جنرل باجوہ، عمران خان کے ساتھ دوبئی کیوں گئے؟
مجھے اس لمحے کا بے چینی سے انتظار ہے کہ جب ہمارے ایک سابق صدرِ محترم زرداری، میڈیا پر آئیں گے اور پوچھیں گے کہ پاکستانی وزیراعظم اگر عرب امارات کے ایک دن کے دورے پر دبئی گئے تھے تو پاکستانی آرمی چیف کو ساتھ لے جانے کی کیا تُک تھی۔۔۔ مجھے اس بات کا بھی بے تابی سے انتظار ہے کہ جب ہمارے معزز سینیٹ کے ایک سابق چیئرمین جناب رضا ربانی، سینیٹ کے فلور پر گرجتے سنائی دیں گے کہ عمران خان تو جدھر چاہیں جائیں، وہ ’’بادشاہ‘‘ ہیں ان کو بھلا کون روک سکتا ہے لیکن اگر پاکستان میں جمہوری حکمرانی کا راج ہے، اگر پارلیمان کے دونوں ایوان موجود ہیں، اگر اراکینِ پارلیمان میں حزبِ اختلاف بھی ہے تو کیا یہ پاکستان کی جمہوری برانڈ کے خلاف ورزی نہیں کہ وزیراعظم بیرونی دورے پر جائے اور ساتھ فوج کے چیف کو بھی لے جائے۔۔۔ غضب خدا کا ایسا کبھی پاکستان کے گزشتہ جمہوری ادوار کی تاریخ میں ایسا ہوا ہے؟۔۔۔ اگر کسی ’’سروس چیف وغیرہ‘‘ نے کسی بیرونِ ملک دورے پر جانا ہے تو اکیلا جائے،
وہاں کے اپنے ہم منصب سے بات چیت کرے اور واپس چلا آئے۔ اسے کیا حق ہے کہ وہ وہاں کی سویلین حکومت کے اراکین سے بات کرے یا کسی غیر فوجی معاملے کی سُن گُن لے۔ یہ رموزِ مملکت تو خسروانِ مملکت کا خصوصی (Exclusive) حق شمار ہوتے ہیں اور خسروانِ مملکت میں سروس چیفس کی شمولیت چہ معنی دارد؟۔۔۔ مجھے یہ بھی خبر نہیں کہ نون لیگ اور پی پی پی کے بہت سے دوسرے عقاب تاحال منقارِ زیرِ پرکیوں ہیں۔۔۔ کس کس کا نام لوں۔۔۔ چھ ماہ پہلے کا میڈیا ریوانڈ (Rewind) کرکے دیکھ لیں۔ پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہوں کو بالعموم اور پاکستان آرمی کے چیف کو بالخصوص ایک ایسا ’’اچھوت‘‘ سمجھا جاتا تھا جس کے بارے میں جمہوریت کے یہ متوالے عجیب و غریب تاویلیں کیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ فوج تو حکومت کا محض ایک ماتحت ادارہ (Subordinate Organ) ہے، اس کو حکومتی سطح والی کرسیوں پر براجمانی کا کیا حق ہے؟ اگر یہ حق ہے تو صرف اور صرف ان سویلین وزیروں اور مشیروں اور بیورو کریٹس کا ہے جو وزیراعظم کی ہاں میں ہاں ملانے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ اگر وزیراعظم دن کو رات بھی کہے تو یہ اشرافیہ فوراً اعلان کرے کہ: ’’ہاں سر! بالکل رات ہے اور دیکھئے کہ آسمان پر چاند کیسا چمک رہا ہے اور ستارے کیسے جگمگا رہے ہیں سر! ۔۔۔ اور سر! یہ بھی دیکھئے کہ ان کی مدھم روشنی چھن چھن کر زمین تک کیسے آ رہی ہے۔۔۔ ویسے تو اندھیرے میںہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا سر، لیکن آپ کی فرمودہ اس ’’رات‘‘ کا اعجاز دیکھئے کہ چاندنی کی لودھرتی کے سینے کو چوم رہی ہے سر!۔۔۔ اور سر!۔۔۔‘‘
لیکن قارئین محترم! پاکستان آرمی کے یہی وہ اچھوت ہیں جن کے بارے میں پاکستان کے فکری تخلیق کار اور ہمارے قومی شاعر نے کہا تھا:
زاغ کہتا ہے نہائت بدنما ہیں تیرے پَر
شپّرک کہتی سے تجھ کو کور چشم و بے ہنر
لیکن اے شہباز، یہ مرغانِ صحرا کے اچھوت
ہیں فضائے نیلگوں کے پیچ و خم سے بے خبر
ان کو کیا معلوم اس طائر کے احوال و مقام
روح جس کی ہے دمِ پرواز سرتاپا نظر
یہ تین اشعار ضرب کلیم کی آخری طویل نظم میں دیکھے جا سکتے ہیں جس کا عنوان ہے: ’’محراب گل افغان کے افکار‘‘
ویسے تو یہ اشعار اردو میں کہے گئے ہیں لیکن اقبال کی اردو بھی کئی جگہ فارسی بن جاتی ہے اور چونکہ ہمارے انگلش میڈیم سکولوں/ کالجوں کے فارغ التحصیل نوجوان فارسی اور تھوڑی مشکل اردو سے نابلد ہیں اس لئے ان تین اردو اشعار کا ’’سلیس اردو ترجمہ‘‘ پیش خدمت ہے:
’’اے عقاب! کوا کہتا ہے کہ تمہارے پَر نہایت بد صورت ہیں۔ اور چمگادڑ جسے خود دن کو کچھ نظر نہیں آتا اور وہ اندھی ہو جاتی ہے وہ بھی تمہیں نابینا (کورچشم) اور کام کاج سے فارغ (بے ہنر) کہتی ہے۔۔۔ لیکن اے شہباز! یہ پرندے (کوے اور چمگادڑیں) جو جنگلوں اور صحراؤں میں رہتے ہیں، یہ گویا ان جنگلوں اور صحراؤں کے اچھوت ہیں۔ جنگلوں اور صحراؤں کے اصل پرندے تو وہ ہیں جن کے تم تاجدار ہو۔ یہ اچھوت بھلا کیا جانیں کہ اس نیلی فضا (آسمان) کے پیچ و خم کیا ہوتے ہیں۔۔۔ یہ کوے اور چمگادڑیں وغیرہ اس شہباز کے مقام و مرتبہ کو کیا سمجھیں کہ جب وہ نیلے آسمان کی وسعتوں میں پرواز کرتا ہے تو وہ عقاب نہیں رہتا بلکہ سرے پاؤں تک ’’نظر‘‘ بن جاتا ہے۔‘‘۔۔۔
دنیا جہان کو معلوم ہے کہ فوج، جمہوری حکمرانوں کے ماتحت ہوتی ہے لیکن پاکستان کے سابق جمہوری حکمرانوں کو یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اس حکمرانی اور ماتحتی کی مساوات کیا ہوتی ہے۔ یادش بخیر، مشاہد اللہ اور طلال چودھری اور عابد شیر علی اور رانا ثناء اللہ ٹائپ کے اراکین اسمبلی و سینیٹ تو فوجی کمانڈروں کو گھر کا ’’چوکیدار‘‘ سمجھتے تھے۔ ان کا استدلال تھا کہ گھر کے باہر بیٹھے گارڈ کا کیا کام کہ وہ گھر کے اندر ہونے والے ’’راز ہائے درونِ خانہ‘‘ کی خبر رکھے۔۔۔۔ اس کو تو صرف اور صرف ’چوکیدارا‘ کرنا چاہئے اور بس۔۔۔
لیکن ہم نے بچشم خود دیکھا کہ اسی ’’چوکیدار‘‘ نے کئی بار گھر کے اندر گھس کر سارے مکینوں پر بندوق تان دی اور باہر نکال دیا۔۔۔ اسی چوکیدار نے ایک مالکِ مکان کو ملک بدر کر دیا اور وہ دیارِ غیر میں اپنی طبعی مدت مرا، ایک اور مالکِ مکان جو ذرا زیادہ ہی چوکیدار کا ’’مدح خوان‘‘ تھا اس کو تختۂ دار پر کھینچ دیا گیا، انہی چوکیداروں میں سے ایک آخری چوکیدار وہ بھی تھا جس نے مکینوں کو پہلے ملک بدر کر دیا لیکن ان کو دوبار ملک میں داخل ہونے کی اجازت دے دی اور وہ ایک بھاری عوامی مینڈیٹ لے کر ایک بار پھر اس گھر کے مالک بن گئے اور ایک بار پھر اسی گارڈ کو چوکیدارا سونپ دیا ۔۔۔ یہ کھیل بعد میں بھی کئی بار کھیلنے کے مواقع آئے لیکن چوکیدار نے سوچا کہ کب تک یہ کھیل کھیلتے رہیں گے
اس لئے عوام کو سمجھایا گیا کہ ان کے حقوق کیا ہیں اور فرائض کیا ہیں۔ خدا کا شکر کہ عوام کے ایک کثیر گروہ کو یہ سمجھ آ گئی کہ ان کو ماضی کے مالکانِ مملکت دھوکا دیتے رہے ہیں، عوام کے خادم بن کر ان کو لوٹتے رہے ہیں اور ان کے خیر خواہ بن کر ان کی بد خواہی کی ساری حدیں کراس کرتے رہے ہیں۔۔۔۔ اب 71 برس بعد پاکستان اسی راہ پر گامزن ہوا ہے جس پر امریکہ، یورپ اور سارے ’’جدیدجمہوری ممالک‘‘ ہو چکے ہیں۔ میں ان جمہوری ممالک کے حکمرانوں کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنی فوج کو کبھی پاکستانی برانڈ چوکیدار نہیں سمجھا۔ ہماری طرح اس دوغلے پن کا مظاہرہ نہیں کیا کہ : ’’ہم فوج کے مخالف نہیں، جرنیلوں کے مخالف ہیں۔‘‘۔۔۔ کاش ان لوگوں نے وہ تاریخ پڑھی ہوتی جو ’’چوکیداروں‘‘ کے حقوق و فرائض کی تاریخ کہلاتی ہے!
یہ نیا پاکستان جو ہم بنتا دیکھ رہے ہیں یہ گویا 14 اگست 1947ء والا پاکستان ہے جس کا یہ دوسرا جنم کہا جا سکتا ہے۔ اس میں حقوق و فرائض کی مساوات دہی ہے جو جدید جمہوری دنیا میں ہے۔ اگر عمران خان نے اپنے آرمی چیف کو ساتھ لیا ہے اور ابوظہبی گئے ہیں تو کیا یہ مشورہ آرمی چیف نے انہیں دیا تھا یا ان سے درخواست کی تھی کہ ’’مجھے بھی ساتھ لے چلیں۔میں نے کبھی دبئی نہیں دیکھا‘‘۔۔۔ عمران خان کے ساتھ پاکستان کے کلیدی محکموں کے وزراء بھی تھے۔ (وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پہلے ہی امارات میں تھے)۔۔۔
قارئین کو دو تین باتیں اور بھی نوٹ کرنی چاہئیں۔۔۔ ایک تو یہ ہے کہ وزیر اعظم کا سرکاری استقبال ابوظہبی کے صدارتی محل میں ولی عہد محمد بن زائد بن سلطان النہیان نے کیا اور ان کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ ان کے ساتھ عرب امارات کی مسلح افواج کے ڈپٹی سپریم کمانڈر بھی تھے۔ ان کو اس لئے استقبالی وفد میں اس لئے لایا گیا کہ ہمارے آرمی چیف بھی عمران خان کے ہمراہ تھے۔
دوسرے 18 نومبر کی اس ملاقات میں جو اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں فیصلہ کیا گیا کہ دونوں ممالک ایک لانگ ٹرم اقتصادی شراکت کے رشتے میں پروئے جائیں گے۔ تجارتی اور اقتصادی تعلقات میں جو رکاوٹیں آئیں گی (یا موجود ہیں) ان کو یکسر ختم کیا جائے گا۔
اس ملاقات/ اعلامیہ سے پہلے امارات کا ایک وفد بھی پاکستان آیا تھا، اس میں جو فیصلے کئے گئے ان کو بھی اس اعلامیے میں شامل کیا گیا اور ان کو ایک ٹائم ٹیبل کے تحت کر دیا گیا۔ یعنی یہ نہیں کہ فلاں کام ’’سال‘‘ میں انجام پائے گا یا فلاں منصوبہ ’’جلد‘‘ تکمیل کو پہنچے گا۔۔۔ ایسا نہیں کیا گیا۔۔۔ باقاعدہ ایک نظام الاوقات وضع کیا گیا تاکہ ہر فیصلہ ایک حتمی تاریخِ تکمیل پر منتج ہو! ان موضوعات میں سرمایہ کاری، اقتصادی ڈویلپ منٹ، انرجی، زراعت اور انفراسٹرکچر جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔
اور اس اعلامیے کا آخری حصہ وہ تھا جو اہمیت کے اعتبار سے ’’آخری‘‘ نہیں تھا۔ اسی کے لئے آرمی چیف کو ساتھ لے جایا گیا تھا۔ اس حصے کے مطابق عرب امارات اور پاکستان، دفاعی معاملات میں بھی تعاون کریں گے۔ ان معاملات میں ٹریننگ، دفاعی پیداوار اور مشترکہ جنگی مشقیں شامل ہیں۔
کہنے کو یہ تین مختصر سے موضوعات ہیں۔ یعنی ڈیفنس پروڈکشن، ٹریننگ اور جوائنٹ ملٹری ایکسرسائزیں۔۔۔ لیکن ان کی تفصیل بہت وسیع و عریض ہے۔ یہ تفصیل کم بھی ہو سکتی ہے اور زیادہ بھی۔۔۔ جو قارئین دفاعی امور سے دلچسپی رکھتے ہیں ان کو معلوم ہوگا کہ اس ’’یک سطری‘‘ جملے کا مفہوم کیا ہے۔