی صبر ،قناعت اور اطاعت کی خصوصیات ،چرواہے کیلئے کس قدر خوش آئند ہیں۔ہر طرف جنگل ہے۔ بھیڑیں ہی بھیڑیں ہیں۔یہ سوچ کر چرواہا چین کی بانسری بجانے لگتا ہے جنگل میں مکمل خاموشی۔۔۔ ہو کا عالم۔صرف بانسری کی آواز پوری فضا میں پھیلتی چلی جاتی ہے چرواہے کو یہ ماحول بہت پسند ہے ۔